ہوم << اپنے بچوں، عزت کی حفاظت کیسے کریں؟ انعام الحق

اپنے بچوں، عزت کی حفاظت کیسے کریں؟ انعام الحق

انعام الحق انسان کو اپنی زندگی میں ان گنت انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، چاہنے والے بھی ملتے ہیں، اور بے سبب دھتکارنے والے بھی، کسی کی چھوٹی سی خوشی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے بھی نظر آتے ہیں، تو ایسوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے چند لمحوں کو رنگین کرنے کے لیے دوسرے کی پوری زندگی کو بے نور کر دیتے ہیں۔ یہ مضمون ایسے ہی لوگوں سے اپنے دامن عفت کو تار تار ہونےسے بچانے کی کچھ سادہ سادہ باتیں اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔
قارئین کرام! ہمیں آئے روز ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں علاقے میں مسجد کے قاری صاحب نے بچی یا بچے کی ساتھ زیادتی کی، فلاں سکول کی آٹھویں جماعت کی طالبہ کے ساتھ استاد نے بدفعلی کی، فلاں علاقے میں کالج کی طالبہ کو اپنے کلاس فیلوز نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، یہ اور ان جیسی دیگر کئی خبریں دیوار دل کو زخمی کرتی رہتی ہیں۔ اس کے بعد مقامی سطح پر احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں میدان میں اترتی ہیں، بچی بچے اور اس کے گھر والوں سے اظہار ہمدردی اور یکجہتی کے نعرے لگائے جاتے ہیں، اور پھر کچھ دن بعد یہ درد صرف متعلقہ فرد تک محدود ہوجاتا ہے۔ اتنے میں کوئی نئی خبر منظر عام پر آ جاتی ہے اور پھر وہی ترتیب دہرائی جاتی ہے، مجرم کے قتل اور پھانسی کے مطالبے کیے جاتے ہیں اور پھر وہی سکوت!
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جو اس گھناؤنے جرم کی راہ ہموار کرتے ہیں، اور چمن انسانیت کے پھول اور کلیوں کو مسلنے کا بنیادی آلہ بنتے ہیں، ذیل کی سطور میں موجودہ معاشرے کے مختلف پہلووں (قطع نظر جواز وعدم جواز، و شرعی نقطہ نظر کی بحث) میں اس جرم کے اسباب اور علاج کو زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مختصر مضمون میں بچوں بچیوں، اور دہلیز جوانی پر قدم رکھنے والی دوشیزاؤں کو دوسروں کی طرف سے پہنچنے والی جنسی زیادتی کا سد باب کرنےکی کوشش کی، ایک عملی صورت زیر بحث ہے۔ اللہ ہرقسم کے شر، اور ہر شیطانی مکرو حیلوں سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ آمین
عرضِ حال
بچے یا بچی کو زندگی کے خوبصورت سفر میں کبھی کبھار ہوس کے مارے انسانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں بعض تو عادی مجرم ہوتے ہیں، اور بعض متعلقہ فریق کے عدم احتیاط، معصومیت، لا علمی، اور اندھے اعتماد کی آڑ لیتے ہوئے اس کے دامن عفت کو تار تار کر دیتے ہیں، اور بعض اوقات جب دھونس اور دباؤ کے باوجود جرم کے منظر عام پر آنے کا خطرہ ہو تو چراغ زندگی گل کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔
اس جرم کا سد باب دو طریقوں سے ممکن ہے، پہلا یہ کہ: جب بچہ عقل و شعور کی اس حد تک نہ پہنچا ہو جہاں وہ اچھے برے میں فرق کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جسمانی حفاظت کا سامان کرنے کے قابل بنے تو اس مرحلے میں والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کو ہر اس رویے سے دور رکھیں، جو اس کی عفت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہو۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب بچہ یا بچی خود سمجھداری کی حد کو پہنچ جائے تو وہ کن طریقوں سے اپنی حفاظت کریں، اور والدین اس معاملے میں کیسے مددگار بنیں۔ ذیل میں ان کےضمنی گوشوں کو مخلوط اندازمیں تحریر کیا گیا ہے۔
