بھارتی ذرائع ابلاغ کی طرف سے گذشتہ آٹھ روز سے جاری پاکستان مخالف ہرقسم کی ابلاغی مہم میں ایک بات تسلسل سے کہی جا رہی ہے کہ اتنے تواتر سے اگر جھوٹ بولا جائے تو وہ بھی سچ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اب تو اسے ایک بیانیہ بنا دیا گیا ہے کہ ’’پاکستان دہشت گردی کا مرکز اور برآمد کنندہ ہے‘‘۔ اور تو اور بھارت کے سوشل میڈیا ٹرولز نے تو اس موضوع پر ایک باقاعدہ آن لائن درخواست بنا کر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بھرپور دستخطی مہم بھی چلا دی جس پر لاکھوں لوگوں کے دستخط بھی ثبت ہونے کے دعوے کیے گئے۔ وہ تو قبول کرنے والوں نے یہ درخواست اس بنا پر مسترد کر دی کہ اس پر کیے گئے بیشتر دستخط جعلی ہیں۔ لیکن بہرحال اس عرضی کو پیش کرنے والوں نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے اور یہ فقرہ لوگوں کے اذہان میں ثبت کر دیے گئے اور اسی کے لیے یہ ساری جدوجہد تھی۔
اس کے جواب میں اسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر سب سے زیادہ سرگرم اور باقاعدہ دندنانے والی، جناب عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف کی ٹیم نے جوابی درخواست تیار کی جس کا بیانیہ تھا کہ ’’بھارت ایک دہشت گرد ملک ہے‘‘ اور سرگرم ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یعنی بھارتی بیانیے کی تردید۔ ہم دنیا بھر میں ایک تردیدی قوم کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو ابلاغ کا سب سے گھٹیا معیار جانا جاتا ہے اور حالیہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ تردید کے بعد ہم اس واقعے کوقبول بھی کر لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ابلاغ کی دنیا میں کسی بھی امر کی تردید دراصل اس کی تصدیق ہی سمجھی جاتی ہے۔ ابلاغی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی دعوے کی جس قدر شدت سے تردید کی جائی گی وہ ’’ابلاغی صارف‘‘ کے لاشعور میں اسی قدر شدت سے ایک حقیقت کے طور پر چپک جائے گا اور ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ کے مصداق لوگ نہ جانتے ہوئے بھی اس پر کچھ حد تک ہی سہی، یقین ضرور کر لیں گے۔ اب پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے اعلیٰ دماغوں کی موجودگی میں کسی دشمن کی ضرورت تو باقی نہیں رہ جاتی۔
بھارت کے اس بیانیے کو ہماری فوجی اور سیاسی قیادت میں موجود واضح اور شدید تقسیم سے مزید ہوا مل رہی ہے اور ہر دو فریق میں سے کوئی بھی اختلاف کے اس تاثر کو دور کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتا بھلے اس سے ملک کو جتنا مرضی نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مصروفِ عمل بھارتی ’ٹرولز‘ تو اسی بات کی جگالی کرتے پائے جا رہے ہیں کہ ’’پاکستان دہشت گردی کا مرکز اور برآمد کنندہ ہے‘‘، ابھی کچھ دن پہلے ہی پاک فوج سے ریٹائر ہو کر صحافت کا پیشہ اختیار کرنے والے سید اعجاز حیدر نے دارالحکومت اسلام آباد میں بیٹھ کر اسی بیانیے کو ہوا دی ہے کہ ’’اگر پاکستان غیر ریاستی عناصر سے جان چھڑا لے تو خطے میں امن ہو سکتا ہے‘‘۔ اگرچہ شاہ جی کی بیشتر تحریریں بھارت اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ میں ہی جگہ لے پاتی ہیں لیکن جن کو ان کی ’’دلیلی مدد ‘‘ درکار تھی، ان تک مسلسل پہنچ رہی ہے اور وہ اچھل اچھل کر داد بھی دے رہے ہیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پیارے دوست پر ذرہ برابر آنچ نہیں آئے گی کیوں کہ ادارہ اپنے سابقین کی بھی دل و جان سے حفاظت کرتا ہے۔ ملکی مفاد گیا تیل لینے۔ دوسری طرف جناب حسین حقانی اور ان کے ہم نوا، بیرونِ ملک بیٹھ کر پہلے ہی اسی دھن پر اپنا اپنا ’’ٹھیکا‘‘ لگا رہے ہیں اور دنیا بھر میں پھیلی پاکستان مخالف ذہنیت سے ہر قسم کی ڈھیروں داد وصول فرما رہے ہیں۔ ان کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) لندن کی قیادت اور اس قیادت کے متاثرین بھی رو ہ عمل ہیں ’’تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے‘‘۔ غور کریں کہ پاکستان کا ایک سابق سفیر، جس سے ملکی معاملات کا کچھ بھی چھپا نہیں ہوتا، جب وہ یہ کہے گا تو اس پر یقین کرنے میں کسے عار ہوگا۔ بھارت کتنا خوش قسمت ملک ہے کہ اسے ہر دفعہ بہت کم پیسوں پر مکتی باہنی دستیاب ہو جاتی ہے۔
بھارت میں کسی بھی حملے کی صورت میں اس کی بالواسطہ ذمہ داری قبول کرنے کا ’’انوکھا اور نادر‘‘ طریقہ جناب آصف علی زرداری نے اپنے دور میں یہ نکالا کہ کہا کہ ’’یہ سب کچھ غیر ریاستی عناصر کاکام ہے‘‘۔ جی ہاں وہی زرداری صاحب جنہوں نے جناب حسین حقانی صاحب کو امریکہ میں سفارت کاری کی ذمہ داری سونپی تھی۔ جی ہاں وہی زرداری صاحب جنہوں نے ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار امتیاز گل کے بقول ممبئی حملوں کے بعد بھارت کو مرید کے میں سرجیکل سٹرائیک کی اجازت بھی دے دی تھی۔ اب جب غیر صحافتی عناصر کی بات ہوئی تو پوری دنیا یہ کہہ کر ہم پر چڑھ دوڑی کہ ’’اچھا تو پھر ان غیر ریاستی عناصر کو ختم کرنا بھی تو آپ کا ہی کام ہے‘‘۔ یعنی ڈو مور۔ اور پھر اللہ نے ڈو مور کے اس نعرے میں اس قدر برکت ڈالی کہ اب بات یہاں تک پہنچ گئی کہ گلی میں سائیکل ریڑھی پر آئس کریم والا بھی ’ڈو مور، ڈومور‘ کی صدائیں لگاتا سنائی دینے لگا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے پسرِ عزیز جناب محمد مائد رضی کا جنہوں نے اپنے باپ کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ڈو مور نہیں ’او مور‘ کی صدائیں لگا رہا ہے، اس لیے نکالیں پیسے، میں اپنے لیے آئس کریم لے کر آؤں۔ ویسے آئس کریم بنانے والے ادارے میں جن کی سرمایہ کاری ہے تو ان کا ’ڈو مور‘ کہنا ہی بنتا تھا۔ اس کو کہتے ہیں ہمارے جوتے ہمارے ہی سر!
ادھر جب جب پاکستان میں فلاحِ عامہ کے کاموں میں مصروف مذہبی گروہوں کو دھڑا دھڑ دہشت گرد قرار دیا اور دلوایا جا رہا تھا تو زرداری صاحب کے زیر استعمال ہمارا دفترِ خارجہ اس کو بڑے سکون سے دیکھ رہا تھا اور اس پر ذرا برابر بھی مزاحمت کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی تھی تو اب یہ حالت ہے مسعود اظہر اور حافظ سعید جیسے تزویراتی اثاثوں کو چھپانے اور بچانے میں مشکل کا سامنا ہے۔ اور بھارت اقوامِ متحدہ کو ڈانٹ پلاتا پایا جا رہا ہے کہ اس نے ان کو دہشت گرد قرار دینے میں اس قدر تاخیر کیوں کر دی ہے۔ اور تو اور ان تزویراتی اثاثوں کے خلاف کارروائی رکوانے کے لیے ہمیں آواز لگانا پڑ رہی ہے کہ ’’چین بھائی جان! ذرا ویٹو ماریے گا ایک‘‘۔
