کشمیر ان دنوں غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ 8جولائی 2016ء کو عسکری کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے مابعد تا حال 92 افراد جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ اسی طرح زخمیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 15 ہزار کے قریب افراد بُری طرح سے زخمی ہوگئے ہیں۔ حالات اس قدر گھمبیر ہیں کہ زخمیوں پر مہلک اور بدنام زمانہ ہتھیار ’پیلٹ گن‘ چلا کر زندگی بھر کے لیے مضروب کردیا گیا ہے جن میں ایک ہزار کے قریب ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کی آنکھوں کو راست نشانہ بنایا گیا اوراور اس طرح اُن کی آنکھوں کی روشنی کو ہمیشہ کے لیے گل کردیا گیا۔ اس طور یہ واضح ہوگیا کہ سال رفتہ کے دوران کشمیر کی نئی نسل کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ناکارہ بنا دیا گیا۔ رواں احتجاجی مظاہروں کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ بھارت کشمیریوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں ایک واقعہ ضرور درج کرنا چاہوں گا۔ چند سال قبل جب فلسطین کے اندر اسرائیلی فوج کی جارحیت آسمان کو چھو رہی تھی تب ایک واقعہ نے دنیا بھر کے میڈیا میں تہلکہ مچادیا۔ ’’اسرائیلی فوج جب فلسطین کی ایک بستی کے اندر داخل ہوئی تو وہاں پر مہلک ہتھیار کا بھرپور استعمال کیا گیا جس سے وہاں کے تعمیری ڈھانچے کو زمین بوس کردیا گیا۔ کسی ڈھیر کے پیچھے ایک چھوٹا بچہ اپنے بوڑھے والد کے ساتھ پناہ لیے ہوئے تھا۔ اسرائیلی فوج کی نظر جونہی اِن پر پڑی تو انہوں نے اپنی بندوقوں کے دہانے اس بچے کے طرف کردے۔ بوڑھا والد یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا اور اسرائیلی فوج کے سامنے اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگنے لگا۔ بضد فوجیوں نے بوڑھے والد کی ایک بھی نہ سنی۔ بوڑھا والد فوجیوں سے کہنے لگا کہ آپ کو اگر مارنا ہی ہے تو مجھے مارو، یہ بے چارہ ننھا بچہ آپ کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ مگر فوجیوں نے اس کو جو جواب دیا وہ نوٹ کرنے کے قابل ہے۔ فوجی اہلکاروں نے اس بزرگ سے کہا کہ تم تو ایک دو سال کے اندر خود ہی مرجائو گے لہٰذا تمہیں مارنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں تو اس بچے کو مارنا ہے جو ہمارے لیے خطرہ بنا ہوا ہے کیوں کہ اس کا عزم ابھی جوان ہے اور یہ مستقبل میں ہمارے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس طرح ان درندہ صفت فوجیوں نے باپ کی آنکھوں کے سامنے بیٹے کو مہلک ہتھیاروں سے بھون ڈالا‘‘۔ اسی پالیسی کے تحت اگر رواں تحریک کا جائزہ لیا جائے توجاں بحق اور زخمیوں میں سے 95 فیصد اُن بچوں کی ہے جن کا جوش اور ولولہ قابل دید تھا۔ ساتھ ہی یہ اُس کمیونٹی سے وابستہ تھے جو ریاست کے تعلیمی اداروں کے اندر زیر تعلیم تھے۔
