ہوم << محمد عامر خاکوانی عوام کی عدالت میں

محمد عامر خاکوانی عوام کی عدالت میں

عامر خاکوانی محمد عامر ہاشم خاکوانی کالم نگاری کی دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر سب سے زیادہ فعال کالم نگار کے طور پر مشہور ہیں۔ دلیل ڈاٹ پی کے نام سے انہوں نے ویب سائٹ قائم کی جو اس وقت لکھنے والوں کے لیے اہم ترین پلیٹ فارم کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ گزشتہ روز فیس بک کے معروف گروپ ”میری پہچان“ میں عامر خاکوانی کا انٹرویو کیا گیا۔ انٹرویو ملک جہانگیر اقبال نے گروپ ممبرز کی مدد سے کیا۔ اس کا انداز ”تبادلہ خیال“ سا تھا، جس میں انٹرویو نگار نے سوالات کے ساتھ کئی جگہوں پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا۔ علاوہ ازیں یہ فوری نوعیت کا انٹرویو تھا۔ سوال آنے کے ساتھ ہی فوری اس کا جواب ٹائپ کردیا جاتا، اس لیے جوابات میں بے ساختگی کا عنصر زیادہ ہے۔ اس انٹرویو میں جہاں عامر خاکوانی نے خوشگوار انداز میں اپنی عام زندگی سے متعلق سوالات کے جوابات دیے ہیں، وہیں اہم ترین ایشوز پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ دلیل ٹیم ضبط وترتیب کے مراحل سے گزارکر یہ انٹرویو آپ کے لیے پیش کررہی ہے۔
سوال: عام اور سوشل میڈیا کے عامر خاکوانی میں کیا فرق ہے؟
جواب: سوشل میڈیا اور عام زندگی کے عامر خاکوانی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عامر خاکوانی اپنی عام زندگی میں ایک نہایت عام آدمی ہے۔ رات کو جس ٹرائوزر یا جینز میں سویا، اسی میں گروسری وغیرہ لینے چلا گیا۔ جہاں جی چاہا، ریڑھی والے سے چنے چاول، دہی بڑے یا کچھ اور کھالیے، کسی ٹینشن کے بغیر۔
سوشل میڈیا کے عامر خاکوانی کو بہت زیادہ احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ کوئی کمنٹ کرتے وقت بھی وہ لبرٹی نہیں لے سکتا کہ اس کا ایک ہلکا کمنٹ پوری صحافتی برادری کی ’’ناک کٹوانے‘‘ کا باعث بن جاتا ہے۔ لوگ فوراً کہتے ہیں کہ اچھا! آپ صحافی ایسے ہوتے ہیں۔ کسی کی وال پر کوئی ہلکا پھلکا کمنٹ بھی بعض اوقات گلے پڑجاتا ہے۔ کبھی ویسے ہی کسی ایشو پر کمنٹ کردیا تو پھر ہفتوں، مہینوں بعد اس کمنٹ کا حوالہ کسی دور دراز کی جگہ ملتا ہے کہ دیکھیں فلاں بات عامر خاکوانی نے کہی تھی۔ مقصد اپنی مقبولیت کا ڈھول بجانا نہیں، یہ بتانا ہے کہ صحافی اور کالم نگار کے طور پر اپنی حقیقی آئی ڈی سے سوشل میڈیا میں آکر کس قدر احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ کبھی تو یہ تنی رسی پر چلنے جیسا لگتا ہے۔
سوال: سوشل میڈیا اور اخبار میں لکھنا... کیا یہ ایک جیسا ہے؟ کیا ایسا نہیں کہ سوشل میڈیا پر زیادہ لکھنے کی وجہ سے اخباری کالم میں فرق پڑے؟ (مثبت سے زیادہ منفی فرق) کیوں کہ کالم پڑھنے والی آڈینس، فیس بک کے سٹیٹس پڑھنے والی آڈینس سے زیادہ متحمل مزاج ہوتی ہے۔
جواب: سوشل میڈیا پر لکھنا کالم لکھنے سے مختلف ہے یا کم از کم اسے مختلف ہونا چاہیے۔ اخبار میں کالم ایک باقاعدہ قسم کی تحریر ہے،جس کا اپنا ریکارڈ ہے۔ وہ ہر جگہ کوٹ ہوتی ہے، اسے کہیں بڑی ریڈرشپ سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں اخبار کی پالیسیاں اثرانداز ہوتی ہیں۔ ایڈیٹنگ کے مرحلے سے وہ گزرتا ہے۔ اسے آپ تھرڈ پارٹی آڈٹ سمجھ لیں۔ اس کا زبان وبیاں بہتر اور عمدہ ہونا چاہیے۔ اخبار کا کالم ٹیسٹ کرکٹ ہے۔ جہاں کھلاڑی کی تکنیک، ٹمپرامنٹ اور خصوصیات چیک ہوتے ہیں، ان کا پتا چلتا ہے۔
سوشل میڈیا تو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ہے۔ تیز رفتار، جارحانہ۔ تکنیک کمزور ہے تب بھی چل جاتا ہے، اس میں چھکے چوکے لگنے چاہییں۔ زبان کی غلطیوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ حقائق کمزور ہونے پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ ہاں شائقین یہاں زیادہ تیز، بے لگام اور کبھی بدتمیز بھی مل جاتے ہیں، جو انڈے، ٹماٹر سے لے کر پتھر مارنے تک سے گریز نہیں کرتے۔
سوال: جیسا کہ آپ سات آٹھ سال سے فیس بک پر سرگرم ہیں، یقیناً آپ نے فیس بک اور اردو تحریریں لکھنے والوں کی مختلف محفلوں میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہوں گے۔
جواب: پہلے بلاگز کا دور تھا تو بلاگر فارم بنے۔ پھر صفحات کا دور آیا تو صفحات میں اردو رائٹرز جانے لگے اور اسی طرح گروپس بنے اور اب ایک نیا ٹرینڈ آیا ہے ویب سائٹس بنانے کا۔
سوال: آپ ویب سائٹس کے نئے ٹرینڈ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ اردو کی ترویج کے لیے ہے یا پھر اب ناک کا مسئلہ بنالیا گیا ہے؟ مانا کہ بظاہر ہر طرف دوستی اور خیر سگالی ہی دکھائی دیتی ہے (محض بڑے لکھاریوں میں) لیکن کیا اس کی وجہ سے نئے لکھنے والے تقسیم نہیں ہورہے؟ کسی سائٹ میں لکھنے والا مولوی بھی لبرل کہلاتا ہے اور کسی پر لکھنے والا لبرل آدمی بھی مولوی تصور ہوتا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ مثبت مقصد کو لے کر شروع ہونے والی سرگرمی ”سیاسی“ ہوتی جارہی ہے اور ایک نئی نظریاتی جنگ شروع ہوگئی ہے۔
