اسلامی تعلیمات میں عمر رسیدہ افرادلائق عزت وتکریم، باعث برکت و رحمت، حصول رزق اور نصرت خداوندی کا سبب ہیں۔ اسلام اس طبقے کو قابل صد احترام بتلاتا ہے، ان کے ساتھ نرم گفتاری، حسن سلوک اور جذبہ خیرخواہی کا حکم دیتا ہے جبکہ ان کی خلاف مزاج باتوں پر صبر و تحمل سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے۔ افسوس کہ آج کے ہمارے انسانی معاشرے میں اس طبقے بالخصوص بوڑھے والدین کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے، اولاد کی پیدائش سے لے کر جوان ہونے تک ان کی تعلیم وتربیت، معاشی کفالت، رہائش و خوراک، علاج معالجہ، خوشی وراحت، مکان، شادی بیاہ اور دیگر مالی و جسمانی اور اخلاقی و تمدنی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے والدین اپنی تمام تر توانائیاں قربان کر دیتے ہیں۔ انہیں والدین سے بدسلوکی، بدتمیزی اور بداخلاقی کے معاملات نے انسانی معاشرے کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔
عالمی سطح پر اس طبقے کے لیے روایتی حقوق اور ان سے رسمی ہمدردی کی ایک فضا چل پڑی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے کا یہ محروم طبقہ انسانی ہمدردی ، عزت و احترام اور جذبہ خیرخواہی سے محرومی کا شکوہ کناں ہے۔ سال بھر میں ان کے لیے ایک دن منا لینے سے ان کے خالق کو ہمیشہ کے لیے نہیں منایا جا سکتا۔ بلکہ ان کے حقوق اور عزت وتوقیرکے لیے مستقل طور پر مضبوط حکمت عملی کے ساتھ دیرپا اقدامات کرنا ہوں گے۔
عمر رسیدہ افراد کے حقوق کی بات کرنے والے انہی کو اپنے اور اپنے معاشرے پر بوجھ تصور کرتے ہیں، گھریلو نظام زندگی میں ان کو یکسر بے دخل کرتے ہوئے اولڈ ہومز کے احاطے میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ آتے ہیں جہاں یہ طبقہ پل پل جیتا اور پل پل میں مرتا ہے اور اپنی محبتوں و آرزوئوں کو حسرتوں کے بوسیدہ کفن میں دفنا دیتا ہے۔
اسلام ہی روئے زمین پر وہ اکیلا مذہب ہے جو عمر رسیدہ افراد سمیت پوری انسانیت کا مسیحا ہے، چنانچہ شریعت اسلامی کا ایک معتد بہ حصہ ان کے حقوق کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ انسانیت کو اس سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ آئیے اسلامی نقطہ نظر سے عمر رسیدہ افراد کے معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی حقوق پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
معمر افراد چونکہ عمر کے اس حصے میں پہنچ جاتے ہیں جہاں صبر و تحمل کم اور چڑچڑا پن کا زیادہ ہو جانا فطری تقاضا بن جاتا ہے، اس لیے شریعت اس موقع پر یہ حکم دیتی ہیان کی باتوں سے دلبرداشتہ ہو کران کو عزت و احترام سے محروم نہ کرو۔ چنانچہ جامع الترمذی میں حدیث مبارک موجود ہے اللہ کے آخری اور سچے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘
عمر رسیدہ ہونے کے باوجود یہ طبقہ سماج کا حصہ ہوتا ہے بلکہ اسلام کی نظر میں باقیوں کی نسبت عزت و احترام کا زیادہ حق دار ہوتا ہے اس لیے بطور خاص اس سے حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کی گئی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ضمن میں اپنی صحیح بخاری میں اکرام الکبیر کے عنوان سے باب قائم کیا ہے۔ اس کے تحت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ اخلاقی و معاشرتی قانون کَبِّرِ الکْبیرَکے عنوان سے ذکر فرمایا ہے یعنی بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو۔‘‘
معمر اَفراد کو بوجھ اور بے کار تصور کرنے والوں کے لیے محسن انسانیت کا یہ فرمان صحیح سمت رہنمائی کرتا ہے اور ان کو باعث برکت بتلاتا ہے ، چنانچہ معجم کبیر طبرانی میں ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیر و برکت ہے۔ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ‘‘
ہر شخص بشرط زندگی بچپن، لڑکپن اور جوانی کے بہاریں دیکھنے کے بعد بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، اس وقت وہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور ان کی خدمت و محبت کا محتاج ہو جاتا ہے، معمر افراد کی عزت و توقیر کرنے سے اللہ کریم ایسے شخص کی یہ منزل آسان فرما دیتے ہیں چنانچہ جامع الترمذی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو نوجوان کسی معمر شخص کی عمر رسیدگی کے باعث عزت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس نو جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔‘‘
اسلام میں نماز کو اہم العبادات کی حیثیت سے جانا جاتا ہے لیکن معمر افراد کی رعایت کے پیش نظر اس اہم عبادت کو ہلکی پھلکی پڑھانے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ ان میں کمزور، بیمار، اورمعمر افراد بھی ہوتے ہیں۔ ‘‘
معمر افراد طبقے کی ایک بڑی مقدار ہمارے گھروں میں بوڑھے والدین کی صورت میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے مختلف مقامات پر بطور خاص والدین کے عمر رسیدہ ہونے پر ان سے شفقت سے پیش آنے کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ ’’والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں عمر رسیدہ ہو جائیں تو انہیں ’’اْف‘‘بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عاجزی و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) یہ فریاد کرتے رہو کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (پیار و محبت سے) پالا تھا ‘‘
معمر افراد کا عالمی دن منانے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ہدایات ہو سکتی ہیں جو اسلام نے اس ضمن میں تفصیل کے ساتھ ذکر فرمائی ہیں۔ معمر افراد کا عالمی دن ہو یا کسی بھی طبقے کے حقوق کی بات ہو، اسلام سے بڑھ کر کوئی قانون اور قرارداد ایسی نہیں جس میں مکمل رہنمائی موجود ہو۔
تبصرہ لکھیے