اس تحریر کا قطعا یہ مقصد نہیں کہ نگرانی اور احتیاط کے پہلو کو اس سختی سے اختیار کیا جائے کہ بچہ یا بچی اپنے آپ کو انسانوں بھری اس دنیا میں بالکل تنہا، اور ہر دیکھتی آنکھ کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دے۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان امور کو سرانجام دیتے ہوئے خوش اسلوبی اور حکمت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے، تاکہ بچے اور والدین کے مابین اعتماد کی فضا بھی برقرار رہے اور نگرانی کا عمل بھی جاری و ساری رہے۔ ان تمام امور میں والدین کا کردار ایک اچھے دوست کی صورت میں نگران کا ہے، نہ کہ حاکمانہ اور مشکوک نظروں سے دیکھنے والے کسی سیکورٹی ادارے کے فرد کا۔
اسباب و علاج
تنہائی ایک خطرہ
اس جرم کا بنیادی محرک تنہائی ہے، عموما ایسے واقعات ٹیوشنر (ہر دو قسم کی خواہ دینی تعلیم کے لیے ہوں خواہ عصری علوم کے لیے)، پرائیویٹ کوچنگ کلاسز، قاری صاحب کے پاس اکیلے کلاس لینے، عامل بابا کےخلوت کدے میں ’’روحانی علاج‘‘ لینے، کسی ڈاکٹر سے تنہائی میں طبی مشورہ لینے، افسر کے ساتھ خصوصی میٹنگ کے دوران سیکرٹریز کے ساتھ، اور سکونتی (آکاموڈیٹٹ) اداروں میں پیش آتے ہیں، یقیناً ان کیسز کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو منظر عام پر نہیں آتی، جس سے متعلقہ فرد کے علاوہ کوئی بھی باخبر نہیں ہوتا، والدین، یا بہن بھائیوں کے سامنے ان کیسز کو سامنے لانے سے شرم و حیا مانع ہوتی ہے، اور پولیس کی دہلیز پر جانے سے عزت کا جنازہ نکلنے کا خوف ہوتا ہے، جو اس دکھ اور اذیت کو راتوں کی تنہائیوں میں تکیوں پر گرتے آنسوؤں، اللہ سے التجاؤں اور بعض اوقات خود کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
متعلقہ افراد پر اندھے اعتماد سے پرہیز
استاد، قاری صاحب، ڈاکٹر صاحب اور عامل بابا، والد صاحب کے دوست، اور محلے دار کو فرشتہ تصور کرتے ہوئے ہم ان تمام احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں، جس سے ان افراد کو دوسروں کی عزت پر دست درازی کا موقع ملتا ہے۔ کسی نے بھی اس معاملے میں اپنے ادارے سےیہ تربیت نہیں لی ہوئی ہوتی کہ وہ اپنے اس پیشے کو کسی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کے لیے کیسے استعمال کرے گا؟ ان میں سے ہر ایک عموما اپنے پیشے سے مخلص اور متعلقہ فرد کے بارے میں پہلے سے ایسا سوچنے والا نہیں ہوتا، بس ادھر ذرا سا غلط قدم بڑھایا اور ادھر شیطانی حملے کا شکار ہو گئے، اور احتیاطی تدابیر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پھول سے بچے اور بچیاں ان کی درندگی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اور ہم بعد ازاں ان اداروں (مدرسہ، سکول، کالج، ہسپتال وغیرہ) کو کوسنا شروع کرد یتے ہیں، بچی یا بچے کا تعلیمی سلسلہ روک دیتے ہیں، ان تمام اداروں سے پوری زندگی کے لیے بدظن ہوجاتے ہیں، جبکہ کہ اصل اقدام یہ نہیں ہے۔
مؤثر نگرانی کی ضرورت
اگرچہ ہمیں عمومی طور پر مذکورہ بالا تمام افراد سے کسی نہ کسی درجے میں رابطہ رکھنا پڑتا ہے، لیکن پھر بھی والدین کو چاہیے کہ سکول، کالج کے علاوہ اپنے بچوں کے تعلیمی رہبر خود بنیں، چھوٹی کلاسوں میں انہیں خود تعلیمی رہنمائی دیں، خود میں اتنی صلاحیت پیدا کریں کہ اپنے بچے یا بچی کو گھر پر خود قرآن کریم ناظرہ پڑھا سکیں، لیکن اگر اس سب کے کچھ کے باوجود گھر پر استاد رکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس کی ترتیب ایسی بنائیں کے استاد اور بچہ بچی دوران سبق آپ کی نظر میں رہیں، ایسے وقت میں کلاس کا بندوبست کریں کہ والدین میں سے کوئی ایک گھر پر موجود ہو، کسی نہ کسی حوالے سے استاد کو یہ احساس رہے کہ وہ کسی کی نگرانی میں، اور اس کی کوئی بھی نازیبا حرکت پل بھر میں بچے یا بچی کے والدین کے پاس پہنچ سکتی ہے۔
اگر کسی ناگزیر وجہ سے بعض اوقات تدریس کے اوقات میں والدین کا گھر پر رہنا ممکن نہ ہو تو بچوں کو چھٹی کروائی جائے جو کہ آج کل بالکل مشکل نہیں، صرف ایک فون کال سے اس مشکل کو حل کیا جاسکتا ہے، تدریس کے وقت سے پہلے استاد صاحب کو کال کر دی جائے کہ آج کلاس نہیں ہو پائے گی، اس طرح استاد کا وقت بھی بچے گا اور احتیاط کا دامن بھی چھوٹنے نہیں پائے گا۔