جواب: میں تو سوشل میڈیا پر چلنے والے مباحث کو خوش آیند سمجھتا ہوں۔ اس کے مختلف فیز ہیں۔ اردو کی ترویج تو یقیناً ہوئی ہے۔ میں نے اپنے سامنے بے شمار لوگوں کو انگریزی، اور رومن سے اردو لکھتے دیکھا، پھر انہیں اس کا لطف آگیا اور آج ان میں سے کئی بہت عمدہ لکھاری بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا نے اردو کو کئی اچھے لکھاری اور بہت سے اچھے قاری دئیے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سیاسی، غیر سیاسی، فکری، فرقہ ورانہ، لسانی وغیرہ یہ سب مباحث چلتے رہیں گے۔ ان سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت ویب سائیٹس کا فیز بھی ساتھ چل رہا ہے۔ اس سے فیس بک کے بہت سے لکھاری ویب سائٹس پر شفٹ ہورہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے ”الٹرنیٹو“ (متبادل) میڈیا بھی ہے اور لکھنے والوں کی تربیت، تہذیب کا عمل بھی ساتھ جاری ہے۔ میں تو سوشل میڈیا سے بہت پرامید ہوں۔
سوال: اس میں کتنی سچائی ہے کہ سوشل میڈیا پر صرف اس وقت تک اچھے ہو جب تک آپ میرے سیاسی لیڈر یا مذہبی عقائد کو سب سے بہتر نہ مانو؟ بطورِ کالم نگار آپ کو حد درجہ غیر جانبدار ہوکر لکھنا پڑتا ہے تاکہ حقائق کی اصل تصویر بھی سامنے آئے، مگر جانبداری کا ٹھپہ بھی نہ لگے، لیکن کیا کبھی ایسا ہوا کہ حقائق بیان کرنے کی کوشش میں کچھ دوست ناراض ہوگئے ہوں؟ اور کہیں ایسے لوگوں سے بھی سخت دلبرداشتہ ہوئے ہوں جنہیں آپ حقیقت پسند سمجھتے تھے؟
جواب: یہ بات آپ کی درست ہے کہ لوگ اپنے لیڈروں، سوچ یا تعبیرات سے مختلف بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس طرح کا ردعمل تو آتا ہے۔ مثلاً ایم کیو ایم والے کب اپنی پارٹی پر تنقید برداشت کریں گے یا پیپلزپارٹی پر تنقید کی جائے، زرداری دور حکومت کو بدترین گورننس کہا جائے تو ان کی تیوریوں پر بل پڑجاتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان کی حمایت میں لکھنے پر مسلم لیگ ن والے تلملاتے اور طعنےد یتے ہیں۔ تنقید کی جائے تو ظاہر ہے عمران خان کے ڈائی ہارڈ فینز دلبرداشتہ ہوتے ہیں۔ ویسے مجھے زیادہ سخت تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میرے فیس بک قارئین مجھے رعایت دیتے رہے ہیں۔ خاص کر پی ٹی آئی پر تنقید پر مجھے خال ہی انصافین کی تنقید سننی پڑی ہو۔
سوال: آپ کا تعلق میڈیا سے ہے، آپ اس کا کردار کیسا محسوس کررہے ہیں؟ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا۔ اس وقت کیا میڈیا ہماری نوجوان نسل اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی کوشش میں نظر نہیں آرہا؟ کیا میڈیا کا مقصد اب صرف پیسا بنانا اور ریٹنگ نہیں رہ گیا؟ اگر میڈیا مثبت کردار ادا کررہا ہے تو کس حد تک‎ اور میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا ذمہ دار آپ کس کو ٹھہراتے ہیں؟
جواب: میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ایک عفریت ہے، روزانہ جسے منوں کے حساب سے راتب چاہیے۔ اس کے لیے یہ کچھ بھی کر گزرے گا، نہیں ملے تو اپنے بچے کھا جائے گا۔ چوبیس گھنٹے چینل کا پیٹ بھرنے کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں۔ پھر چینلز میں کرئیٹیو لوگ نہیں ہیں۔ آئیڈیاز کا بحران ہے۔ اس میں جو چیز چل جائے، سب اس کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔ ریٹنگ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ٹی وی چینلز کو کوئی پروا نہیں کسی کی اخلاقیات کی۔ یہ اس کا مسئلہ ہی نہیں۔ وہ سراسر کمرشل ہیں۔ یہ تو عوامی طبقات کو چاہیے کہ وہ اپنی حساسیت کا مظاہرہ کریں، جو کہ ہم نہیں کرپارہے یا پھر پیمرا جیسے اداروں کو سختی سے قوانین اور ضابطہ اخلاق بنانا چاہیے۔
دنیا میں چینلز پر دو چیزیں سب سے زیادہ بکتی ہیں؛ لڑائی یعنی تصادم اور سیکس۔ ہمارے ہاں سیکس کو ایک حد تک دیا جاسکتا ہے، اس حد کو کراس کرنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں، مگر بہرحال پھر بھی کچھ نہ کچھ حدود آجاتی ہیں۔ پہلے پر چونکہ پابندی نہیں، اس لیے دل کھول کر لڑائیاں کرائی اور دکھائی جاتی ہیں۔
ویسے یہ بتاتا چلوں کہ میں دانستہ، ارادتاً ٹی وی پر نہیں ہوں۔ مجھے یہ میڈیم پسند ہی نہیں۔ وہاں ریٹنگ کی غلامی کرنی پڑتی ہے اور دوسرا، ٹی وی میں سٹریس بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ایک دوست کے بقول ٹی وی میں گرین لائیٹ ہے ہی نہیں، ہر وقت اورنج لائیٹ جلتی رہتی ہے اور اکثر اوقات سرخ لائیٹ۔ سگنل لائیٹس کی طرف اشارہ ہے۔ مجھے اخبار پسند ہے۔ اس میں آج بھی کسی حد تک ٹھہرائو اور میچورٹی ہے۔
سوال: الیکٹرانک میڈیا کے زوال کی ایک بڑی وجہ اس کا گلیمرائز ہونا تو نہیں؟ اگر آپ اینکر پرسنز یا نیوز کاسٹر دیکھیں تو ان کا صحافت سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، محض اچھی شکل اور آواز کی تیزی سے ”صحافی“ بنے بیٹھے ہیں۔ کیا الیکٹرانک میڈیا وہ کوا تو نہیں جو ہنس (صحافیوں) کی چال چلنے کی کوشش کر رہا ہے؟
جواب: الیکٹرانک میڈیا کے زوال پذیر ہونے کا تو پتا نہیں۔ مگر غیر معیاری یا زیادہ معیاری نہ ہونے کی وجوہات میں ریٹنگ کے باعث سنسنی خیر صحافت کو اپنانا، آئیڈیاز کی قلت، تخلیقی لوگوں کو اکٹھا نہ کرنا اور ڈنگ ٹپائو پر کام چلانا اور یہ لش پش کرتی لڑکیاں، لڑکے بھی کسی حد تک وجہ ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک خوشگوار تاثر بھی پیش کرتے ہیں۔ مگر بڑی وجہ عوام کا معیار پست ہونا بھی شامل کرنا چاہیے۔ لوگ بھی ایسے فضول پروگرام دیکھتے ہی ہیں۔
سوال: پوری دنیا میں سیاست کا ایک نظام رائج ہے جسے دو مختلف کیٹگریز میں رکھا جاتا ہے جسے ”لفٹ ونگ اور رائٹ ونگ پالیٹکس“ کہا جاتا ہے، کیا وجہ ہے کہ یہی لفٹ رائٹ جب پاکستان میں آتا ہے تو مذہب اور خود کو لبرل کہنے والوں کے درمیان کی جنگ بن کر رہ جاتا ہے؟ آپ کے خیال میں اس کی حقیقی تعریف کیا ہے؟ کیا یہ محض سیاسی اور جذباتی نعرے ہیں ووٹ حاصل کرنے کے یا اپنے اندر کوئی تاریخی حیثیت و اہمیت بھی رکھتے ہیں؟