جولائی 2016ء کے بعد سے وادی کا سیاسی نقشہ ہی تبدیل ہوچکا ہے۔ کاروباری سرگرمیاں ٹھپ، تعلیمی ادارے ویران اور سڑکیں ریگستان کا منظر بیان کر رہے ہیں۔ اگر چہ تعلیم کا حصول انسان کا بنیادی حق ہے۔ دینی اور دنیاوی اعتبار سے اس کا حاصل کرنا واضح ہے۔ لہٰذا کسی انسان کو اس حق سے محروم کرنا اور اس کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کرنا گویا انسان کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ موجودہ دنیا میں مقامی سطح سے لے کر عالمی سطح تک ایسے بہت سارے غیر سرکاری ادارے (این جی اوز) قائم کیے گئے ہیں جو بچوں کو تعلیم کے نور سے روشناس کرانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ لیکن کشمیر کے سیاسی منظرنامے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں پر ہمیشہ مفاد پرستوں اور اقتدار کے پجاریوں نے تعلیم جیسے اہم شعبہ کو اپنی لن ترانیوں کے ذریعہ استعمال کرکے مظلوم اور بے بس قوم کو ہی غیر یقینیت کے لیے ذمہ دار گردانا ہے۔ جب بھی کبھی یہاں کے عوام نے ریاست کے سیاسی حل کی خاطر اپنا احتجاج بلند کیا جبھی غیروں کے حاشیہ برادروں نے تعلیم کو ’شیلڈ‘ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سادہ لوح عوام کو گمراہ اور تحریک کے تئیں بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ماضی میں بھی ایسے حربے آزمائے جاچکے ہیں اورآج 2016ء کی احتجاجی لہر میں بھی اب تعلیم کا ہتھکنڈا استعمال میں لاتے ہوئے عوام کے عزم و استقلال کو متاثر اور ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں مخلوط حکومت کے ترجمان اور پی ڈی پی سے وابستہ وزیر تعلیم جناب نعیم اختر بڑے ہی پریشان حال دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ پچھلے ڈھائی مہینوں سے وادی کے یمین و یسار سے لوگ سڑکوں پر آ کر ’پی ڈی پی، ہائے ہائے‘ کا نعرہ بلند کر رہے ہیں وہیں وادی کے اندر متعدد مقامات پر پی ڈی پی ممبران اور ذمہ داران کو اپنی اوقات بھی یاد دلا رہے ہیں۔ خود وزیر تعلیم جناب نعیم اختر کو بانڈی پورہ کے راستہ پنزی نارہ کے مقام پر مقامی لوگوں نے پتھروں کا نشانہ بناتے ہوئے اُنہیں اُن کی اصلیت سے واقف کرایا۔ اگرچہ وزیر موصوف نے صبح پو پھٹتے ہی اخبارات کے اندر بیان جاری کروایا کہ ’خالی دو عدد پتھر میری گاڑی کو لگے‘۔ اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں پی ڈی پی سے وابستہ عبدالحق خان کا کرناہ کپواڑہ میں پتھر بازی سے استقبال کیا گیا۔ المیہ تو تب ہوا جب ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو کولگام میں کافی خفت اُٹھانی پڑی جہاں موصوفہ کی آرمی اور پولیس نے ایک نہتے اور پُرامن نوجوان کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایاتھا۔ محبوبہ مفتی صاحبہ نے جونہی شہید کے گھر واقع کولگام جاکر اپنی امیج کو میڈیا کے اندر ٹھیک کرنا چاہا تو فوراً علاقہ کے اندر احتجاج شروع ہوا، لوگوں کو مساجد کے لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ سڑکوں پر آنے کو کہا گیا اور اس طرح مفتی صاحبہ صرف ’آٹھ منٹ‘ وہاں پر قیام کرسکیں اور فوراً فوج اور پولیس کی چھتراچھایا میں اُلٹے پائوں رفوچکر ہوگئیں۔ اس واقعہ کا اہم اور دلچسپ پہلو یہ تھا کہ محبوبہ مفتی کو کولگام جانے کے لیے لوگوں نے راستہ مہیا نہیں کیا بلکہ مفتی صاحبہ کو فوج کا ہیلی کاپٹر منگانا پڑا جس کے ذریعے وہ گپکار کے عالی شان محل سے سیدھے کولگام کے فوجی کیمپ کے اندر لینڈ ہوئیں۔ متعلقہ بستی کے لوگ محبوبہ مفتی صاحبہ سے اس قدر نالاں تھے کہ جس مقامی پی ڈی پی بلاک صدر نے یہ پروگرام طے کیا تھا، مقامی لوگوں نے اُس کے گھر کو بھی پھونک ڈالا۔
