چور، لٹیروں کی کئی اقسام ہوا کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک قسم شوقیہ چور ہوتے ہیں جو صرف عادتاََ وارداتیں کرتے ہیں۔ کبھی کسی کے گھر دعوت پر کبھی کسی محفل میں، کسی دفتر میں کوئی چیز ان کی دسترس میں آئی اور انھوں نے فوراََ اچکا لی۔ دوسری قسم گلی محلے کے چور ہوتے ہیں جو تقریباََ ہر گلی محلے میں پائے جاتے ہیں، یہ لوگ وقتاََ فوقتاََ موقع پا کر اپنی قسمت آزمائی کرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک مرغی سے لے کر موبائل فون تک کچھ بھی کسی بھی وقت ہاتھ آجانے پر موقع ضائع نہیں ہونے دیتے اور معمولی سے معمولی چیز پر بھی قناعت کر لیتے ہیں۔ چوروں کی تیسری اور نسبتاََ خطرناک قسم وہ ہے جو اس شعبے میں نئی تکنیک متعارف کرواتے ہیں اور پھر جب وہ تکنیک معروف ہونے لگتی ہے اور دیگر گروپس بھی اس طرف راغب ہونے لگتے ہیں تو پھر یہ تکنیک بدل کر دوسری طرف چلے جاتے ہیں۔ کبھی یہ مظلوم اور بیچاری سلمیٰ بن کر لوگوں سے 50 روپے کا ایزی لوڈ مانگتے ہیں۔ کبھی یہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر لوٹتے ہیں اور کبھی یہ چائنا کی ڈھائی لاکھ کی گاڑی کا ایڈوانس وصول کرتے ہیں۔
لٹیروں کی ایک اور خطرناک قسم وہ ہے جو نہ تو کسی علاقے تک محدود ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی نئی تکنیک کے محتاج ہوتے ہیں، یہ بیک وقت ایک سے زیادہ وارداتیں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے دل میں جذبات اور احساس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہ جعلی دوائیں بھی بناتے ہیں۔ لوگوں کے اعضاء کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ بچوں کو اغواء بھی کرتے ہیں غرض یہ کہ ہر ممکن طریقے سے یہ اپنی تجوریاں بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لٹیروں کی آخری اور نایاب قسم بین الا قوامی لٹیرے ہیں۔ ان کے لیے نہ تو جغرافیے کی کوئی قید ہے اور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت ان کو پکڑ سکتی ہے، کیونکہ یہ مفاہمت پہ یقین رکھتے ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ عام عوام ابھی تک ان کی داستانوں سے بےخبر ہے اور اگر ان کو کوئی بے نقاب کرنے کی جسارت کرے بھی تو اسے ہر ممکن طریقے سے خاموش کروا دیا جاتا ہے اور ان کا ایک سردار ہوتا ہے جسے یہ لوگ گاڈ فادر کہتے ہیں۔ اگر آپ نے مشہور زمانہ فلم ’’گاڈ فادر‘‘ دیکھی ہو تو آپ اس آخری قسم سے بخوبی واقف ہوں گے۔ اور اگر نہیں دیکھی تو ضرور دیکھیں۔ یہ فلم آپ پر انڈر ورلڈ مافیا کا ایک چھپا ہوا کردار آشکارا کرے گی۔
اگر آپ سیاست کا مطالعہ کریں تو پاکستانی سیاست کی بھی بالکل من و عن یہی اقسام ہیں۔ کچھ بیچارے متوقع سیاست دان ہیں جو کبھی موقع ہاتھ آجانے پر چھوٹی موٹی سیاست کر لیتے ہیں۔ ان کی کلی سیاست محلے میں کونسلر کے الیکشن تک محیط ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ سیاست دان جو گلی محلے میں اس امید پر سیاست کرتے ہیں کہ کل کو ان کے امیدوار کی کامیابی کی صورت میں ان کے دن پھر جائیں گے۔ یہ کبھی پوسٹر چھپواتے ہیں تو کبھی ریلیاں نکالتے ہیں۔ سیاستدانوں کی تیسری قسم منتخب ہونے والے عوامی نمائندگان ہیں۔ یہ نئے رجحان کی سیاست کرتے ہیں۔ ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹی بدلنا ان کا عام مشغلہ ہے اور جب عوام کسی ایک نعرے سے بوریت کا شکار ہونے لگتی ہے تو یہ مارکیٹ میں فوراََ نیا نعرہ لے آتے ہیں۔ سیاست دانوں کی چوتھی قسم وزراء اور مشیروں کی ہے۔ یہ اپنے قائدین کو خوش کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور ا س کے ساتھ ساتھ بیک وقت ایک سے زیادہ پارٹیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ بھی جذبات اور نظریات سے عاری ہوتے ہیں اور قائدین کی خوشنودی کے لیے ہر ممکن حد تک جا سکتے ہیں۔ اسے پاکستان کی خوش قسمتی کہیے کہ کچھ عرصہ قبل تک ہمارے سیاست دان بس اسی قسم تک محیط تھے، ابھی ان میں لٹیروں کی طرح آخری اور نایاب قسم کا اضافہ نہیں ہوا تھا، مگر اب اسے پاکستان کی بد قسمتی کہیے کہ سیاستدانوں کا ایک خاندان اب اس آخری قسم میں شامل ہو چکا ہے۔
اس ملک میں لگنے والے تمام بڑے پراجیکٹس اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہ سیاسی خاندان اب صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ اس خاندان کے عالمی رہنمائوں اور عالمی سرمایہ کاروں کے ساتھ انتہائی گہرے روابط ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہیںتوسوئی بننے سے لے کر سی پیک تک تمام ٹھیکوں کی تفصیلات جاننے کی کوشش کریں۔ ان تمام پراجیکٹس میں مخصوص ملکوں کی مخصوص کمپنیوں کو تمام اصول بالائے طاق رکھ کر فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیچاری عوام خوشحالی کے نام پر بیوقوف بنتی چلی جا رہی ہے اور یہ اپنے روابط گہرے سے گہرے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جیسے ہی اس مخصوص قسم کے سیاستدانوں کا اقتدار خطرے میں ہو، پاکستان کے خلاف عالمی طاقتیں سر گرم ہو جاتی ہیں اور پھر متحد رہو کا نعرہ لگا کر عوام کو خاموش کروا دیا جاتا ہے اور ان پر سے توجہ ہٹا دی جاتی ہے۔ یہ قسم اتنی طاقتور ہوچکی ہے کہ اس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا نہ صرف انکو پہلے سے پتہ چل جاتاہے بلکہ یہ مخالفین کو خرید کر کارروائی کا رخ الٹا پھیر دیتے ہیں۔ سیاستدانوں کی یہ قسم جس ملک،معاشرے یا علاقے میں ہو، یہ وہاں پر گاڈ فادر کا رتبہ حاصل کر چکی ہے اور ایک گاڈ فادر کو صرف وہی ہٹا سکتا ہے جس میں گاڈ فادر بننے کی صلاحیت ہو۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو لٹیروں کی خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے۔پاکستانی سیاست کی بات کی جائے تو اس سیاسی گاڈ فادر کوایک نیا گاڈ فادر ہی شکست دے سکتا ہے۔ عمران خان سے یہ توقع رکھی جا رہی تھی کہ شاید وہ اس گاڈ فادر کو شکست دے سکتے ہیں لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ عمران خان پاکستانی سیاست بدلنے اورنیا گاڈ فادر بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔لہٰذا نیاپاکستان فی الحال انہی پرانی بنیادوں پر ہی اپنا سیاسی سفر جاری رکھے گا تاوقتیکہ سیاسی یکسانیت سے اکتا کر نوجوانوں میں سے ہی کوئی سامنے نہ آجائے۔اگر ایسا ہوا تو وہی مرد جوان پاکستانی سیاست کا گاڈ فادر کہلائے گا۔
عزیر احمد خان پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔سیاسی مشینری کے تمام پرزوں پر نظر رکھتے ہیں۔اب جب کہ یہ مشینری زنگ آلود ہوچکی ہے،یہ نئی مشینری لانے اور اسکے ذریعے پاکستانی سیاست کا پہیہ چلانے کا خواب دیکھتے ہیں۔کیا عجب انکا خواب شرمندۂ تعبیر ہو جائے۔
تبصرہ لکھیے