جواب: رائٹ ونگ ہر جگہ کچھ نہ کچھ مذہبی اور قدامت پسندی کے قریب ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں دراصل لیفٹ ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ لبرل، سیکولر کیمپ نے لے لی ہے۔ مذہب پر حملہ آور بھی یہی ہوتے ہیں، اس لیے رائٹ ونگ والے بھی جواباً ان پر گولہ باری کرتے رہتے ہیں۔ دراصل رائٹ ونگ کے نزدیک اخلاقیات اہم موضوع ہے۔ فحاشی کے خلاف رائٹ ونگ میں ہمیشہ ردعمل رہتا ہے۔ خواہ وہ پاکستان کا ہو ، بھارت کا یا امریکا کا۔ ہمارا رائٹ ونگ چونکہ مذہبی مسلمان ہے، اس لیے وہ اخلاقیات کے حوالے سے اسلامی تعبیرات کو بھی سامنے رکھتا ہے۔ لبرل، سیکولر کیمپ کے بعض مسائل ان اخلاقیات سے ہیں تو یوں یہ جنگ بڑھتی جاتی ہے۔
سوال: اگر بات ادب کی کریں تو کیا آپ کو لگتا ہے پاکستان کے ادیب نے پاکستان کو بطورِ قوم منظم کرنے کے لیے خاطر خواہ کام کیا ہو؟ ہم اگر ادب کی جانب دیکھتے ہیں تو آزادی کے بعد جو ادیب آیا، وہ تقسیم پر نوحہ گری کرتا رہا۔ اس کے بعد کا دور آپ کو کمیونزم سے متاثر نظر آئے گا اور ایک وقت تو یہ بھی تھا کہ پاکستان کو کوسنا ہی ادب کے زمرے میں لیا جانے لگا۔ چند ادیبوں کے سوا (جنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے) پاکستانیت کے فروغ کے لیے کام کرتا نہیں دیکھا گیا، ایک نوزائیدہ قوم کو کس طرح سنبھالا جاتا ہے، اس پر قلم خاموش رہا۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہورہی ہے کہ میں ادیب نہیں ہوں، کم از کم اس وقت تک تو نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے ادیب نے ایسا کچھ نہیں کیا، پاکستانیت کے حوالے سے۔
سوال: لبرل و سیکولر طبقہ کا ایک نعرہ یہ بھی ہے کہ جو اصول یا قانون، کوئی معاشرہ اکثریت رائے سے بناتا ہے، اسے قبول کرنا چاہیے۔ مغرب میں حجاب پر پابندی اور لبرلز کی اس قانون کی حمایت اس کی مثال ہے، لیکن وہی لبرل جب پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اکثریت کے بنیادی مذہب کے قوانین کو یکسر ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں ، جیسے آپ نے ایک تحریر میں لکھا کہ لبرلز کے لیے اسلامی نظریہ ہی کوئی چیز نہیں، تو کیا ایسے میں صحت مند مکالمہ پرورش پاسکتا ہے جب آپ ایک قانون کو سرے سے ہی غلط مانتے ہیں؟
جواب: میرے خیال میں ہمارے سیکولر، لبرل دوست پاکستانی معاشرے کے فیبرک سے ناواقف ہیں۔ یہی دراصل ان کی ناکامی کی وجہ بھی ہے۔ ویسے ایک اہم فیکٹر اور بھی ہے، جس سے لبرل دوست انکار کرتے ہیں، مگر میرے خیال میں وہ بہت اہم ہے۔ وہ ہے مابعداطبعیات۔ اصل چیز میٹر بھی یہی کرتی ہے کہ کیا آپ خدا، رسول اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں۔ ہمارے سیکولر ساتھیوں میں سے کچھ یا یہ کہہ لیں ایک بڑا حصہ اس مابعدالطبعیات کا قائل نہیں، یا وہ تشکیک کا شکار ضرور ہے۔ جب وہ روز آخرت ہی کو نہیں مانیں گے تو پھر مذہب کی ان کے نزدیک کیا اہمیت ہوگی؟ اسی طرح مذہبی قوانین، الہامی احکامات، مذہبی اخلاقیات وغیرہ ان کے نزدیک کس قدر اہم رہ جائیں گے؟
سوال: اب ذرا اپنے پسندیدہ موضوع کی جانب آتا ہوں ”اسٹیبلشمنٹ“۔ یہ لفظ آپ نے یقیناً سنا ہوگا۔ اس لفظ کی خاصیت ہے کہ یہ اپنی جگہ متعین رہتا ہے جب کہ اس کے لاحقہ بدلتے رہتا ہے جیسے ”ملٹری اسٹیبلشمنٹ“، یا پھر ”پنجابی اسٹیبلشمنٹ“ کیا یہ ایک مفروضہ ہے یا پھر لسانیت کی جانب راغب کرنے والا نعرہ؟
جواب: اسٹیبلشمنٹ دنیا بھر میں ہے اور بیشتر جگہوں پر وہ ٹھیک ٹھاک طاقتور ہوتی ہے۔ کم از کم نیشنل سکیورٹی ایشوز میں۔ امریکی اسٹیبلشمنت کی طاقت دیکھیں کہ اوباما جیسے انقلابی کو بھی بش کی وار پالیسیز جاری رکھنے پر مجبور کردیا۔ انڈین اسٹیبلشمنٹ بہت طاقتور ہے۔ من موہن سنگھ شرم الشیخ میں مذاکرات کا مان جاتے ہیں، واپس دلی پہنچ کر انڈین ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ انہیں یوٹرن لینے پر مجبور کردیتی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے نٹورسنگھ کی کتاب آئی، اس نے بتایا کہ راجیو گاندھی کے دور میں فوج کی موومنٹ خود وزیراعظم راجیو کے علم میں لائے بغیر آگئی اور پاک انڈیا جنگ کی نوبت آگئی تھی۔
تو اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں فوج اس کا مرکزی جز ہوتی ہے، مگر ٹاپ لیول کی سول ملٹری بیورو کریسی، ٹاپ بزنس مینز، طاقتور میڈیا ہائوسز وغیرہ بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ امریکا میں تو ایک خاص سطح پر اکیڈیمیا بھی اس کا حصہ ہے۔ خاص کر رینڈ کارپوریشن جیسے تھنک ٹینک بھی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہی ہوتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ زیادہ تر فوج ہی ہے۔ بیوروکریسی اب اتنے جوگی رہی نہیں، غلام اسحاق خان اس کے آخری نمایندے تھے، مجید نظامی صاحب جیسے دیوقامت صحافی ایڈیٹر بھی نہیں رہے، وہ بھی ایک حد تک اسٹیبلشمنٹ کا حصہ تھے۔ ہمارے ٹاپ بزنس مین چور لٹیرے ہیں۔ تو پھر فوج ہی بچتی ہے یا ایجنسیاں۔ اب فوج میں چونکہ پنجاب کی اکثریت ہے تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں پنجاب کا حصہ زیادہ رہتا ہے، مگر اسٹیبلشمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ ہی کہنا چاہیے، پنجابی اسٹیبلشمنٹ کہنا غلط اصطلاح اور حقیقت سے دور ہے۔ مشرف تو پنجابی نہیں تھا تو دس سال وہ نکال گیا اور اس کے دور میں اردو سپیکنگ جنرلز کی تعداد خاصی بڑھ گئی تھی۔