چھوٹے بچوں کو کسی بھی طور سبق کے بعد سکول یا مدرسے میں ٹھہرنے سے روکا جائے، بچی یا بچے کے گھر آنے جانے کے وقت کو باقاعدگی سے زیر نظر رکھا جائے، تاخیر کے صورت میں وجہ پوچھی جائے، جو وجہ بتائی جا رہی ہے اس کے عقلی اور زمینی امکان کو جانچا جائے۔ اگر کوئی استاد کاپی، کتاب، یا نوٹس لینے یا دینے کے لیے بلاتا ہے تو والدین میں سے کوئی یا بھائیوں میں سے کوئی بڑا ساتھ ضرور جائے، اس طرح کرنے میں حرج ضرور ہے لیکن اچھائی کےلیے اس ترتیب کو اختیار کرنا پڑے گا۔
اساتذہ کو بھی اس معاملے میں تعاون کرنا چاہیے، اور وہ کسی ایسی ضرورت کو باقی ہی نہ رہنے دیں جو پرائیویٹ ملاقات کا سبب بنے، اگر والدین کی طرف سے ایسے احتیاطی رویے سامنے آئیں تو اس میں اپنی سبکی محسوس نہ کریں اور نہ ہی یہ آپ پر اعتماد کی کمی کا احساس پیدا ہونے دے، بلکہ اپنے آپ کو ایک والد یا والدہ کی جگہ پر رکھ کر سوچیں، اور بچے یا بچی کو اپنے بچے یا بچی کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ ایسے موقع پر وہ خود کیا کرتے؟ا سی طرح اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ وہ بھی انسان ہیں اورا ن کے قدم پھسلنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اس طرح اعتماد کی فضا بحال ہوگی۔ اگر ایسی ناگزیر کیفیت بنتی ہے تو خلوت سے بہر صورت اجتناب کیا جائے۔
جنس مخالف سے اختلاط سے اجتناب
اسی طرح بعض بچے اساتذہ کے گھروں پر ٹیوشن کلاسز لینے کے لیے جاتے ہیں، والدین اس معاملے میں چند باتوں کا خصوصی لحاظ رکھیں کہ:
کچھ بڑی عمر کے بچے اور بچیوں کے لیے استاد کا انتخاب کرتے ہوئے اس کی جنس کو زیر نظر رکھیں، بچوں کے لیے استاد اور بچیوں کے لیے استانی کا بندوبست کریں۔ ان کے گھریلو ماحول سے مکمل آگاہی حاصل کریں کہ وہ اکیلا رہتا یا رہتی ہے یا گھر والوں کے ساتھ ہے، استاد یا استانی کا کس قسم کے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے، اس کو کھوجنے کی کوشش کریں، اور یہ کوئی مشکل بات بھی نہیں ہے، اس کے لیے آپ کو صرف اتنا کرنا پڑے گاکہ متعلقہ استاد کا دوست بننا پڑے گا اور حقیقت آپ پر آہستہ آہستہ کھل جائے گی۔
بچوں اور والدین میں باہم اعتماد کی بحالی
بچوں کے قریبی دوست بن کر ان کو اعتماد میں لیں،گھر میں حکمران بن کر رہنے کے بجائے اولاد کے دوست بن کر رہیں، بچوں کی نفسیاتی کیفیات کو سمجھنےکی کوشش کریں، ہنستے ہنساتے بچے کے چہرے پر اگر سبق کے دورانیے یا کسی گھر سے لوٹ کر آنے میں افسردگی کا عنصر غالب نظر آئے تو قریبی دوست بن کروجہ جاننے کی کوشش کریں، خدانخواستہ تمام تر احتیاطی تدابیر کے بعد بھی کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجاتا ہے، یا کسی ایسے واقعے کی بنیادیں تیار ہو رہی ہوں تو وہ بلاجھجک والدین یا بڑے بہن بھائیوں میں سے کسی کو بتا سکیں، اور ان کو اپنا تعلیمی اطالیق، یا ادارہ تبدیل کرنے میں کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے۔ اپنا درد بیان کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بچوں کی ذہنی تریبت
اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو اس بات کا مکمل احساس دلایا جائے کہ ان کا جسم اور خاص طور پر ان کے مخصوص اعضا صرف اور صرف ان کی ملکیت ہیں، کسی کا ان کو غلط طرزعمل سے چھونے، سہلانے، چومنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بچوں کو عمومی طور پر چہرے پر پیار سے چوما وغیرہ جاتا ہے، اس حوالے سے بھی یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ سات آٹھ سال کی عمر کے بعد پیار کے اس ظاہری اظہار سےعمومی اور اکیلے میں خصوصی طور پر دور رہنے کی تلقین کی جائے، اگرچہ ایسا کہنا مشکل ضرور ہے لیکن اس سے کئی گنا زیادہ دکھ کو جھیلنے سے مشکل نہیں ہے جو اس کیفیت کے بعد سامنے آتا ہے۔
بچے اور گلی محلے کےگھر
بعض اوقات گلی محلوں میں مختلف افراد کے گھروں سے مختلف چیزیں منگوانے یا بھجوانے کا سلسلہ بھی جاری رکھنا پڑتا ہے، ایسی صورت میں کسی ایسے گھر میں بچے یا بچی کو اکیلا نہ بھیجیں جہاں صرف مرد رہتے ہوں، یا خاندان ہونے کے باوجود کسی وجہ سے موقع پر گھر میں صرف مرد یا کوئی نوجوان لڑکا موجود ہو۔ ضرورت کے وقت خود جائیں۔