پی ڈی پی کا زوال یہی پر ہی ختم نہیں ہوا بلکہ جاریہ احتجاجی لہر کے دوران پی ڈی پی سے وابستہ ممبران اور دیگر مقامی ذمہ داروں کی بڑی تعداد نے گزشتہ مہینے کے دوران سرعام احتجاجی کانفرنسوں اور ریلیوں کے دوران پارٹی سے استعفیٰ دیا اور عوام سے اپنی غلطیوں پر معافی طلب کی۔ پارٹی کے اندر بڑا زلزلہ تب آیا جب پارٹی کے بانی ممبر اور وسطی کشمیر سے منتخب ہوئے ممبر پارلیمنٹ طارق حمید قرہ نے پریس کانفرنس کے دوران استعفیٰ دے دیا۔ طارق حمید قرہ جن کی وجہ سے پی ڈی پی سرینگر اور ملحقہ علاقوں میں مضبوط ہوئی تھی، نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے محبوبہ مفتی صاحبہ کی پول کھول کر رکھ دی اورکہا کہ پی ڈی پی کے ’عریاں مظالم‘ حد سے تجاوز کرگئے ہیں اور اسی لیے میں پارٹی اور پارلیمنٹ سے مستعفی ہو رہا ہوں۔ ایسے حالات میں پی ڈی پی کی لیڈرشب سکتے میں ہے اور اپنی مجروح ہی نہیں بلکہ مہلوک ساکھ کو از سرنو زندہ کرنے کی خاطر اب وزیر تعلیم جناب نعیم اختر صاحب کو ’تعلیم بچائو مہم‘ کے تحت میدان میں اُتارا گیا ہے۔ وزیر تعلیم جناب نعیم اختر اپنی میٹھی اور تیکھی زبان سے جہاں آزادی پسندوں اور عوام کی تنقید کرتے ہوئے تمام ہلاکتوں کے لیے اُنہیں ذمہ دار ٹھہراتے ہیں وہیں دوسری جانب سرعام سیمیناروں اور سرکاری مجالس میں عوام کو ’ولر کنارے‘ پڑھنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔ وزیر موصوف ’سکے کے دورخ ‘ کے مانند جہاں موجودہ احتجاجی لہر کو آزادی پسندوں اور پاکستان کی کارستانی قرار دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق جیسے آزادی پسندوں کی تعریفوں کی پُل باندھتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں۔
بہرحال گزشتہ ہفتہ محکمہ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات کو منعقد کرنے کے لیے ڈیٹ شیٹ کا اجراء کیا گیا ۔ اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ کے وزیر جناب نعیم اختر نے گزشتہ ایک مہینے سے اپنی چال میں تیزی لاتے ہوئے ریاستی طلبہ و طالبات کو امتحانات کے لیے تیار رہنے کو کہا۔ 8 جولائی سے وادی کے اندر جو حالات بنے ہوئے ہیں اُن میں امتحانات تو دور کی بات، جسم اور روح کے رشتہ کو قائم رکھنا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت کی فوج، سی آر پی ایف اور پولیس کی طرف سے بے تحاشا گولیوں اور پیلٹ کے چھروں کا استعمال کرکے جہاں تاحال 92 افراد شہید ہوچکے ہیں وہیں ہزاروں کی تعداد میں وادی کے ادھ کھلے پھول ہسپتالوں میں درد سے کراہ رہے ہیں۔ احتجاج کے دوران فورسز کی بربریت کا اس طور سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی نوخیز نسل کے چہروں اور آنکھوں پر راست وار کر دیا گیا ہے اور اس طرح وادی کے ہر گھر کے اندر ماتم جیسا ماحول برپا ہے۔ جس گھرکے اندر 4 سالہ زہرہ پیلٹ چھروں کے درد سے کراہ رہی ہو، جہاں 14 سالہ انشاء نامی بچی پر پورا پیلٹ کا کاٹریج فائر کرکے اس ادھ کھلے پھول کو ہمیشہ کے لیے نابینا بنایا گیا ہو، جہاں 8 سے 19 برس کی عمر کے قریباً سو طالب علم پیلٹ سے مکمل طور نابینا ہوچکے ہیں، کیا وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ذمہ دار بتا سکتے ہیں کہ درد سے اس قدر جوجھ رہی ریاست کی نوخیز نسل کیسے امتحانات میں شامل ہوسکتی ہے؟ کیا وزیر تعلیم انشاء نامی بچی کا بچپن دوبارہ لوٹا سکتے ہیں جس کا خواب حقیقت بننے سے قبل ہی ٹوٹ گیا؟ نیوتھید ہارون کے11 سالہ ناصر شفیع نامی طلب علم جس کے پیٹھ پر ’ویر سینائوں‘ نے پورا پیلٹ چلاکر اپنی درندگی کا برملا اظہار کیا۔ ناصر نے نہ ہی فورسز پر کوئی پتھر مارا تھا اور نہ ہی کسی فورسز گاڑی کو جلایا تھا بلکہ یہ کمسن جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے روانہ ہواتھا۔ ناصر کے والدین اس اُمید سے گھر میں انتظار کر رہے تھے کہ سہ پہر کی چائے گھر کے سب لوگ اکٹھے نوش کریں گے مگر اس کم سن پھول کو بھی زندگی کی بقیہ بہاریں دیکھنی نصیب نہ ہوئی۔ باسط مختار ساکن پلوامہ نامی طالب علم بھی ظالم فوجیوں کی بربریت کا شکار ہوکر ظلم بےگناہی کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ اس طرح ریاست کے اندر ایک ہزار کے لگ بھگ ایسے ادھ کھلے پھولوں کی زندگیوں کو جناب نعیم اختر صاحب کے ’ویروں‘ اور ’دیش بھگتوں‘ نے ہمیشہ کے لیے تباہ کردی۔ 16سالہ جاوید احمد نجار، 18سالہ جاوید احمد شیخ، 26 سالہ منظور احمد لون ، 25 سالہ محمد اشرف بٹ اور 15سالہ فاروق احمد بٹ ساکنان آری پانتھن بیروہ کی کون سی خطائیں تھیں کہ اُن کو جینے کے حق سے محروم کردیا گیا۔ طلبہ پر ہی نہیں بلکہ معلمین پر بھی فورسز نے اپنا قہر جاری رکھا۔ سرینگر کے مضافات شار شالی کھریو کے رہنے والے30 سالہ شبیر احمدمنگو جو حال ہی میں امر سنگھ کالج میں لیکچرار تعینات ہوا تھا، کوبھی بڑی بے دردی سے دوران حراست شہید کردیا گیا۔ موصوف کی بستی کے اندر رات کے گیارہ بجے فوج کی بھاری جمعیت نے پہلے بستی کو جانے والی بجلی سپلائی بند کردی اور پھر گھروں کے اندر داخل ہوکر بےتحاشا توڑ پھوڑ کرکے مکینوں کی ہڈی پسلی ایک کرکے رکھ دی۔ صبح فجر سے پہلے ہی مقامی پولیس پوسٹ کے ذریعے شبیر احمد کے لواحقین کو لاش لے جانے کے لیے کہا گیا۔ کیا جناب نعیم اختر صاحب بتاسکتے ہیں کہ ایسے حالات میں یہاں کی نوخیز نسل کون سا امتحان دے پائے گی؟
صورتحال کا گھمبیر پہلو یہ ہے کہ جہاں محکمہ تعلیم کے وزیر آئے روز طلبہ کو اسکول اور کالج آنے کے میڈیا پر احکامات جاری کرواتے ہیں وہیں اس سارے غبارے سے نئی دہلی نے ہوا نکالتے ہوئے 1990ء کی طرز پر یہاں دوبارہ تعلیمی اداروں کے اندر فوج اور دیگر فورسز ایجنسیوں کو تعینات کیا ہے۔ ایس پی ہائر اسکنڈری اسکول و کالج، گورنمنٹ گرلز ہائر اسکینڈری اسکول کوٹھی باغ، ڈی اے وی جواہر نگر، گورنمنٹ کالج برائے خواتین واقع نواکدل، سونہ وار اور راجباغ کے اسکولوں کے علاوہ مختلف اضلاع میں اسکولوں اور کالجوں میں اس وقت فورسز کی مختلف ایجنسیوں سے وابستہ اہلکار تعینات ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہر سرینگر کے ان نامی گرامی اسکولوں اور کالجوں کو وزیر تعلیم ’سمارٹ اسکولز‘ کے زمرے میں لانے کا شوشہ عام کرچکے تھے مگر عینی شاہدین کے مطابق فورسز نے ان اداروں میں اپنا قبضہ جماتے ہوئے اسکولوں کی ہیئت ہی تبدیل کر دی ہے۔ مقبوضہ اسکولوں کے اندر بنکروں کا جال بچھایا گیا ہے اور عمارتوں کا رنگ و روغن بھی تباہ کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ اسکولوں کے اندر پارکوں اور گراؤنڈ پر کافی سرمایہ لگایاگیا تھا مگر وہاں آج فوجی اہلکاروں نے اپنی گاڑیاں گھسادی ہیں۔ ساتھ ہی کلاسز کے اندر موجود ڈیسک اور ٹیبل کو باہر پھینک دیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں کیا یہ مناسب ہوگا کہ بچوں کو اسکول اور کالج آنے کے لیے کہا جائے اور اُن سے امتحان دینے کا مطالبہ کیا جائے؟
والدین بھی اس نازک صورتحال میں اپنے بچوں کے تئیں متفکر دکھائی دیتے ہیں۔ بچوں کے والدین نے وزیر تعلیم کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اگر ڈیٹ شیٹ کا اجراء کیا گیا ہے، تو کیا وزیر موصوف بتاسکتے ہیں کہ طلبہ امتحان کہاں دیں گے؟ فیس بک پر بلال احمد میر نامی نوجوان نے پوسٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کشمیریوں کو سبق سکھانے کے لیے فوج کو بلایا گیا ہے لہٰذا آج سے تمام امتحانات وزیر تعلیم جناب نعیم اختر صاحب کے گھر پر منعقد ہوں گے‘‘۔ عوام کا کہنا ہے کہ خدانخواستہ کل کہیں اگر کسی اسکول پر نامعلوم افراد نے تحریک ’حق خود ارادیت‘ کو بدنام کرنے کی غرض سے گرینیڈ داغا یا فائرنگ کی، تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ لہٰذا ایسے حالات میں وزیر تعلیم کی ’امتحان اسکیم‘ صحیح معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہی والدین اپنے بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے روادار ہے۔ حکومت کی ’امتحان پالیسی‘ کو لے کر گزشتہ کئی دنوں سے طلاب سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ طلاب جہاں امتحان کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں وہ حالیہ احتجاج کے دوران شہید اور زخمی ہوئے بچوں کو انصاف فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ مگر ’مرغے کی ایک ٹانگ‘ کے مصداق حکومت ہمیشہ طاقت کی زبان ہی سمجھتی ہیں اور یہاں بھی کئی مقامات پر ننھے منھے بچوں پر ٹائر گیس کا استعمال کرکے حکومت نے اپنی پوزیشن مضحکہ خیز بنا دی ہے۔ کولگام سے لے کر کیرن کی وادیوں تک اسکولی طلاب حکومتی فیصلہ کے خلاف نالاں ہیں۔ گزشتہ روز سرینگر کی پریس کالونی میں احتجاجی طلاب نے وزیر تعلیم جناب نعیم اختر کی ’امتحان پالیسی‘ کو فوری طور پر منسوخ کرنے کامطالبہ کیا۔ احتجاج میں شامل طلبہ نے حکومت کو رواں احتجاجی مظاہروں کے دوران جاں بحق اور زخمی ہوئے بچوں کو انصاف فراہم کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی مشنری کو باور کرایا کہ جب تک نہ مسئلہ کشمیر کو یہاں کے عوام کی اُمنگوں کے عین مطابق حل کیا جائے‘ تب تک طلبہ کسی بھی امتحان میں شرکت نہیں کریں گے۔ اس طرح ان ننھے منھے بچوں نے سیاست کی گلیاروں میں ہلچل مچاکر حکومت وقت کو ہوش کے ناخن لینے کا بھی مشورہ دیا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جہاں تک ریاست کی سیاسی پوزیشن کا سوال ہے، پی ڈی پی کو اس بات کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرے مگر جہاں بات ’امتحان‘ کی ہو، جناب نعیم اختر اس بارے میں دو قدم اُٹھاسکتے ہیں جو بہرحال وقت کا تقاضا ہے۔
تبصرہ لکھیے