سوال: جمہوریت کے بارے میں بتادیں۔ مغرب ہو یا امریکا یا پھر سیکنڈ اور تھرڈ ورلڈ ممالک، یہاں آپ کو سب سے خوش نما نعرہ ”جمہوریت“ کا ملے گا۔ پاکستان میں بھی یہ جمہوریت ہر وقت خطرے میں رہتی ہے، لیکن کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ جمہوریت نامی کوئی شے ایگزسٹ کرتی ہے؟ پاکستان میں دانشور طبقہ فوج کو ملعون کرتا رہتا ہے کہ یہ ملکی پالیسیوں کو اپنی مرضی سے ترتیب دیتی ہے۔
جواب: ہمارے ہاں جمہوریت نام کی حد تک ہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے سیاستدان بھی جمہوریت کو اپنے مفاد کی خاطر ہی استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں خود جمہوریت نہیں۔ الیکشن تک یہ نہیں کراتے۔ چھ سات خاندان ہیں جو پاکسانی سیاست پر قابض ہیں۔ بھٹواب زرداری صاحب، شریف خاندان، مولوی فضل الرحمن اور ان کے بھائی اسفند یار ولی خان، چودھری برادران، پیر پگاڑا۔۔۔ عمران خان بھی ایک شخصیت ہی ہے، خاندان تو خیر سیاسی اس کا ابھی نہیں بنا۔۔۔ ایم کیو ایم بھی الطاف حسین ہی تھی۔ بلوچ پشتون قوم پرست بھی خاندان، شخصیات کا نام ہی ہیں۔ اچکزئی صاحب، بزنجو فیملی، مینگل صاحب، بگٹی صاحب کے صاحبزادگان، پوتے وغیرہ۔
میرا خیال ہے کہ سویلین بالادستی تب ممکن ہوپائے گی، جب سویلین دیانت داری اور اہلیت کے ساتھ کام کرنا سیکھیں گے۔ مثال کے طور پر اب دیکھ لیں کہ ستانوے میں بھی اسحاق ڈار شریف فیملی کے ماہر معاشیات تھے، دو ہزار سولہ میں بھی وہی ہیں۔ وہی سرتاج عزیز ستانوے میں، وہی بیس سال بعد۔ سیاستدان خارجہ، معیشت، سکیورٹی ایشوز پر دو تین اچھے تھنک ٹینک ہی بنادیں جو انہیں پالیسیاں بناکر دیں۔ یہ تک تو ہوتا نہیں اور پھر بات بالادستی کی کرتے ہیں۔ نیشنل سکیورٹی ایشوز پر جب تمام ان پٹ جی ایچ کیو نے دینا ہے تو پھر پالیسی بھی وہی چلائے گا۔
سوال: سیاست میں سب سے اہم ہتھیار سٹریٹ پاور کا ہوتا ہے جس میں ہماری مذہبی جماعتوں کا کوئی مقابلہ نہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں اہم مذہبی جماعتوں کو سڑکوں پر تو دیکھنا چاہتی ہیں، لیکن اسمبلی میں نہیں؟
جواب: جمہوریت میں تو سب سے اہم ”ووٹر پاور“ ہے۔ سٹریٹ پاور تو فریجائل ڈیموکریسز میں چل جاتی ہے۔ ہماری مذہبی جماعتیں منظم تھیں تو سٹریٹ پاور ان کے پاس تھی، مگر اسمبلی میں جانے کے لیے ظاہر ہے ہر حلقے سے اکثریتی ووٹ لینا ضروری ہیں۔ ان کے جیتنے کی ایک وجہ تو یہ خود ہیں؛ مذہب کی سخت گیر، بے لچک تعبیر، کوئی بھی مذہبی شخص اپنے حلیے اور طرز زندگی ہی سے دوسروں سے مختلف لگتا ہے۔ ان کے اخلاق کمزور ہیں۔ مذہبی لوگ اور اچھے اخلاق مترادف لفظ نہیں رہے۔ اس لیے مذہبی جماعتیں اب زیادہ کمزور ہوگئی ہیں۔ ویسے ان کے نہ جیتنے کی بڑی وجہ پنجاب اور سندھ میں الیکٹ ایبلز کی اہمیت، ذات برادری کا اثرورسوخ اور پچھلے بیس برسوں سے تو بے پناہ الیکشن اخراجات ہیں۔
سوال: کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہے۔ لیکن اگر آئینہ کا دوسرا رخ دیکھیں تو پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی افغانستان ہمارا دشمن بن گیا اور قبائلی علاقوں میں حق جتانے لگا۔ بھارت تو تھا ہی دشمن، انقلاب کے بعد ایران سے بھی تعلقات اس نوعیت کے نہیں رہے۔ پاکستان ہر دور میں ہاتھ بڑھاتا رہا، مگر بدلے میں اس کے خلوص پر شک کر کے پڑوسیوں نے زہر ہی اُگلا۔ کیا واقعی ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہے یا ہم جغرافیائی طور پر ایسا ملک ہیں جس پر سب کی رال ٹپکتی ہے؟
جواب: اصل میں ہم لوگ لیبل لگانے کے بہت شوقین ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بات بہت کی جاتی ہے کہ پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا اور لیاقت علی خان نے روس کی جگہ امریکا کا پہلا دورہ کر کے غلطی کی۔ کیسے غلطی کی؟ تاریخ نے تو یہ ثابت کیا کہ وہ فیصلہ درست تھا۔ ہماری خارجہ پالیسی کے تین چار پلر تو پچھلے چالیس برسوں سے ایک ہی ہیں اور وہ درست رہے۔ چین بنیادی پلر رہا، سعودی عرب اور خلیجی ممالک، امریکا اور ویسٹرن ورلڈ کے ساتھ اچھے تعلقات۔ ایران کے ساتھ توازن رکھنے کی کوششیں۔ افغانستان کو اپنے لیے ہوسٹائل بننے سے روکنا۔ بھارتی ایجنڈے کو اس خطے میں کائونٹر کرنا اور اپنے لیے سپیس پیدا کرنا۔ اب کبھی تاریخ کا جبر اسے غلط ثابت کردیتا ہے تو کبھی درست۔
یہ البتہ ہے کہ چونکہ ہمارے ہاں مستقبل پر نظر نہیں رکھی جاتی، تھنک ٹینک نہیں، ادارے نہیں جو بیس پچیس سال آگے پر نظر رکھیں تو اس وجہ سے بھی ہم کئی بار مار کھا جاتے ہیں۔ کئی جگہیں ایسی ہیں جہاں ہمیں اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہیے تھا، جیسے سنٹرل ایشین ریاستیں۔ مڈل ایسٹ میں بھی تعلقات بہتر ہونے چاہیے تھے، مگر نہیں رہے۔ غلطیاں بھی ہوئی ہیں ہم سے، مگر بعض ہماری مجبوریاں بھی تھیں۔افغانستان ہمارے لیے ہمیشہ مسائل پیدا کرتا رہا، سوائے طالبان دور کے۔
سوال: بطور ایک غیرجانبدار صحافی، آپ کی بہت تعریف دیکھتے آئے ہیں، اور بطور صحافی اور کالم نگار یہ اعزاز کی بات ہے۔۔۔ غیر جانبداری کی خصوصیت کیسے پیدا ہوئی؟ یہ طبیعت میں تھی؟ تربیت سے آئی یا وکالت کی تعلیم سے پیدا ہوئی؟ کیونکہ وکیل اپنے دلائل کا سب سے بہتر جج خود ہوتا ہے۔