بعض بچے اڑوس پڑوس کے گھروں میں کسی بڑی عمر کے منہ بولے بھائی کے پاس ویڈیوگیمز وغیرہ کھیلنے میں کافی دلچسپی دکھاتے ہیں، اس سلسلے کو جس حد تک ممکن ہو ختم کریں۔ بچوں کو گھر پر مناسب سرگرمیاں فراہم کریں۔ کمپیوٹر گیمز تک رسائی کوئی مشکل بات بھی نہیں ہے کہ جس کاگھر پر بندوبست نہ کیا جاسکے۔ اور یہ اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی بچے بھی ان تمام تفریحات سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، اگر آپ ان کو اپنی نگرانی میں مناسب موقع فراہم نہیں کریں گے تو پھر وہ کئی نفسیاتی مسائل کا شکار بنیں گے، یا آپ سے جھوٹ بولتے ہوئے دوسروں کے گھروں میں وقت گزاری کرتے رہیں گے۔ اس گفتگو سے قطعا یہ نتیجہ نہ اخذ کیا جائے کہ بچوں کو دوسروں کے گھروں میں جانے سے مکمل طور پر روک دیا جائے ۔
بچے اور بازار
اسی طرح بہت چھوٹے بچوں کو دوپہر میں اور خاص کر گرمیوں کی دوپہروں میں جبکہ بازار عموما سنسان ہوتے ہیں، اور چند ایک دکانوں کے علاوہ بازار بند ہی ہوتے ہیں، ایسے میں ان کو سودا سلف لانے کے لیے مت بھیجیں، اگر ضروری کیفیت ہو مثلا کوئی مہمان وغیرہ آگیا ہو تو ساتھ میں کسی دوسرے بچے کو بھی بھیجیں یا خود جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچے کو اس حوالے سے بھی خصوصی ہدایات دیں کہ سودا سلف لیتے ہوئے کبھی بھی دوکان کے اندر داخل نہ ہو، دکان دار اندر آنے کا کہے بھی تو منع کریں۔ یہی حال گلی محلوں کا ہوتا ہے جو بالکل سنسان ہی ہوتی ہیں، ایسے میں کوئی منچلا آپ کے بچے یا بچی کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
یاد رہے بچیاں اور بچے تمام عمر والدین کے لیے بچے ہی رہتے ہیں، اگرچہ وہ شادی شدہ ہی کیوں نہ ہوں، لیکن معاشرے کی چھبتی نظریں ان کے وجود کی تبدیلوں کا طواف کرتی رہتی ہیں، اس لیے جب بچیاں زندگی کے اس مرحلے میں داخل ہونے لگیں تو ’’ابھی تو یہ بچی ہے‘‘ کہتے ہوئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے بجائے حقیقت کو سمجھیں، انہیں دوپٹہ لینے کی تلقین کریں، ان کے لباس کا خاص خیال رکھیں اور بغیر کسی انتہائی ضرورت کے خریداری وغیرہ کے حوالے سے ان کے اکیلے بازار آنے جانے، بلا روک ٹوک محلے کے مختلف گھروں میں اکیلے آنے جانے کو محدود کریں۔
بچے اور ویڈیو گیمز
بعض بچے محلےمیں لگی ویڈیو گیمز کی دکانوں میں بہت دلچسپی لیتے ہیں، جہاں عمومی طور پر جواریوں کی محفلیں بھی گرم رہتی ہیں، اور ہر اوچھا لفنگا وہیں نظر آتا ہے، جہاں تنہائی کے کسی بھی لمحے میں ایسا تعلق جنم لے سکتا ہے جس کا انجام بہرحال نقصان دہ ہو، اس لیے اس سلسلے کو بالکل بھی قائم نہ ہونے دیں، اور اگر سختی سے بھی روکنا پڑے تو یہ بھی کر گزریں، لیکن ضروری ہے کہ اس سے پہلے گھر کے پاکیزہ ماحول میں اس کا متبادل موجود ہو، یعنی کمپیوٹر اور بچوں کی عمر کے مطابق ویڈیو گیمز۔
بچوں کے سونے کےکمرے
بچپن کی عادتیں پوری زندگی ساتھ رہتی ہیں، اس لیے چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے کوئی ایسی عادت نہ جنم لے لے جس سے پوری زندگی جان چھڑانا ممکن نہ رہے۔ اس سلسلے میں اہم نکتہ بچوں کے بستر ہیں، ان کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے، پہلو بہ پہلو بستروں کے بجائے، جس حد تک ممکن ہو ان کے بستر علیحدہ لگائے جائیں، یہی حال رہائشی اداروں کا ہے کہ وہاں بھی اس معاملے کو انتہائی دقت نظر سے دیکھا جائے اور ایسے مناسب انتظامات کیے جائیں کہ اخلاقی پستی میں گرنے کا امکان کم ترین درجے پر چلا جائے ۔
نوجوان لڑکیوں اور ان کے والدین سے کچھ باتیں
