امریکہ اپنے تئیں ایسی پلاننگ اپناتا ہے جس میں اس کی دانست کے مطابق سو فیصد کامیابی مل سکتی ہے گو کہ وقتی طور پر جبر کے ذریعے وہ قابض تو ہوجاتا ہے لیکن کسی کے دل پر راج کرنا ایسے ممکن نہیں ہے۔ بین الاقوامی تنظیم فرینڈز کمیٹی آف نیشنل لیجسلیشن کے مائیک شینک کہتے ہیں کہ ایسا کرنا ماحولیات کے لیے نقصان دہ اور خوفناک ہے، اوراس ملک کے لیے بُرا، جہاں یہ کیا جائے گا۔ لیکن ایسا کرنا اسلحہ سازوں کے لیے سود مند ہوگا کیونکہ انھیں مستقبل میں نئی فرمائشیں مل جائیں گی۔ لیکن یہ امریکہ کے ٹیکس دہنددگان کے سات ارب ڈالر کانقصان ہوگا۔" اور یہ سب امریکہ کے خلاف اٹھنے والی تحریک مدارس کے طلبہ سے ہوا جنھیں طالبان کا نام دیا گیا، کیونکہ اسلحہ تلف کرنے کا معاملہ عراق اور کویت جنگ میں نہیں ہوا تھا، یہ صرف افغانستان میں ہو رہا ہے کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ افغانستان میں علمی و مذہبی لحاظ سے جڑیں انتہائی مضبوط ہیں۔
نیٹو افواج افغانستان کے مخصوص علاقوں کے علاوہ آزادی ساتھ کہیں نہیں جاسکتے، خودکشیوں کے بےتحاشا واقعات نے امریکی فوجیوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے مسلمان جانتے ہیں کہ امریکہ و برطانیہ دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ باقی یورپ بھی ان کے نقش ِ قدم پر ہے۔ فرانس کے وزیر داخلہ نے2012ء میں فرانس کے شہر سٹراس بگ میں ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر متعصبانہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ اسلام زیر زمین پھیلنے والا مذہب بن جائے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ فرانس یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہے جہاں پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ فرانس کےلیے یہ بہت پریشان کن بات ہے کہ اسلام تیزی کے ساتھ یورپ میں پھیل رہا ہے اور ان کے منفی پروپیگنڈے ناکام ہو رہے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کے مکروہ چہرے یورپ کے پڑھے لکھے عوام کے سامنے آچکے ہیں۔اس کے علاوہ مسلم ممالک بھی سمجھ چکے ہیں ہمیں ان کے طلسمی شکنجے سے باہر نکلنا ہے لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں کے درمیان مسلکی اور فقہی اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں یورپ ماہر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ میں بننے والی گستاخانہ فلم نے مسلمانوں کے جذبات مشتعل کردیے تھے تو انھیں اسے فرو کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑے جس کے بعد میڈیا میں اس گستاخانہ فلم کی گونج کم ہوگئی۔ امریکہ اور افغانستان میں قرآن کریم کی بےحرمتی اور ناروے میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد اب شام میں مذہبی مقامات پر متحارب گروپوں سے حملوں کا مقصد مسلم امہ میں ایک ایسی انارکی پیدا کرنا ہے کہ جس میں فرقوں کے نام پر بٹے مسلمان آپس میں لڑنے مرنے پر تیار ہوجائیں اور امریکہ اس کوشش میں کامیاب نظر آتا ہے ورنہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ فوجی آمریت کے خلاف نام نہاد جمہوری حکومتیں پابندیاں عائد نہ کریں۔
امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی زبوں حالی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں اب افغانستان میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جو پختون رواج کے برخلاف ہو۔ یقینی طور پر اس پر جہاں چہ میگوئیاں ہوں گی، وہاں پختون اپنی روایات کی بنا پر مشتعل بھی ہوسکتا ہے اور امریکہ کو مزید رکنے کے لیے بہانہ مل سکتا ہے کہ افغانستان اب بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنی فوج اور اسلحے کے انتقال کا مکمل ٹائم فریم نہیں دیا تھا، کبھی وہ اسلحہ تلف کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو کبھی اسے دیگر افغانستان کے ساتھ جڑے اور مخالف ممالک کو دینے کے لیے پلاننگ بناتا ہے۔
امریکہ نے 7 ارب ڈالر کا فوجی سامان کیوں جلایا؟ قادرخان افغان

تبصرہ لکھیے