جواب: ویسے تو مجھے خوشی ہوگی غیر جانبدارصحافی کی اصطلاح پر۔ مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ مکمل طور پر غیر جانبدار صحافی کوئی نہیں ہوتا نہ ہی یہ ممکن ہے۔ ظاہر ہے میں ایک صحافی، لکھنے پڑھنے والا آدمی ہوں۔ میری مختلف جماعتوں، شخصیات کے بارے میں کچھ آرا ہوں گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں کوئی رائے ہی نہیں رکھوں۔ ایسا تو صرف فاتر العقل یا بالکل ہی سادہ لوح آدمی کرسکتا ہے۔ میرا تو ایسا کوئی دعویٰ نہیں۔
لکھنے والے کی پسند، ناپسند، تعصبات لازمی ہوتے ہیں۔ آپ ان سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرسکتے ہیں، کسی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صحافی کو دیانت دار اور معتدل ہونا چاہیے۔ دیانت یہ ہے کہ اگر میں عمران خان کا حامی ہوں اور عمران خان کے مخالفین پر تنقید کرتا ہوں تو اگروہی غلطی عمران خان کرے تو مجھے اس پر بھی ویسی گرفت کرنی چاہیے۔ ایسا نہ کرنے پر میری بددیانتی اسٹیبلش ہوجائے گی۔ سو، بات دیانت کی ہے، غیر جانبداری سے زیادہ۔
دوسرا، لکھنے والے میں توازن اور اعتدال ہونا چاہیے۔ وہ مخالفت میں انتہا تک نہ جائے، دوسرے کو کچھ سپیس دے۔ شدت میں ردعمل ظاہر نہ کرے۔ کئی بار اصل حقیقت درمیان میں ہوتی ہے، دو انتہائوں کے درمیان۔ تو معتدل اور متوازن شخص اس راہ پر چلتا ہے۔ اعتدال سے مراد یہ بھی نہیں کہ آپ کوئی واضح پوزیشن نہ لیں۔ کئی معاملات میں لینا پڑتی ہے۔ جیسے مذہب میری ریڈ لائن ہے۔ پاکستان میری ریڈ لائن ہے۔ پاک فوج میری ریڈ لائن ہے۔ ختم نبوت کا نظریہ میری ریڈ لائن ہے۔ اسی طرح لسانی منافرت کے حوالے سے میں حساس ہوں۔ تو اپنی ریڈ لائنز کا خیال رکھا جائے۔ ان کو کوئی کراس کرے تو پھر واضح اور مضبوط پوزیشن لی جائے، مگر ایسا کرتے ہوئے بھی یہ خیال رکھا جائے کہ جو بات جتنی ہے، اتنی کہی جائے، نہ زیادہ نہ کم۔ ردِعمل اتنا دیں جو متناسب ہو، جتنا بنتا ہو، اتنا ہو، اس لیے اعتدال بعض اوقات افقی کی جگہ عمودی لائن میں دکھانا چاہیے۔ ٹمپریچر ٹاپ پر لے جانے کے بجائے درمیان تک ہی رکھا جائے۔
سوال:  آپ نے اپنی جتنی ریڈ لائنز بتائی ہیں، یہ بے شک محب وطن و مذہب انسان کا اخلاقی فرض ہے کہ انہیں سرخ لکیر بنائے ، لیکن اب ایک ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ مذہب کو سرخ لکیر بنانے والا کم عقل انتہا پسند کہلاتا ہے، وطن کو سرخ لکیر بنانے والا جنگ پسند و انسانیت کا دشمن جب کہ فوج کو سرخ لکیر بنانے والا بوٹ پالشیا... اگر ایسے خطاب دینے والوں کے چہرے دیکھے جائیں تو عقب سے (بظاہر) مہذب لوگ ہی نکلتے ہیں، ایسے رویہ کی کیا وجوہات ہیں ؟
جواب: یہ دراصل نفسیاتی جنگ ہوتی ہے۔ بڑی ہنرمندی کے ساتھ متنازع بنایا جاتا ہے، لیبل چسپاں کیے جاتےہیں۔ ایسا دانستہ کیا جاتا ہے تاکہ ہر کوئی آگے آنے سے گھبرائے۔ اب مذہبی لوگوں کو بنیاد پرست، طالبان، مُلا کہہ دیا جاتا ہے۔ فوج کے حامیوں کو بوٹ پالشیا۔ اسی طرح دیگر لیبل۔ ان سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ اپنے موقف پر سٹینڈ لینا چاہیے۔ میں نے دانستہ خود کو رائٹسٹ اور اسلامسٹ کہلانا شروع کیا کیونکہ محسوس کیا کہ ہمارے لبرل لکھنے والوں نے دانستہ ان اصطلاحات کو اتنا برا بنادیا ہے کہ کوئی ایسا کہنے کی جرات تک نہیں کررہا۔ تب میں نے خود کو ایسا کہلانا شروع کیا، فخریہ۔ حالانکہ میرے فیس بک پروفائل میں ہے کہ رائیٹ آف دی سنٹر۔ میں خود کو ”سنٹرسٹ“ سمجھتا ہوں، جس کا جھکائو رائٹ کی طرف ہو۔ مگر لبرل حملوں نے مجھے باقاعدہ رائٹسٹ بنادیا۔ یہی بات پاک فوج کی حمایت کے حوالے سے بھی سننا پڑتی ہے۔ اس معاملے میں بھی ڈٹ کر بات کی جائے۔ جیسے تین چار برسوں سے ”غیرت“ کو بھی متنازع بنادیا گیا ہے۔ ”غیرت بریگیڈ“ کی اصطلاح گھڑکر، بلکہ ایک گانا تک بنادیا گیا۔ تو غیرت بریگیڈ کا طعنہ دینے والوں کو میں کہتا ہوں کہ دو ہی بریگیڈ ہیں؛ غیرت یا بے غیرت، آپ اپنا بریگیڈ خود چن لیں۔ ایک بات ضروری ہے کہ آپ اپنا مقدمہ شائستگی سے لڑیں۔ مخالف کو گالیاں نہ دیں۔ سلیقے سے اپنی بات کہیں تو پھر آپ کی اخلاقی برتری قائم رہتی ہے۔
سوال: زندگی میں کوئی ایسا شخص، جس کا اپنی ذات پر احسان محسوس کرتے ہوں؟ یا کوئی ایسا شخص جس کا آپ کی زندگی میں بہت عمل دخل رہا ہو یا اب بھی ہو؟‎
جواب: ایسے کئی لوگ ہیں۔ میرے دوستوں نے میرا بہت ساتھ دیا۔ میں احمد پورشرقیہ۔۔۔ ایک چھوٹے شہر۔۔۔۔ کا رہنے والا تھا۔ لاہور میں میرا کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ ایک دوست کے ساتھ آ کر ٹھہرا، اس نے بہت ساتھ دیا۔ ہاسٹلز میں آئوٹ سائیڈر کے طور پر دو ڈھائی سال گزارے، میری زندگی کے بہترین سال ہیں وہ۔ بعد میں بھی میرے کئی دوست ایسے ہیں جنہوں نے میرا بہت ساتھ دیا۔ ہر مشکل پڑنے پر ان کی طرف دیکھ سکتا ہوں۔ میرے کالموں کا انتخاب ان شاء اللہ جلد شائع ہونے والا ہے، اس کے دیباچے میں یہ تمام باتیں لکھی ہیں، ان کالم نگاروں صحافیوں کا بھی لکھا جن کا میرا زندگی خاص کر ”کالمانہ زندگی“ پر اثر پڑا۔ اتنے مختصر وقت میں وہ فہرست لکھنا ممکن نہیں۔ میری بیوی سعدیہ مسعود کا میری زندگی پر بہت گہرا اثرا اور عمل دخل ہے۔ میں اسے ”نصف بہتر“ سے کچھ زیادہ سمجھتا ہوں۔ انہیں اپنے جسم، شخصیت کا ساٹھ ستر فیصد حصہ سمجھتا ہوں۔ بچوں کا ظاہر ہے زندگی میں گہرا اثر ہے، ان کے بغیر خود کو مکمل تصور نہیں کرتا۔