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کی عمر ایسی ہے جب جذبات ہواؤں کے دوش پر ہوتے ہیں، اور انسان خود میں ہر اس صلاحیت کو محسوس کرتا ہے جو اس میں حد درجے اعتماد پیدا کرتی ہے، یہ تفریح کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس کی قیمت بعض اوقات بہت مہنگی پڑتی ہے، دوستوں کی پرائیویٹ پارٹیوں ( برتھ ڈے پارٹیاں، عید ملن پارٹیاں وغیرہ) کا فیشن زوروں پر رہتا ہے، اور بعض اوقات محبت اور عشق کے نام پر تکلف کا ہر پردہ چاک کردیا جاتا ہے، دوسروں کے میٹھے بولوں کے برساتی نالوں میں یہ نازک کلیاں اس وقت تک بہتی چلی جاتی ہیں جب تک کسی خار میں پھنس کر اس کی پتیاں زخمی نہ ہوجائیں۔ رہی سہی کسر آج کل کے دور میں کیمرے والے موبائلوں اور خفیہ لگے ہوئے کیمروں نے پوری کر دی ہے، جبکہ ایڈیٹنگ سافٹ وئیرز کے کمالات نے تو اس معاملے کو انتہائی نازک بنا دیا ہے۔ سر عام اور اس جیسے دیگر ٹی وی پروگرام جو اس جیسے میدان میں بہت اچھا کردار ادا کر رہے ہیں، صاف انداز میں بتاتے ہیں کہ کسی کی بنائی ہوئی ویڈیو یا تصویریں اس کے جنسی استحصال کا سبب کیسے بنتی ہیں، اور اس میدان میں بچی اس کے گھر والوں کو کس حد تک مشکلات اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیےجنس مخالف سے جس حد تک دور رہا جا سکے دور رہیں، اور اپنے مابین تکلف کی دیوار ہمیشہ کھڑی رہنے دیں، تاکہ نہ آپ کسی کا شکار بنیں اور نہ کوئی آپ کی غلطیوں کی بھینٹ چڑھے، ان لڑکیوں سے بھی دور رہیں جس کا لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں سے ساتھ زیادہ اٹھنا بیٹھنا ہو۔
عشق اندھا ہوتا ہے
یاد رہے کہ جس طرح کئی چیزوں کا دکھاوا اس کی اصلیت نہیں ہوتا، اسی طرح ہر میٹھا بول بولنے والا آپ کو چاہنے والا نہیں ہوسکتا، ایسے فرد کو صرف اپنی نظر سے نہ دیکھیں کسی دوسرے کی نگاہ پر بھی اعتماد کریں، وہ کہتے ہیں نہ کہ عشق، عاشق کو اندھا کر دیتا ہے، محبوب کی ہزاروں خامیوں پر اس کی ایک خوبی بھاری نظر آتی ہے۔ لیکن اگر اس سب کچھ کے باوجود بھی کبھی لبوں پر آتا ہوا کوئی نام، یا آنکھوں سے ہوتے ہوئے دل کی دہلیز پر اترتا کوئی چہرہ دل کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہو تو بھی اس کی تنہائیوں کی زینت نہ بنیں، اس کے کیمرے سے تعلق قائم نہ کریں، کلوزاپ سین نہ بنوائیں، اس لیے کہ جس کو آپ سے محبت نہیں، وہ آپ ہی کی تصویروں کو غلط مقاصد میں استعمال کرے گا، اور جس کو آپ سے محبت ہے، اس کو آپ کی تصویر کی ضرورت نہیں کہ اس کا دل آپ کی تصویروں سے ہر وقت منور رہنا چاہیے۔ اس معاملے میں اس قسم کی تصویروں اور ویڈیوز کو اپنے اوپر حرام کر دیں، اور اس کا بلاجھجک اظہار کریں، اس فرد کی طرف ہاتھ بڑھانے کے بجائے اپنی اس دلی کیفیت میں والدہ کو ہم راز بنائیں، اور ان کی نصیحتوں کو پلو سے باندھ لیں، اس لیے کہ وہ یقینا اس دنیا اور اس کے مزاجوں کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں، وہ زندگی کی ان راہوں سے گزر کر آئے ہوتے ہیں جن سے آپ کو اب واسطہ پڑ رہا ہے۔ اس معاملے میں والدین بھی اولاد کے دوست بنیں، اس جذبے کو فطری جذبے پر محمول کرتے ہوئے اس کے بھلائی پر مبنی نتیجے کے لیے درست راہ کا انتخاب کرنے میں اولاد کے ساتھ تعاون کریں۔ اس لیے کہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو آپ کی اولاد آپ سے جھوٹ بول کر نادانی سے ایک ایسے راستے کا انتخاب کرے گی، جو کسی بھی طور اس کے حق میں نہیں ہوگا کہ کسی نام نہاد عاشق کے حسین الفاظ کے جال میں بیٹی گھر کی دہلیز پھلانگ کر کسی ایسے درندے کے ہاتھ لگ جائے جو اسے کسی کوٹھے کی دہلیز پے پہنچا دے، جہاں کا ہر لمحہ موت سے بدتر ہو۔
گروپ سٹڈیز اور والدین کی ذمہ داریاں
