ہوم << الیاس گھمن کا مسئلہ اور شرعی تقاضے. قاضی حارث

الیاس گھمن کا مسئلہ اور شرعی تقاضے. قاضی حارث

<
ol>
وہ دو لوگ تھے اور دیوار پھاند کے صحن میں داخل ہوئے تھے، عبادت کرنے والے کا گھبرا جانا فطری تھا۔
یہ پہر اس نے عبادت کیلئے مخصوص کر رکھا تھا اور آنے جانے والوں کو اس بات کا علم بھی تھا۔
پھر یوں بھی کہ آنے والوں نے عمومی راستہ اختیار کرنے کی بجائے دیوار پھاند کر داخل ہونا پسند کیا تھا۔
آنے والوں نے جب اسکے چہرے پر پریشانی دیکھی تو کہا:
پریشان مت ہو! ہم دو فریق ہیں ، آپس میں لڑ بیٹھے ہیں۔ تم حکمران ہو، ہمارے درمیان فیصلہ کردو۔
ایک نے کہا: یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے۔ یہ میری دنبی ہتھیا کر اپنی سو دنبیاں مکمل کرنا چاہتا ہے۔
فیصلہ کرنے والا فورا بولا: ایک دنبی ہتھانے کی کوشش کرکے تو تم نے بہت ظلم کیا ہے اپنے بھائی پر اور اکثر شراکت میں ایک بندہ دوسرے پر ظلم کر جاتا ہے۔
پھر اچانک فیصلہ کرنے والے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو سجدے میں گر پڑا اور معافی مانگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حکمران حضرت داؤد علیہ السلام تھے اور یہ واقعہ قران میں سورہ ص میں ذکر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام سے غلطی کیا ہوئی کہ انہوں نے فورا سجدے میں گر کر معافی مانگی؟
مفسرین لکھتے ہیں کہ وہ دیوار پھلانگنے والے دراصل فرشتے تھے جو حضرت داؤد علیہ السلام کے عدل کی آزمائش کیلیئے اللہ کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ یہاں حضرت داؤد سے لغزش یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے دوسرے فریق کا مقدمہ سنے بغیر فیصلہ جاری کردیا تھا جس پر اللہ کی طرف سے تنبیہ ہوئی اور انہوں نے فورا سجدے میں گر کر معافی مانگی۔
یہ سارا قصہ امت کیلیئے ایک سبق ہے کہ جب بھی کوئی رائے قائم کی جائے تو دونوں فریق کی بات سن کر قائم کی جائے۔
نہ میں مفتی ریحان کو جانتا ہوں اور نہ ہی کبھی الیاس گھمن کو سننے کا اتفاق ہوا۔
لیکن یہ بات مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ مفتی ریحان کی طرف سے ایک اندھی خبر پر "آمنا و صدقنا" کہہ کر میں کوئی بدگمانی یا رائے قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ الیاس گھمن کی طرف سے کوئی صفائی یا اقرار سامنے نہ آجائے۔
شریعت میں اس کی مثال یوں سمجھئے کہ:
خدانخواستہ ایک شخص نے کسی خاتون پر زنا کا الزام لگایا تو عدالت اسے گواہ پیش کرنے کو کہے گی۔ اگر وہ شخص گواہ پیش نہ کرسکا تو خاتون
کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اگر خاتون نے عدالت میں صحت الزام کا انکار کردیا تو باوجود اس شخص کے الزام سچ ہونے کے خود اس شخص کو حد قذف یعنی زنا کے الزام کے ستر کوڑے کھانے پڑینگے۔
اس کے بعد معاملہ اللہ کی عدالت کی طرف چھوڑ دیا جائے گا وہاں اصل فیصلہ ہوگا اور جھوٹا عذاب سہے گا۔
چنانچہ دونوں طرف کی رائے اور صفائی سنے بغیر میرے لیئے کسی بھی شخص کے زانی ہونے کا گمان رکھنا ممکن نہیں کیونکہ اس طرح تو میں بھی حد قذف کا مستحق ٹھہر سکتا ہوں الا یہ کہ فاعل خود اس فعل شنیع کا اقرار کرلے۔
نہ ہی میں الیاس گھمن کا حامی ہوں اور نہ ہی مفتی ریحان کی کبھی شکل دیکھی ہے لیکن ایک بات جانتا ہوں:
"آدمی کے جھوٹا ہونے کیلیئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو بات سنے آگے بیان کردے۔"
حدیث۔
از
قاضی محمد حارث