سوال: انٹرویو تو گروپ میں ہر ہفتہ ہوتا ہے لیکن آپ جیسی شخصیت شاذ ونادر ہی ہاتھ لگتی ہے، اس لیے آپ کے علم سے بھرپور استفادہ خود کو اور قارئین کو دینے کی کوشش کررہا ہوں، جس کی وجہ سے ہلکے پھلکے سوالات نہیں کرپارہا تاکہ انٹرویو کی اہمیت قائم رہے، پھر بھی ایک سوال تو پوچھنا بنتا ہی ہے۔۔۔ محبت کی یا ہوئی؟ کس عمر میں دل کے تاروں نے ”تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم“ گانا شروع کیا؟ یا پھر ”ابھی تک دنیا حسینوں کا میلہ“ اور ”میلے میں یہ دل اکیلا“ والا معاملہ ہے ؟
جواب: محبت کا تو پتا نہیں، صنف مخالف میں کشش تو ظاہر ہے وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ ہوئی۔ یہ معاملات ہر ایک کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ان کی تفصیل ظاہر ہے بیان نہیں کی جاسکتی۔ میرے ساتھ دو حادثے یہ ہوئے کہ ایک خاص عمر میں یعنی اٹھارہ انیس سے لے کر ستائیس اٹھائیس تک مجھے یہ لگتا تھا کہ مجھ میں شاید اتنی کشش نہیں یا لڑکیاں میری طرف اٹریکٹ نہیں ہوسکتیں۔ میں ویسے کتابی کیڑا سا نوجوان بھی تھا۔ یہ تو برسوں بعد پتا چلا کہ اس وقت بہت سے دل گھائل ہوئے، مگر کم بختوں نے اس وقت پتا نہیں چلنے دیا۔ دوسرا سانحہ میری صحافت اور کالم نگاری کی وجہ سے ہوا۔ چونکہ میرے موضوعات خاصے میچور تھے۔ ریسرچ کرکے لکھتا تھا۔ مذہب اور تصوف بھی میرے پسندیدہ موضوعات تھے تو قارئین نے مجھے کچھ زیادہ ہی شریف اور نیک سمجھنا شروع کردیا۔ ان کی یہ غلط فہمی ٹوٹنے ہی میں نہیں آتی۔ فیس بک نے دوسرے سانحے کے ساتھ ضمنی سانحہ یہ جوڑ دیا کہ یہاں فین شپ بن گئی اور بعض لوگوں نے دیوتائوں کی طرح پیش آنا شروع کردیا۔ اب ظاہر ہے دیوتا تو لطیف جذبات سے عاری ہوتے ہیں یا عاری سمجھے جاتے ہیں تو پھر کسی فیس بکی ادھے پچچے دیوتا کے پاس کیا آپشن بچتی ہے؟ یہی ناں کہ قسمت پر شاکر ہو۔ تو میں اس حد تک شاکر ہوں کہ اگر صابر شاکر میڈیا میں نہ ہوتا تو اپنا قلمی نام صابر شاکر رکھ دیتا۔ 🙂
سوال: کل ہی ٹیچرز ڈے منایا گیا، اس مناسبت سے سوال ہے کہ آپ اپنی ترقی میں اپنے اساتذہ کو کتنا کریڈٹ دیتے ہیں؟ پرائیویٹ سکولز مافیا کی لوٹ مار کی روک تھام کے لیے آپ کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟ پاکستان میں ایجوکیشن سسٹم کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟‎
جواب: بالکل نہیں، کوئی کریڈٹ نہیں۔ میں تو کل ٹیچرڈے کی تصویریں دیکھ کر سڑا بیٹھا ہوں۔ مجھے تو کوئی ایسا اچھا ٹیچر نہیں ملا۔ ایک آدھ ہی ایسا ٹیچر ہے جس کی عزت کرنے کو دل چاہے۔ آپ یہ اندازہ لگائیں کہ میں اپنے شہر کا واحد کالم نگار ہوں۔ پچھلے نصف صدی کا ۔ ایک تحصیل ہے بڑی پرانی وہ۔ ڈگری کالج وغیرہ۔ مطلب کہ کوئی گائوں نہیں۔ اپنے سکول، کالج کی زندگی میں کبھی کسی نے میرے اندر کا لکھاری تلاش ہی نہیں کیا۔ ایک بھی تحریر میری نہیں شائع ہوئی کہیں پر۔ کبھی بزم ادب ٹائپ پروگرام ہی نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اگرچہ میں کتابی کیڑا تھا، مگر کلاس فیلوز کو یہ تک نہیں معلوم تھا کہ میں اتنا پڑھتا ہوں۔ بہت سوں کو بعد میں حیرت ہوئی کہ ہائیں یہ وہی عامر ہے جس کے آج کل کالم شائع ہورہے ہیں۔ تو کوئی ایسا ٹیچر ملا نہ تعلیمی ادارہ جس نے گروم کیا ہو۔
ایجوکیشن سسٹم کو بالکل بدلنا چاہتا ہوں۔ خاص کر پرائمری کو۔ بچوں کو انجوائے کرنا سکھانا چاہیے۔ ان کے تصورات واضح ہونے چاہییں۔ رٹا نہیں۔ اب تو کتابوں کے بنڈل ہیں۔ بچے بیگ اٹھا نہیں پاتے۔ انہیں زبانیں زیادہ سکھائی جائیں، انہیں تصورات سکھائے جائیں، خواب دیکھنا سکھایا جائے، پڑھائی سے انجوائے کرنا سیکھیں اور کئی سبجیکٹس جیسے میتھ بیشتر بچوں کو پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ میٹرک میں میتھ لازمی صرف ان کے لیے ہو جو انجینئر بننا چاہیں، باقیوں کے لیے گنتی اور دس بارہ تک پہاڑے ہی کافی ہیں۔
سوال: آج سے کچھ سال پیچھے چلے جائیں تو اولاد کی تربیت ماں کرتی تھی اور اب ماں کی جگہ چھوٹے بھیم اور وہ لال بلی ”ڈورامون“ نے لے لی ہے، جس طرح لنگوٹ کی جگہ پمپر نے لے کر ممتا کو وہ ساری رات جاگ کر بچے کو گیلے بستر سے بچاکر سوکھے بستر پر سلانے والا جملہ آج کل کسی کام کا نہیں رہا، کیا کل کو ہماری آنے والی نسل ماں کی ممتا کی اس لذت سے محروم نہیں ہوجائے گی جسے ہم نے انجوائے کیا؟
کیا یہ بظاہر آسانی ہماری نسلوں کی سوچ کا رخ نہیں بدل دیں گی اور آپسی محبت اور ایک دوسرے کے لیے تکلیف برداشت کرنے کی حیثیت سے مشہور معاشرہ اس کے جو نقصانات برداشت کرے گا، یہ لائقِ تشویش نہیں؟ یا پھر اسے زندگی کی آسانی جان کر نظر انداز کردیا جائے؟
جواب: ذاتی طور پر میں ڈورے مان کے خلاف نہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ اسے دیکھتا ہوں، ویسے وہ نیلی بلی ہے میرے خیال میں۔ درست سوال ہے ویسے۔ مائوں کو بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہیے۔ انہیں کہانیاں سنائیں، گپیں لگائیں، ساتھ کھیلیں، ان کی باتیں سنیں، انہیں نظمیں سنائیں۔ خاص کر لوک گیت، لوریاں سنائیں۔ بچوں کی تربیت کریں، اخلاقی تربیت خاص کر۔ ابتدائی برسوں ہی میں۔ وہ سب باتیں ذہن میں راسخ ہوجاتی ہیں ۔
زندگی ہم سب کے لیے آسان ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی کی سہولیات لینے میں کوئی حرج نہیں۔ پیمپر آگئے تو اچھا ہوا، ماں کو چاہیے کہ اب وہ زیادہ یکسوئی کے ساتھ بچوں کو وقت دے۔ مگر معاشی مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ مائیں بیچاری سارا دن ملازمت کریں تو کیا کریں گی رات کو۔ یا پھر تمام دن کے کام کاج تھکا دیتے ہیں، تین چار سال کا وقفہ اگر بچوں میں ہو تو پھر سب پر توجہ دینا آسان ہوجاتا ہے۔