بھارت کی سفارتی جارحیت تو اس قدر بڑھ گئی کہ اس نے کئی دہائیوں سے امریکہ میں کشمیر کے موضوع پر لابی میں مصروف، مقبوضہ کشمیر کے جناب ڈاکٹر غلام نبی فائی کو بھی نہ صرف گرفتار کروایا بلکہ اس کو آئی ایس آئی سے رقم وصول کرنے کا مجرم قرار دلوا کر سزا بھی دلوائی۔ حالانکہ آج کل حسین حقانی اور طارق فتح بھارت کے حق میں لابی ’بھگوان‘ کے نام پر تو نہیں کر رہے؟ لیکن نزلہ محض بےچارے غلام نبی فائی پر گرا اور ہمارے دفترِ خارجہ اور اداروں نے بھی اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت بھی کیا۔ اس وقت امریکہ میں کشمیر کے موضوع پر جس کو سب سے زیادہ سرگرم ہونا چاہیے تھا، وہ ڈاکٹر غلام نبی فائی تھے، لیکن ان کو امریکہ کے کسی دور دراز گھر کے ایک کونے میں دھکیل دیا گیا ہے اور ہمیں لاکھوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی اس محاذ پر ہزیمت کا سامنا ہے۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے کشمیر پر جاری ساری کی ساری پالیسی کو بھی فوج کے کھاتے میں ڈال کر اس پر سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ اور نتیجہ اب ہمارے سامنے آ رہا ہے۔
بھارت میں پٹھان کوٹ کے فوجی ہوائے اڈے پر حملے کے کچھ دن بعد وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنے کچھ چنیدہ صحافیوں کے سامنے اعتراف کیا کہ یہ حملہ ’’ہمارے اداروں‘‘ کا کام ہے اور یہ پاک بھارت تعلقات کو بہتری کی طرف آتے نہیں دیکھ سکتے۔ خیر اس کے ثبوت کے طور پر بھارت کی طرف سے پاکستان کے ایک علاقے سے لینڈ لائن سے حملہ آوروں کو کال کرنے کا ریکارڈ بھی ہمارے حوالے کیا گیا جسے وزیراعظم درست سمجھ رہے تھے۔ آئی ٹی کے اس دور میں اس طرح کے ثبوت گھڑنا بہت آسان ہے۔ امریکہ سے فون کال کرنے والا نظام میں موجود ’’سہولیات ‘‘ کی مدد سے بڑی آسانی سے آپ کو یہ ثابت کرسکتا ہے کہ وہ یہ کال آپ کے ہمسائے میں بیٹھ کر کررہا ہے۔ بات اس قدر بڑھی کہ اداروں نے وزیراعظم کو دعوت دے کر بلایا اور ثبوت دکھا کر بتایا کہ وہ اس حملے میں ملوث نہیں تھے اور بعد ازاں بھارت کی اپنی تحقیقات نے یہ بات ثابت بھی کردی۔
لیکن ان اداروں کا بھی کیا کریں؟ جب سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں تو یہ ادارے ملک کا بیانیہ تشکیل دینے یا درست کرنے کے بجائے اپنے ادارے کا امیج بحال کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے میں پاک ائیرفورس سے ریٹائر شدہ اور بعد ازاں پاکستانی سفارت کاری میں نام بنانے والے ارشد سمیع کا بعد از مرگ ایک بیان گھڑ کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر چلایا جا رہا ہے کہ کس طرح وہ (طاہرالقادری کے) عالمِ رؤیا سے اپنے بیٹے عدنان سمیع کو عاق کرنے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ 2009ء میں مرنے والے ارشد سمیع نے اپنی موت تک اس طرح کے کسی جذبات کا اظہار نہیں کیا جس طرح کے جذبات اس خط میں تحریر کیے گئے ہیں، لیکن بیٹے کی طرف سے بھارتی شہریت لینے اور اپنے سابقہ ملک پاکستان (جہاں ان کی نانی، جنرل رانی کسی دور میں سیاہ و سفید کی مالک رہ چکی ہیں اور جہاں ان کا ایک کزن حالیہ دنوں تک سنسر بورڈ کا چئیرمین بھی تھا) کے خلاف واہی تباہی بکنا ایک طرف لیکن جس طرح ہمارے ادارے ایک خیالی خط کے ذریعے اپنے ادارے کا امیج بچانے کی کوشش میں نکلے ہیں، کاش وہ کبھی پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کرنے میں بھی ایسے ہی کرتے؟
تو ایسے میں بہت سے پاکستانی سوچتے ہیں کہ ہمارا ملک اور اس کا دفاعی بیانیہ کہاں کھڑا ہے؟ اور کیا ایسی شدید تقسیم معاشرے میں قومی دفاعی بیانیے کی تشکیل کبھی ممکن ہو سکے گی یا یہ ایک دوسرے سے اسی طرح باہم دست و گریبان رہیں گے؟
تبصرہ لکھیے