600x314

باکردار نسل، باوقار قوم – اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

حرف آغاز:
کردار، انسان کی وہ خوشبو ہے جو بسا اوقات الفاظ کے بغیر بھی دوسروں کے دلوں کو معطر کر دیتی ہے۔ یہی کردار ایک فرد کو معاشرے کا قابلِ فخر اور اقوام کی صف میں باوقار بناتا ہے۔ جب کردار سنور جاتا ہے تو شخصیت نکھر جاتی ہے اور جب شخصیت نکھر جائے تو قوم کا مستقبل روشن ہو جاتا ہے۔ تعلیم محض ڈگری کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ہمہ جہت تربیتی عمل ہے جس کا سب سے خوبصورت پہلو کردار سازی ہے۔

کالج، طلبہ و طالبات کی زندگی کا وہ سنگِ میل ہے جہاں بچپن کا سادہ ذہن، شعور کی روشنی میں بالغ ہو کر، مستقبل کی راہوں پر چلنے کو تیار ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب نہ صرف علم دیا جاتا ہے، بلکہ شخصیت کے خد و خال بھی تراشے جاتے ہیں۔ اگر اس نازک مرحلے پر طلبہ کی کردار سازی کو نظرانداز کیا جائے، تو ممکن ہے کہ تعلیم یافتہ مگر اخلاقی طور پر مفلس افراد معاشرے میں بڑھتے جائیں۔

کردار سازی کی ناگزیریت:
قومیں صرف ایٹمی طاقت یا معاشی استحکام سے نہیں بنتیں، بلکہ ان کی اصل طاقت ان کے نوجوانوں کا کردار ہوتا ہے۔ ایسے کردار جو سچائی، انصاف، دیانت، بردباری، ادب و احترام، ایثار اور فرض شناسی کے زیور سے آراستہ ہوں۔

کردار سازی کے لیے قابلِ عمل تجاویز
1. نصاب میں اخلاقی تعلیم کا نفوذ:
تعلیم میں وہ حرارت اور اثر تب ہی آ سکتا ہے جب نصاب میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، اسلامی اقدار اور انسانی اخلاقیات کو مربوط انداز میں شامل کیا جائے۔

2. عملی نمونے، صرف الفاظ نہیں:
اساتذہ اپنے طرزِ عمل سے مثالی کردار کے آئینے بنیں۔ جب استاد خود وقت کا پابند ہو، دیانت دار ہو، نرم گفتار ہو، تو شاگرد اس سے کردار کی خوشبو ضرور حاصل کرے گا۔

3. تربیتی نشستیں اور روحانی لمحات:
کالجوں میں ایسے فورمز بنائے جائیں جہاں ہفتہ وار تربیتی نشستیں ہوں، طلبہ کھل کر سوالات کریں، اپنے مسائل بیان کریں اور باکردار شخصیات سے سیکھنے کا موقع پائیں۔

4. ہم نصابی سرگرمیوں کو کردار سازی سے جوڑنا:
ڈرامہ، مباحثہ، مکالمہ اور مشاعرے جیسے پروگراموں میں اخلاقی موضوعات شامل کیے جائیں تاکہ فن اور تربیت ایک ہی سانس میں سفر کریں۔

5. فردی رہنمائی کا موثر نظام:
ہر طالب علم کے لیے ایک اخلاقی رہنما مقرر ہو جو اس کی فکری، جذباتی اور اخلاقی تربیت میں اس کا مددگار بنے۔

6. دینی تعلیمات کا سلیقہ مند امتزاج:
قرآن فہمی، حدیث کا مطالعہ، اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کردار سازی کی محافل منعقد کی جائیں۔ ایسی تعلیمات جو دل کو چھو جائیں، کردار میں رچ بس جائیں۔

7. تعلیمی اداروں کا باوقار ماحول:
تعلیمی ادارے خود ایک مثالی معاشرہ ہوں، جہاں عزت، اصول پسندی، صفائی، برداشت، اور مساوات کے اصول نافذ ہوں۔

8. جزا و سزا کا منصفانہ نظام:
جہاں اچھے کردار کی تعریف ہو، وہیں بدتمیزی، بددیانتی یا بدعنوانی پر نرمی نہ برتی جائے۔ ایک توازن سے تربیت کی فضا پیدا کی جائے۔

حرف آخر:
کالج، صرف امتحان پاس کرنے کی جگہ نہیں بلکہ زندگی جینے کا سلیقہ سکھانے کی تجربہ گاہ ہے۔ اگر ہم نے اس تجربہ گاہ میں کردار سازی کو مرکزِ نگاہ نہ بنایا تو یہ قوم بظاہر تعلیم یافتہ تو ہوگی، مگر اندر سے کھوکھلی رہ جائے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم محض تعلیمی اصلاحات نہیں بلکہ اخلاقی انقلاب کی بنیاد رکھیں، اور یہ کام تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے نوجوانوں کے کردار کو سنوارنے کا بیڑہ اٹھائیں۔ یہی وہ منزل ہے جہاں سے ایک صالح، پر وقار اور باکردار نسل کا آغاز ہوگا، جو علم کے ساتھ حلم، قابلیت کے ساتھ شرافت اور ترقی کے ساتھ دیانت کی حامل ہوگی۔ ادب، تربیت اور تعلیم کے حسین امتزاج پر مبنی ایک فکر انگیز تحریرجو نوجوانوں کے روشن مستقبل کی تعمیر کا عزم رکھتی ہے