سوال: جب میرا پہلا کالم شائع ہوا تھا ایک بڑے میگزین میں، تو وہ مجھ سمیت پورے خاندان کے لیے بڑے فخر کی بات تھی اور مہینوں اس کا چرچہ ہوتا رہا، آپ کی جب پہلی تحریر یا کالم چھپا تو کیا احساسات تھے؟ کیا آپ کو بھی ایسا لگتا کہ تحریریں دراصل لکھاری کو اپنی اولاد کی طرح عزیز ہوتی ہیں۔ جس طرح اولاد کی کوئی تعریف کرے تو فخر محسوس ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح تحریر کی تعریف بھی دلی خوشی دیتی ہے۔ ایسی کونسی شخصیت ہے جس نے آپ کی تحریر کی تعریف کی اور آپ کو واقعی خود پر فخر محسوس ہوا ہو؟
جواب: میری پہلی تحریر نے تو مجھے بہت خوشی دی۔ میں اس وقت لا کا پہلے سال میں طالب علم تھا۔ کراچی میں تھا۔ ایک دن کالم لکھا، عمر انیس بیس سال ہی ہوگی، جا کر جنگ کراچی کے دفتر ریسپشن پر جمع کرا آیا۔ اگلے روز وہ ادارتی صفحہ پر ارشاد احمد حقانی، حسن نثار، عبدالقادر حسن وغیرہ کے ساتھ شائع ہوگیا۔ خوشی سے میں پاگل سا ہوگیا تھا۔ اسی طرح اردو ڈائجسٹ سے جب صحافت کا آغاز کیا تو پہلی تحریر پر بہت خوشی ہوئی۔ پہلا باضابطہ کالم جب دو ہزار چار میں ایکسپریس میں شائع ہوا تب بھی بہت اچھا لگا۔ آج بھی اچھا لگتا ہے۔
سینئر صحافیوں کی تعریف سے بہت خوشی ہوئی۔ جیسے ہارون الرشید صاحب کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ میرے سب سے پسندیدہ کالم نویس عامر خاکوانی، تو دل نہال ہوگیا۔ یا پھر جب شامی صاحب کہیں کہ نوجوان لکھنے والوں میں سے نمایاں اور ممتاز لکھاری، الطاف حسن قریشی تعریف کریں، اوریا مقبول جان کو جب میسج کروں اپنے کسی کالم کے حوالے سے تو وہ جواب میں جب لکھیں کہ میں صبح سات بجے ہی کالم پڑھ چکا ہوں۔ جاوید ہاشمی جیسا شخص جب کہے کہ میں آپ کی ہر تحریر پڑھتا ہوں۔ اسی طرح دوسرے لوگ خاص کر جن کو میں خود پسند کرتا، پڑھتا ہوں، وہ تعریف کریں تو خوشی زیادہ ہوتی ہے۔
سوال: آپ دائیں اور بائیں بازو کے لکھاریوں کو کیا مشورہ دینا یا نصیحت کرنا چاہیں گے ؟
جواب: نئے لکھاریوں کو میرے دوتین مشورے ہوتے ہیں؛ ایک تو پڑھنے پر زیادہ توجہ ہو، لکھنے پر کم۔ مطالعہ بڑھائو۔ خاص کر فکشن ضرور پڑھو تاکہ تخلیقی اسلوب بنے۔ زبان سیکھو، ادب کی جمالیات سیکھو، پھر کوئی نظام فکر ہونا چاہیے، سٹرکچرڈ فکر۔ اس کے بعد آپ کا زندگی میں کوئی نظریہ ہو۔ اور پھر کنٹری بیوشن ممکن ہوسکتا ہے۔
سوال: سوشل میڈیا سے لکھاریوں کی ایک بہت بڑی کھیپ برآمد ہوئی ہے۔ ان لکھاریوں کا ہر موضوع پر بے باکانہ انداز میں لکھنا ایک اچھا عنصر ہے یا اس کے نقصانات زیادہ ہوئے...؟
جواب: ایسے بہت سے نام ہیں۔ جنہیں میں نے فیس بک پر پڑھا، ان میں سے بعض کالم نگار بھی تھے، مگر بدقسمتی سے میں انہیں نہیں پڑھ سکا تھا، جیسے امت کراچی کو پنجاب میں نہیں پڑھا جاتا تو ان کے کالم نگاروں سے واقف نہیں تھا۔ ان لکھاریوں میں رعایت اللہ فاروقی ہیں۔ فیس بک پر قاری حنیف ڈار کو پہلی بار پڑھا۔ ان کی بعض تحریریں کمال ہوتی ہیں۔ بعض سے سخت اختلاف اگرچہ ہوتا ہے۔ اسی طرح فرنود عالم، ید بیضا، حسنین جمال اچھا لکھنے والے ہیں۔ ہمارے دوست وسی بابا فیس بک پر کمال لکھتے ہیں۔ فیس بک پر میرے سب سے پسندیدہ لکھاری ڈاکٹر عاصم اللہ بخش ہیں۔ جس کسی نے انہیں نہیں پڑھا تو بہت کچھ مس کیا۔ ڈاکٹر عاصم پاکستان کے چند ایک جینوئن دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ جین سارتر اچھا لکھتے ہیں۔ انعام رانا عمدہ لکھاری ہے۔ عدنان خان کی تحریر میں طنز کم ہوجائے تو اچھا لکھتا ہے۔ عثمان قاضی کمال ہے۔ زبیر منصوری اچھا لکھنے والے ہیں۔ فیض اللہ خان، سبوخ سید اچھے لکھاری ہیں۔ جویریہ سعید اچھا لکھتی ہیں۔ ظفر عمران اچھا لکھتے ہیں۔ حنیف سمانا اچھا لکھتے ہیں۔ مہران درگ کی نثر ظالم قسم کی ہے۔ مگر اتنی زیادہ خوبصورت نثر بھی عذاب بن جاتی ہے، قاری خیال سے ہٹ جاتا ہے ۔ ثاقب ملک کی پیروڈیز کمال کی ہیں۔ آپ کے گروپ کی ثمنیہ ریاض کی وال پر بعض عمدہ تحریریں ہیں۔ ان میں ٹیلنٹ ہے۔ سید متین احمد اچھا مذہبی لکھتے ہیں فیس بک پر۔ اور بھی کئی ہیں، نام فوری شاید یاد نہ آئیں۔
سوال: آپ نے سوشل میڈیا کے لکھاریوں کو Daleel.pk ویب سائٹ کے طور پر ایک پلیٹ فارم مہیا کیا... ویب سائٹ کے قیام کا بنیادی مقصد کیا ہے اور آپ کو اپنے اصل مقصد میں کتنے فیصد کامیابی ہوئی؟
جواب: دلیل ایک نظریاتی پلیٹ فارم ہے۔ مذہبی فکر، نظریہ پاکستان، قائدین تحریک پاکستان، ہماری اسلامی اخلاقیات وغیرہ کو سلیقے، شائستگی اور دلیل کے ساتھ پیش کرنا مقصد تھا اور ہے۔ یہ ایک واضح پوزیشن ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام کا ایک تصور علم، تصور اخلاق، تصور معیشت، تصور شہریت، تصور اقلیتی آبادی ہے۔ اس تصور کو ہم نے سامنے لانا، دکھانا ہے۔ دلیل کی کامیابی ماشااللہ قابل رشک رہی۔ ڈھائی تین مہینے میں ٹاپ ہزار میں آگئی ہے۔ اس وقت رائٹ یا دوسرے الفاظ میں مضامین کی یہ ٹاپ کی ویب سائٹ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس کی ریڈرشپ جینوئن ہے۔ ایک سٹوری بھی سپانسر نہیں کی گئی۔
سوال: تصور کیجیے تحریک پاکستان زوروں پر ہے۔ مسلمانان ہند دو دھڑوں میں تقسیم ہیں؛ ایک طرف بہت بڑے علمی نام ہیں تو دوسری جانب محمد علی جناح... عامر ہاشم خاکوانی اس وقت ان حالات میں خود کو کن صفوں میں بیٹھا محسوس کرتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہوگی؟
