ہوم << مہاجر مہاجر مہاجر - روبینہ فیصل

مہاجر مہاجر مہاجر - روبینہ فیصل

بار بار کہنے سے کوئی عمر بھر کے لیے مہاجر نہیں ہو جاتا۔ یہ ایک ذہنی کیفیت ہے جسے اپنے مفادات کے لیے معصوم ذہنوں پر طاری کر دیا گیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے:
کیا پنجاب میں مہاجر اس لیے نظر نہیں آتے کیونکہ وہاں بھٹو کا کوٹہ سسٹم نہیں؟ تو پنجابی مہاجروں نے یہ شور کیوں نہیں مچایا کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب بڑے صوبہ تھا، اور پاکستان بننے میں پنجابیوں نے جانوں اور عزتوں کے نذرانے سب سے زیادہ دیے تھے تو پنجابی کو قومی زبان کیوں نہیں بنایا گیا؟ کیا آج تک پنجابیوں نے اپنی قربانیوں کا معاوضہ مانگا؟ کیاانہوں نے کہا کہ اردو کو قومی زبان بنا کر پنجاب کے ساتھ ناانصافی کی گئی؟ ہم نے تو پنجاب میں رہتے ہوئے کبھی لفظ مہاجر ہی نہیں سنا تھا کیونکہ پنجاب میں آکر مہاجرین، مقامی لوگوں سے زیادہ مقامی ہو گئے ہیں۔ کیا ان کی زبان اور ان کی تہذیب ایک تھی؟ مہاجر تو مہاجر ہی ہو تا ہے، زبان ایک ہو، پھر بھی اپناآبائی لہجہ، اور ثقافت کچھ نہ کچھ ساتھ اٹھا لاتا ہے۔ مگر !
روم میں رہنا ہے تو وہی کرو جو رومن کر تے ہیں، پنجابی مہاجروں نے رونے نہیں روئے بس اپنے آپ کو وہاں ضم کر لیا، اسی لیے آج پنجاب میں لفظ مہاجر غائب ہے۔ کیا ہم آج کینیڈین شہری اس لیے نہیں ہیں کہ ہم نے یہاں کے نظام میں، سوال اٹھائے بغیر خود کو جذب کر لیا ہے. کیا ہم کینیڈا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ یہ کیا جائے یا یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے یہ یہ نہ کیا جائے ورنہ ہم ناراض ہو جائیں گے؟۔ ہم حکومت سے مطالبے نہیں کر تے بلکہ اس کا مفید حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کی زبان اور ثقافت سیکھنے کے لیے سر توڑ کوششیں کرتے رہتے ہیں کیونکہ اچھی طرح پتہ ہے کہ یہ نہ کیا تو، خود بخود نہ چاہتے ہو ئے بھی تھرڈ کلاس شہری بن جائیں گے، جن پر یہاں کا سسٹم ترس کھا کر ویلفئیر تو دیتا رہے گا، مگر تنخواہ نہیں دے گا۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان نے مہاجروں کو اچھے طریقے سے خوش آمدید نہیں کیا؟ ہاں اچھے سے کیا کیونکہ لیاقت علی خان جو خود مہاجر تھے اور چاہتے تھے کہ کراچی میں مہاجر اچھے سے سیٹل ہوجائیں، ان کی فلاح کے لیے سب کیا گیا۔ 1947ء میں پناہ گرین آئے اس کے بعد 1958ء تک مسلسل ہندوستان سے مہاجرین اپنی رضا و منشا سے آتے رہے، اور یہ سلسلہ ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے. مگر شروع کی دہائی میں تو تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جواہر لال نہرو بھی مسلمانوں کی اس ہجرت سے پریشان ہو گیا تھا، کیونکہ پڑھے لکھے مہاجرین کو کراچی میں اپنا مستقبل زیادہ تابناک نظر آتا تھا، اس لیے سوچ سمجھ کر انہوں نے کراچی آنے کا فیصلہ کیا، انھیں ہندوستان میں مشکلیں اور پاکستان میں مواقع نظر آرہے تھے۔
دانشوروں کو ابوالکلا آزاد کی یہ پیشن گوئی تو یاد ہے جس میں انہوں نے ہندوستانیوں کو پاکستان جلد ٹوٹنے کی بشارت دی تھی اور ہندوستانی مسلمانوں کو نصحیت کی تھی کہ پاکستان نہ جانا، نہ ادھر کے رہو گے نہ اُدھر کے۔ مگر انہی دانشوروں کو قائد اعظم کی بصیرت ماننے میں ہچکچاہٹ ہے، جس کے مطابق ہندوستان میں مسلم اقلیت میں ہوں گے اور ہندو انہیں اپنے اطوار کے مطابق زندگی گزارنے پر اس طرح مجبور کریں گے کہ وہ اُف بھی نہیں کر سکیں گے اور کیا ایسا نہیں ہو رہا؟ مسلمان رام دین بن کے رہ گئے ہیں یا شاہ رخ خان کی طرح گھروں میں مورتیاں رکھتے ہیں اور خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کر نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔ ساری عمر کے مہمان اور کیسے ہوتے ہیں؟