طلبہ و طالبات کی تعلیمی زندگی میں ایک اہم ترتیب امتحانات کے دنوں میں گروپ سٹڈیز کی محفلیں (میٹنگز) ہیں۔ اگر دوستوں کی محفل شروع ہی سے اپنی جنس کے دوستوں تک محدود ہو تو کوئی خاص مسئلہ پیدا نہیں ہوتا لیکن جب دوستوں کی محفل مخلوط ہو تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچیوں یا بچوں کو دوسروں کے گھروں میں بھی ایسی ضرورت کی تکمیل کے لیے جانا پڑتا ہے، اس صورت میں والدین کی ذمہ داری کچھ زیادہ بڑھ جاتی ہے لیکن اگر ایک منظم صورت میں نگرانی کا سلسلہ برقرار رکھا جائے تو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، جس کےلیے بچوں کے والدین کے مابین دوستانہ تعلق کا ہونا ضروری ہے، والدین کو یہ بات پورے وثوق سے معلوم ہو کہ بچی یا بچہ کس دوست کے گھر میں پڑھنے جا رہا ہے، سبق کا دورانیہ کب تک رہا، اور وہاں سے واپسی کس وقت ہوئی، اس بچے کے والد یا والدہ سے اگر اچھا دوستانہ ہوگا تو اس بات کا معلوم کرنا قطعا مشکل نہیں ہوگا کہ حقیقتا گروپ سٹڈی ہوئی ہے یا صرف والدین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اس ہتھیار کو استعمال کیا گیا ہے، جو کہ خدانخواستہ آنے والے دنوں میں کسی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
دوست کے گھر پر
اسی طرح بعض اوقات لڑکیوں کا اپنی سہیلیوں سےگھروں پر ملنے کا سلسلہ رہتا ہے، اس سلسلے میں بچیاں کچھ باتوں کا خصوصی خیال رکھیں:
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گھر کا دروازہ کوئی مرد کھولتا ہے، یہ آپ کی سہیلی کا بھائی بھی ہوسکتا ہے، والد، یا کوئی اور بھی، وہ چاہے کتنا ہی پارسا کیوں نہ ہو، اس کے چہرے سے نور کیوں نہ جھلک رہا ہو، محض اس کے یہ کہنے پر کہ:’’آپ کی سہیلی گھر پر ہے، آپ آ جائیں‘‘ گھر میں داخل نہ ہوں، جب تک کہ آپ کی سہیلی دروازے پر نہ آجائے۔ پھر گھر میں بیٹھتے وقت بھی ایسی جگہ کا انتخاب ہونا چاہیے جہاں ہر آنے جانے والے سے واسطہ نہ پڑے، اور اس بات کا سہیلی سے کہہ دینا نہ تو مشکل ہے اور نہ ہی کوئی اوچھی بات۔ اگر کسی سہیلی کے گھر میں ایسا ہونے کا اندیشہ ہو، یا اس کے بھائیوں کی نظروں میں ہلکا سا بھی شائبہ نظر آئے تو بغیر کسی انتہائی ضرورت کے اس گھر مت جائیں، یا اگر جانا ہی ہو تو والدہ یا بہن وغیرہ کو ساتھ لے کر جائیں۔ جہاں بھی جائیں گھر والوں کو بھی پوری وضاحت سے معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کس کے گھر جا رہی ہیں، اور کب تک واپس آئیں گی؟ بہتر یہی ہے کہ ایسی صورت میں آپ کے بھائی یا والد صاحب آپ کو متعلقہ گھر چھوڑ کر جائیں اور وقت پر واپس لینے آئیں، ایسا کرنا آپ کو متعلقہ گھر میں نفسیاتی اطمینان بھی دے گا اور گلی محلے کے اوباشوں کی سیٹیوں اور چبھتی نگاہوں سے بھی محفوظ رکھے گا۔ والد صاحب اور بھائیوں کو اگر اپنی بہنوں کی عزت عزیز ہو تو اس معاملے میں تعاون کرنا کچھ مشکل نہیں۔
انٹرنیٹ اور فون کا استعمال:
فون اور انٹرنیٹ کے استعمال کو مثبت حدوں میں رکھا جائے۔ فون اور انٹرنیٹ پر ان جانے افراد سے دوستی کے بندھن قائم کرنےسے اجتناب کریں، اجنبیوں سے چیٹنگز اور گپ شپ کو زہر قاتل سمجھیں۔ آج کتنے ہی واقعات ہمارے سامنے ہیں جن میں سوشل میڈیا یا موبائل کالز سے بننے والی دوستیوں نے حوا کی بیٹیوں کو درندہ صفت انسانوں کی ہوس کا نشانہ بنایا، جہاں نام نہاد دوست اور دوست کے دوست شریک جرم رہے، پھر ویڈیوز بنا کر بار بار بلیک میلنگ کا سبب بنتے رہے۔ میری ان بہنوں سے یہ عرض ہے کہ دل کے معاملے میں خصوصی طور پر ہر کوئی اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے اور یہی سمجھتا ہے کہ کل جو حوا کی اک بیٹی کسی کی ہوس کی بھینٹ چڑھی تھی، وہ صرف اس کا مسئلہ تھا، چونکہ اس کی نظر انتخاب میں کچھ غلطی تھی، اس لیے اس کو اپنی ناسمجھی کا خمیازہ بھگتنا پڑا؛ ہم نے جس شہزادے کو چنُا ہے، اس کا دل آئینے سے زیادہ صاف اور زمزم سے دھلا ہوا ہے؛ جبکہ گذشتہ کئی مہینوں سے میری اس کے ساتھ بات چیت بھی چل رہی ہے، وہ میرا کالج فیلو ہے، میں اس سے صحیح معنوں میں آشنا ہوں، آج اگر وہ بائیک پر کچھ سیر کرانے کے لے کر جانا چاہتا ہے، کسی کیفے میں ملاقات کا خواہاں ہے، کسی پارک کے کونے میں کسی درخت کی ٹھنڈی چھاؤں کے نیچے بیٹھنے یا ماں کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے اپنی ماں سے ملوانے گھر پر لے کر جانا چاہتا ہے تو اس میں کون سا بڑا مسئلہ ہے۔
لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ جہاں موٹرسائیکل گھر کی دہلیز پر جانے کے بجائے دوست کے دوست کے اپارٹمنٹ کے دروازے پر رکتی ہیں اور حوا کی یہ بیٹی اس نام نہاد عاشق کے الفاظ کے جال میں آنکھیں بند کیے پھنستی چلی جاتی ہے، یا پارک کے کسی کونے میں بیٹھے گفتگو کے بہانے ہاتھ جسم کا طواف کرنے لگتے ہیں، یا گھر میں پہنچنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس دوست کی والدہ تو گھر پر نہیں ہیں، چند منٹوں میں واپس آجائیں گی، کچھ انتظار کرنا پڑے گا، لیکن یہ انتظار اس خوفناک نتیجے کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے کہ جب چادریں کھینچتی ہیں اور عزتیں نیلام ہوتی ہیں، مدہوش کرتے جوس کے قطرے حلق میں انڈیلنے کے بعد پتہ لگتا ہے کہ آج تو سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، پھر ویڈیوز بنتی ہیں، بعد ازاں بلیک میلنگ کا سلسلہ چل پڑتا ہے اور پھر نتیجتا یا تو سسک سسک کر مرنے یا ایک دم سے زندگی کی ڈور توڑنے کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام مشکلات کا صرف ایک ہی حل ہے کہ کسی ایسے تعلق کو بننے ہی نہ دیا جائے، کالج میں پنپنے والے ہر تعلق کو کالج کی چار دیواری تک محدود رکھیں، تنہائی میں ملاقات کی کسی دعوت کو قبول ہی نہ کریں، ان تمام نفسیاتی حربوں کو پہلے سے سمجھ لینا چاہیے جو ایسے اوباش وقتا فوقتا استعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔
جنس مخالف کے استاد اور دیگر افراد
جنس مخالف کے اساتذہ سے سبق کے علاوہ قربت سے یکسر اجتناب کیا جائے، اگر کسی ضرورت کی بنا پر ان کے آفس میں جانا پڑے تو تنہا جانے کے بجائے قابل اعتماد دوست یا دیگر افراد کی موجودگی میں ملاقات کی جائے۔ اسی طرح علاج معالجے کی ضرورت کے وقت معمولی کیفیت کےمسائل، یا خاص جنسی مسائل میں اپنی ہی جنس کے معالج سے رابطہ کیا جائے، مرد مرد ڈاکٹر سے اور لڑکیاں خواتین ڈاکٹرز سے رابطہ کریں۔ یہاں پر یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ ہم ایک زمانے سے اس نظام میں چلے آ رہے ہیں، ہمارے ساتھ تو کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی معالج صاحب کی چبھتی نظروں نے ہمارے وجود کا طواف کیا ہے تو یہ بات ذہن میں رہے کہ ایسے واقعات میں سے اکثرمنصوبہ بند نہیں ہوتے، بس ایک ہی دفعہ میں ہوتے ہیں اور انسانی عزت کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔
اساتذہ اور دیگر افراد بھی اس معاملے میں تعاون کریں، یہاں اپنے ایک استاد محترم کے حوالے سے بات یاد آئی تو ذکر کرنا مناسب سمجھا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ان کا طالب علم رہنے کا شرف نصیب ہوا، جو اب بھی وہاں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اپنی کلاسیں لیتے وقت اکثر اوقات ان استاد محترم کے کمرے کے آگے سے گزرنا پڑتا تھا، چونکہ اسلامک یونیورسٹی مخلوط نظام تعلیم سے دور ہے، اس وجہ سے طالبات کو تعلیمی معاملات میں مشاورت کے لیے لڑکوں کے کیمپس میں متعلقہ اساتذہ کے پاس آنا پڑتا ہے، اس لیے بارہا یہ دیکھا کہ جب کوئی لڑکی ان سے کسی ایسے معاملے میں مشورہ لینے، اسائنمٹ جمع کرانے آتی تو آپ اپنے آفس کے دروازے میں کرسی رکھ کر اسے کھلا رکھتے جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک تو اپنے آپ کو ہر قسم کے شبہے سے بچانے کی کوشش اور دوسری طرف شیطانی حربوں سے محفوظ رہنے کے لیے ایک احتیاطی تدبیر۔ اگر اس دور کے دیگر اساتذہ بھی ایسے رویے کو اختیار کریں تو یقینا نفس اور شیطان کو اس میدان میں منہ کی کھانی پڑے گی، جس سے نظروں میں پاکیزگی اور کردار میں پختگی حاصل ہوگی۔
محارم یا ملازموں کے ساتھ طویل تنہائی