جواب: عامر خاکوانی اگر تحریک پاکستان میں ہوتا تو لازمی مسلم لیگی صف میں ہوتا۔ زمیندار میں مولانا ظفر علی خان کے ساتھ اس کا قلمی مورچہ ہوتا۔ میں پاکستان کا بننا ایک فطری چیز سمجھتا ہوں۔ میرے خیال میں یہ ڈیزائن آف نیچر ہے۔ قدرت یہ چاہتی تھی کہ ایسا ہو، مذہب کی بنیاد پر دنیا کا واحد مسلمان ملک وجود میں آئے۔ ورنہ شاید ایسا نہ ہوپاتا۔
سوال: سوشل میڈیا کی دنیا کا بغور جائزہ لیا جائے تو مثبت کی جگہ منفی طرزِ تحریر کو کہیں زیادہ پذیرائی ملا کرتی ہے، آپ کی نظر میں لوگ مثبت تحریر کی نسبت منفی تحریر کا اثر کیوں جلدی قبول کرتے ہیں؟‎
جواب:  میرا نہیں خیال کہ مثبت تحریر کو پذیرائی نہیں ملتی۔ میں نے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی مثال دی۔ وہ اس وقت ہمارے حلقے کے مثبت لکھنے والوں میں سرفہرست ہوں گے۔ ان سے زیادہ پازیٹو، رجائیت پسند لکھاری کوئی اور نہیں اور ان کی تحریروں کو بہت پزیرائی ملی۔ مجھے خود فیس بک پر معقول قسم کی پذیرائی ملی۔ میرے کئی بلاگز پچاس ساٹھ ستر ہزار تک ویوز بھی لے گئے۔ ہزاروں کی فیس بک شیئرنگ اس کے علاوہ۔ ہاں جذباتی انداز کی تحریر زیادہ مقبول ہوتی ہے، سطحی جذباتیت خاص طور پر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اکثریت بھی اتنی میچور نہیں ہے تو سطحی چیزیں ان کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ وہ انہیں پسند اور شیئر بھی کر دیتے ہیں۔ خاص کر مذہب کے حوالے سے۔ کہانیاں بھی زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ جو لوگ واقعاتی انداز میں لکھتے ہیں، وہ بھی پڑھے جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ منفی تحریر والے لوگ فیس بک پر اتنے زیادہ مقبول نہیں۔ ویب سائٹس کا میرا تجربہ تو خاص طور پر یہی بتاتا ہے۔ اب پتا نہیں کہ منفی تحریر سے آپ کی کیا مراد ہے؟ میرا خیال ہے کہ جس طرح مجھے بھی آپ کے اور دیگر لوگوں کے حلقوں میں جانا چاہیے، آپ کو میرے، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، دلیل وغیرہ کے پلیٹ فارم کا چکر لگاتے رہنا چاہیے، پھر شاید آپ کی رائے بدل جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اصل میں فیس بک پر گروپنگ ہے۔ لوگوں کی اپنی پسند ناپسند ہے۔ جس فرد ، نظریے پر تنقید کی جائے، اس کےمخالف اسے فوری لے اڑتے ہیں۔ اسے اپنی وال پر شیئر بھی کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ بعض دفعہ بہت محنت سے بہت عمدہ نظریاتی چیز لکھی گئی مگر حرام ہے کہ کوئی شیئر کرجائے، صرف دو چار لائکس ملتے ہیں، جبکہ کوئی اختلافی تحریر ہو اور اگر وہ مدلل اور مختصر ہو تو سیکڑوں ہزاروں میں شیئر ہوجاتی ہے۔
سوال: کھانے پینے کے شوقین تو یقیناً ہوں گے۔ کیسی خوراک پسند ہے؟ زمین پر بیٹھ کر فل دیسی ماحول میں کھانا پسند کرتے ہیں یا چمچہ کانٹا کے ساتھ نوڈلز اور دیگر ڈشز کے ساتھ ”جنگ“ کرنا پسند ہے؟ کبھی ایسا ہوا کہ سوچا کچھ اور ہو اور پک کچھ اور گیا ہو اور اتنا بڑا کالم نگار منہ بسورکر بیٹھ گیا ہو کہ جاؤ میں نے نہیں کھانی کوئی روٹی شوٹی۔۔۔
جواب: کھانے پینے کا میں باقاعدہ شوقین ہوں۔ ایک زمانے میں میرا ایک’’ قول‘‘ خاندان، دوستوں میں بہت مشہور ہوا تھا۔ ایک دن ہم نے فرمایا کہ نمکین ڈشز مجھے پسند بہت ہیں اور میٹھا میں کھا بہت جاتا ہوں۔
سو، مجھے کھانے میں باربی کیو ٹائپ چیزیں بہت پسند ہیں۔ تکے کباب، نمکین گوشت، دم پخت وغیرہ۔ پٹھان ہیں تو پسند بھی وہی ہے۔ پلائو مجھے بہت پسند ہے۔ بریانی پسند نہیں اور مجھے سخت اعتراض ہے کہ بریانی کو یوں گلیمرائز کیوں کیا جاتا ہے۔ ایک پلیٹ میں نصف تو وہ نکلتا ہے جسے پھینکنا پڑتا ہے؛ مسالہ، اناردانہ، املی وغیرہ، پتے اور معلوم نہیں کیا کیا۔ قیمہ مجھے پسند ہے۔ اس کی مختلف ڈشز، بھنا ہوا قیمہ، کباب، قیمہ بھنڈی، قیمہ مٹر خاص طور سے۔
ان کے علاوہ دال بھی پسند ہے۔ خاص کر دال مونگ اور دال ماش۔ دال چاول بھی کھالیتا ہوں۔ اب تو پتلے شوربے بنواتا ہوں اپنے لیے کدو، ٹینڈے وغیرہ کے۔ ایک زمانے میں بالکل سبزیاں نہیں کھاتا تھا۔ پالک پسند ہے۔ قیمہ کریلے اچھے لگتے ہیں۔ قیمہ بھرے بھی۔ چائے پسند ہےمگر، تیز پتی والی، دن میں چار پانچ یا چھ سات بار بھی۔ کافی بھی پسند ہے خاص کر سردیوں میں۔ لاہوری نان پسند نہیں۔ افغان تنوری نان پسند ہیں۔ ہمارے سرائیکی پٹھانوں کی بعض ٹریڈیشنل ڈشز ہیں جیسے کوٹی روٹی۔ یہ دہی کے ساتھ بنتی ہے۔ انڈوں کی کڑی اور کوٹے قیمے کی ٹکیاں، ڈیرہ اسماعیل خان کی ثوبت بہت پسند ہے۔ ترک کھانے پسند ہیں۔ عرب ڈشز بھی۔
سوال: بہت سے مشکل حالات ایسے آتے ہیں کہ اگر آپ ان میں سرخرو ہوجائیں تو شعوری طور پر ایک نیا ”جنم“ پاتے ہیں۔ پرانے جسم میں نئی روح محسوس ہوتی ہے۔ آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ جب لگا ہو سب ختم ہوگیا ہے، کچھ نہیں رہا اور پھر اسی عدم میں سے عامر نیا روپ لے کر وجود میں آیا ہو؟
جواب: مشکل وقت میرے اوپر بہت آئے۔ چار پانچ برس پہلے بھی خاصا مشکل وقت گزرا۔ مگر میں نے دیکھا کہ رب تعالیٰ نے ہر مشکل میں میری مدد کی اور ایسے مدد کی کہ میں اپنے رب کی عنایات وکرم پر حیران رہ گیا۔ زندگی میرے لیے سچی بات ہے اتنی مشکل نہیں رہی۔ ایک دن بھی میں بے روزگار نہیں ہوا۔ صحافت میں یہ بڑا مسئلہ رہا ہے۔ روپے پیسے کا مسئلہ نہیں رہا۔ اللہ کا بہت کرم رہا۔ مگر مشکل وقت آتے ہیں، رب تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں، مشکل ٹل جاتی ہے۔ مہلت مل جاتی ہے۔ دعا کریں کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ آمین