کوٹہ سسٹم، مہاجرین کو نیچے گرانے کے لیے نہیں بلکہ مفلوک الحال سندھیوں کو ان کے برابر لانے کے لیے لایا گیا تھا۔ تو کیا پڑھے لکھے مہاجروں کی سوچ بھی سرداروں، نوابوں اور وڈیروں جیسی ہے؟ یعنی گرے ہوئے کو پستی سے اٹھانے کی کوشش نہ کرو؟ اور سب سے بنیادی بات بھٹو، اسے صرف دس سال کے لیے لائے تھے تاکہ اس دوران دیہاتی اور شہری تعلیم نظام یکساں کر دیا جائے، پھر سب ایک جیسے کھلاڑی، میدان میں ایک دوسرے کے مقابل اتریں۔ ورنہ تو دیسی گھی کھانے والے اور تیل کھانے والے کو لڑوا کر آپ کس حیران کن نتیجے کی توقع رکھیں گے؟ آسائشوں والے غریبوں کو کچلتے رہیں گے۔ میرٹ پر لڑوانے کے لیے تیاری کے مواقع بھی تو ایک جیسے فراہم کیے جائیں۔
اور کیا برا کیا پاکستان نے مہاجروں کے ساتھ، سب سے بڑے شہر میں آباد ہوئے، جہاں پورے پاکستان کی صنعتیں، کاروبار کے مواقع تھے۔ پورٹ سٹی، دنیا کی بڑی یونیورسٹی، کیا پاکستان نے آپ پر کچھ بند کیا؟ سارے ملک کی انوسٹمنٹ تو کراچی میں جائز مگر اس سے کمائی جانے والی رقم پر کہا جائے کہ یہ صرف ہمارا حق ؟ بات تو سوشلزم کی کرنا مگر جب اداروں کو قومی تحویل میں دے دیا گیا تو اسے بھی مہاجروں کے خلاف سازش کہنا اور اس کے بعد پاکستان کو گالی دینا۔ یہ کیسی وفاداری ہے ؟
ذاتی مثال نہ دوں تو لوگ کہیں گے پنجابی ہے، اس نے کیا کھویا ہوگا؟
میرے ابو کا قائد ماڈل کے نام سے عبداللہ پور فیصل آباد میں سکول تھا، امی ابو کی، یا کسی بھولے بھٹکے شاگرد کی زبانی ہی اس کی شان و شوکت اور کامیابی کے بارے میں سنا. اس سکول کی وجہ سے ابو پورے فیصل آباد میں جانے جاتے تھے اور ان کی عزت تھی، کیونکہ ہر دم معیاری تعلیم دینے اور سکول میں مثالی نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہتے تھے. ایک دن یہ سکول قومی ملکیت میں چلا گیا۔ ابو کو اپنے ہی ہاتھوں سے آباد کیے گئے چمن میں ہیڈ ماسٹر بننے کی آفر کی گئی، مگر انھوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ساری عمر اپنا سکول چلایا، نوکری نہیں ہو سکے گی۔ اس کے بعد پرائیویٹ سکول بناتے رہے مگر اس طرح کی کامیابی اور عزت دوبارہ نہ پا سکے۔ ساری عمر ابو نہ پھر کبھی اس پائے کا سکول کھڑا کر پائے اور نہ خود اس غم سے نکل سکے مگر ان کے منہ سے میں نے کبھی پاکستان کے لیے تو دور کی بات، کبھی بھٹو کے لیے بھی برے الفاظ نہیں سنے۔ وہ بھٹوکو آج بھی ایک لیڈر کی حیثیت سے پسند کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے پاکستان کو آئین دیا، ایٹمی طاقت بنایا اور ہمارے جنگی قیدی چھڑوا کے لایا۔ بھٹو کے پاکستان کے لیے کیے گئے بڑے کارناموں کے سامنے اپنے ذاتی نقصان اور دکھ کو کبھی یاد بھی نہیں کرتے حالانکہ اس سے ان کے بچوں کی روزی ہی نہیں بلکہ ان کی عزت بھی جڑی ہوئی تھی۔
بعد میں جب کوئی بھی کاروبار سیٹ نہیں ہو سکا تو پھر بھی کسی کو الزام دینے کے بجائے خود کو حالات کا ذمہ دار سمجھتے، کسی دوست یا رشتے دار سے اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا رونا رو کر کبھی مدد نہیں مانگی، خودادری کے ساتھ سر اٹھا کر جیتے دیکھا، حالات نے توڑا بھی تو امی ابو کو خدا کے ہی آگے جھکتے دیکھا۔ باتوں سے نہیں، اپنے عمل سے سکھایا کہ گھر کی پریشانی باہر بتانے سے نہ گھر کی عزت باقی بچتی ہے نہ خود انسان کی، اوراگر وقتی رحم کھا کر لوگ مدد بھی کر دیں تو اس کے بدلے عزت نفس کو گروی رکھنا پڑتا ہے، اسی لیے آج بھی حیرت ہوتی ہے جب ان لوگوں کے منہ سے جنہوں نے پاکستان کے اعلی اداروں سے تعلیم حاصل کی، انگریزی زبان میں فرفر بولنا بھی وہیں سے سیکھا اور پھر اسی سیکھے کو انٹرنیشنل میڈیا میں پاکستان کو گالی دینے کے لہے استعمال کر تے ہیں۔
سوچتی ہوں کہ کیا ان کے ماں باپ اپنے دکھوں کا رونا پوری دنیا کے سامنے روتے رہتے تھے؟ کیا انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ جب پناہ دینے والے، پالنے پوسنے والے، چھت دینے والے گھر کو گالیاں دو تو اس گھر کی عزت تو خراب ہوتی ہی ہے، آپ کو بھی دنیا عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ شاید محرومیوں کے رونے رو کر وقتی ترس اور فائدے سمیٹنا، ایک بیماری ہے جو انفرادی سطح سے لے کر گروپوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس بیماری کا علاج کروانا چاہیے اور یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

Comments

Click here to post a comment