والدہ کو خوشی یا غمی کی کسی تقریب میں شرکت کے لیے ایک یا زیادہ دنوں کے لیے گھر سے دور جانا پڑے تو ایسی صورت میں اکیلی لڑکی کو اکیلے بھائی، سوتیلے باپ یا ملازمین کے رحم وکرم پر مت چھوڑیں، یا تو اسے بھی ساتھ لے جائیں، یا والدین میں سے کوئی ایک گھر پر ٹھہرے۔ مختلف اداروں کی رپوٹوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ والدین کی عدم موجودگی میں کئی مرتبہ محارم کے دل و دماغ بھی نفس کے غلام بن کر ایسا کر بیٹھتے ہیں جس کا تصور روح کو لرزا دیتا ہے، ایسے واقعات اسی تنہائی کا خمیازہ ہوتے ہیں، جو ایسے موقعوں پر میسر آتی ہے، جہاں موجود دور کی رومانوی فلمیں، انٹرنیٹ کی فحش سائٹس، اور برے دوستوں کی محفلیں اس جرم کے لیے بیج کا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ معاملہ دیگر تمام معاملوں سے زیادہ خطرناک ہے، اس لیے کہ اس میں اگر بہن یا دیگر محرم مجرم کے جرم کو سامنے لاتی ہے تو اپنے ہی گھر کی عزت نیلام ہوتی نظر آتی ہے، اس لیے وہ اندر ہی اندر جلتے کڑھتے یہ زخم سہتی ہے۔
دوران سفر مشکلات
حیوانی صفات اپنے اظہار کے لیے کوئی نہ کوئی موقع تلاش کر ہی لیتی ہیں، کئی مقامات پرگاڑیوں میں دوران سفر بچوں اور جوان لڑکیوں کو ایسے درندوں کے ہاتھوں، آنکھوں کے اشاروں، پاؤں کی ٹھوکروں سے اذیت میں مبتلا دیکھا ہے۔ اگر سفر طویل ہو تو اس کا سب سے مناسب حل کسی محرم کو سفر میں ساتھ لینا ہے کہ اس کی حفاظت کی چھتری آپ کے ساتھ رہے، اس کے باوجود بھی اگر گاڑی کی سیٹوں کے کناروں سے کوئی ہاتھ آپ کے وجود کو چھونے کی کوشش کرے تو اس مصیبت سے چھٹکارے کے لیے تیز دھار سوئی وغیرہ ساتھ رکھیں (یہ کام سیفٹی پنوں سے بھی لیا جاسکتا ہے) اور اس کا بھرپور استعمال کریں۔ اس کے باوجود بھی اگر بدتمیزی بند نہ ہو تو اپنی محرم کو بلاجھجک اس کیفیت سے آگاہ کریں تاکہ کہ اس کو بھرپور سبق دیا جا سکے۔ لیکن اس معاملے میں اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ کسی معصوم کو تکلیف نہ پہنچے یعنی بسا اوقات پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے فرد کا ہاتھ سیٹ کے اوپر سے انجانے میں ٹکرا جاتا ہے، اور بعض اوقات سوئے فرد نے اگر پاوں لمبے کیے ہوئے ہوں تو تب بھی غلطی سے سیٹ کے نیچے سے پاؤں ٹکرا جاتے ہیں، اگرچہ متعلقہ فرد کو احتیاط کرنی چاہیے لیکن پھر بھی یقین ہونے پر متعلقہ تدابیر اختیار کی جائیں۔
یہ بھی یاد رکھیں ایسا رویہ رکھنے والے افراد کسی ہلکے سے خطر ے کی صورت میں بھی رفو چکر ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، اس لیے کہ خواتین کی طرف سے ایسے فرد کی نشاندہی پر دیگر تمام افراد خواتین کا ہی ساتھ دیتے ہیں جس میں متعلقہ فرد کی بھرپور درگت بننے کا قوی امکان ہوتا ہے اس لیے جب یقین ہوجائے کہ بدتمیزی ہی کی جا رہی ہے تو پھر کچھ سختی سے بات کرنے سے بھی نہ شرمائیں۔
خواتین کو ٹیکسی میں تنہا سفر کی ضرورت پڑتی ہے، ایسے میں موبائل سے ٹیکسی کی نمبر پلیٹ اور اگر ممکن ہو تو ڈرائیور کی تصویر بنا کر اسی وقت کسی بھی جاننے والے ذمہ دار فرد کو بھیج دینی چاہیے تاکہ ٹیکسی ڈرائیور بھی محتاط رہے اور آپ کو نفسیاتی اطمینان بھی نصیب ہو۔
اس تمام گفتگو کو یہاں ختم کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس موضوع پر مختلف اخبارات میں درج واقعات، مختلف اداروں کی رپورٹس، روزمرہ زندگی میں انسانی معمولات کو دیکھتے ہوئے ان سے جو نتیجہ میرے تختہ خیال پر نقش ہوا اس کو بغیر علمی موشگافیوں، شرعی نصوص و احتیاطوں، اعداد وشمار کے پلندوں کے، آسان انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں یقینی طور پر خامیاں اور کمیاں ہوں گی۔ اس کے باوجود بھی اگر کسی کے باغ عمل میں اس آبیاری سےکوئی اچھا پھول کھلے تو اس لمحے مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیےگا. اللہ ہر انسان کی عزت وناموس کا محافظ ونگہبان رہے۔ آمین
(انعام الحق نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کیا ہے، پاکستان میں توہین انسانیت، اسباب، واقعات اور قرآن سنت کی روشنی میں علاج ان کے مقالے کا موضوع تھا. اب سکاریہ یونیورسٹی ترکی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم میں ہیں)