چوبیس جنوری – سعود عثمانی

سعود عثمانی چوبیس جنوری کی تاریخ اپنے آغاز سے ہی مجھے ایک سرد، گہری اور تنہاشب میں لے جاتی ہے۔ مسلسل بڑھتا ہوا اور گہرا ہوتا ہوا ایک سایا کہیں سے نمودار ہوتا ہے اور میرے وجود کو ایک لپیٹ میں لے کر ایک گریہ کناں، ٹھنڈی اور نہ ختم ہونے والی رات کے حوالے کردیتا ہے۔ میں ایک اکیلے اور نو عمر لڑکے کو دیکھتا ہوں جو ہر رات کچھ دعائیں پڑھ کر اپنے والد کے گرد حصار کیا کرتا تھا لیکن یہ رات اس کا یہ معمول بھی چھین کر لے گئی تھی ۔

یہ رات اس کا بہت کچھ چھین کر لے گئی تھی ۔ایک پوری زندگی جو اگلے دن شروع ہونے والی زندگی سے بہت مختلف اور بہت آسان تھی۔ ایک سائبان جو دیگر مہربان چھتوں سے بہت الگ اور بہت محفوظ تھا اور ایک آسودگی جس نے دیگر خوشیوں اور مسرتوں کے موجود ہوتے ہوئے بھی کبھی اپنی جھلک دوبارہ نہیں دکھائی۔

یہ رات اس کا بہت کچھ نہیں سب کچھ چھین کر لے گئی تھی.

وقت گزرتا اور خاک اڑاتا گیا۔ وجود پر تہ بہ تہ جمنے والی اداسی ہر سال ایک نیا تحفہ لے کر آتی رہی۔ دل گرفتگی رگوں میں بہتے ہوئے خون میں شامل ہوتی اور شریانوں کی دیواروں میں چکنائی کی طرح جمتی گئی۔ سیاہ بالوں پر چاندی اپنا حق جتلانے آتی رہی اور ایک غیرمطلوب فرد کی طرح مستقل مقیم ہوتی رہی۔ خاموشی کے میدان میں لفظوں نے جو کچے ڈیرے اوائل عمر میں ڈالے تھے، وہ پختہ عمارتوں کی شکل اختیار کرتے گئے۔ وہ اپنے غموں اور دوسروں کے دکھوں کا اظہار کرتا رہا۔ اور انتظار کرتا رہا ان لفظوں کا جو اس کا غم اس سے بیان کر دیں، بار بار نہ سہی کم از کم ایک ہی بار۔ ایک بار کی خواہش تو کوئی بڑی خواہش بھی نہیں تھی.

تیس سال اس نے انتظار کیا۔ اور وہ غم اس کے ارد گرد پھرتا اور اسے چُھو کر گزرتا رہا۔ پھر ایک شب کہیں سے ایک گردباد کا طوفان اُٹھا اور اسے بگولے کی طرح لپیٹ کر ایک ٹھنڈی، نہ ختم ہونے والی اور گریہ کناں رات میں پھینک آیا۔ اس پر وہ گزری ہوئی رات ایک بار پھر گزری۔ اس نے گریہ کیا لیکن ایسے جیسے دل روئے اور آواز نہ نکلے۔ اس نے اپنا غم بیان کیا لیکن نہ بیان کرنے کی طرح۔

وہ پگھلتا گیا اور منجمد آنسو بہاتا گیا. بات اس سے نہ کہی گئی لیکن ایک خلش ختم ہوگئی کہ وہ رویا نہیں تھا۔ احساسِ شرمندگی کی دو رسیوں میں سے ایک نے اس کے دل پر اپنی گرفت ڈھیلی کر دی جو اسے کستی رہتی تھی کہ اس کے دکھوں میں وہ دکھ شامل نہیں ہوا تھا جو اس کے دو سب سے بڑے دکھوں میں سے ایک دکھ تھا۔ کچھ سانس آیا تو اس نے چوری چوری اس قبر سے ملحق ایک اور قبر کی طرف دیکھا۔ ایک قبر جو اسے بلاتی رہتی ہے اور وہ اس کی طرف آنکھیں اُٹھا کر جا نہیں پاتا کہ ابھی اس کے ہاتھ خالی ہیں۔

یہ وہی منجمد آنسو ہیں، وہی ان کہا غم اور وہی بے آواز گریہ جس کا نام اس نے 24 جنوری رکھا.
………………………………
چوبیس جنوری
بہت کٹھن شب تھی جس کی وحشت ابھی رگ و پے میں ناچتی ہے

وہ آخر شب کا وقت ہوگا کہ جب کسی نے مجھے جگا کر کہا کہ دیکھو
تمہارے سر پر جو آسماں تھا سمٹ گیا ہے
صدائے گریہ کہیں سے آتی تھی اور یہ کھل نہیں رہا تھا کہ کوئی گریہ کناں کہاں ہے

شکستہ پائی
اس ایک کمرے میں لے کے آئی
جہاں اک انبوہ غم گساراں تھا اور ہم تھے

وہیں شمال و جنوب کے رخ بچھی ہوئی ایک چارپائی
اور ایک اندوہ نا رسائی کہ جس کے آگے ہمارے دستِ رسا میں کچھ بھی نہیں رہا تھا
کوئی دریچہ کھلا ہوا تھا

ہوا کا جھونکا
لہو کو برفاب کرنے والا ہوا کا جھونکا
کوئی دریچہ کھلا ہوا تھا
کوئی نہیں تھا جو اس دریچے کو بند کر دے
مرا گھرانہ ہوا کی زد پر لرز رہا تھا
بلا کی یخ بستگی تھی جس کو
ابھی رگ و پے میں ناچنا تھا

سحر ہوئی تو ٹھٹھرتے سورج نے ایسے لوگوں پہ آنکھ کھولی
کہ جن کی آنکھوں میں رت جگا نیند کی طرح تھا
مرے در و بام ایسے ہاتھوں کو تک رہے تھے
جو اپنے ساتھی کے پاک دل کو غلاف کعبہ کے ایک ٹکڑے سے ڈھک رہے تھے
زوال کے بعد ایک مسجد کے کچے آنگن کو وہ صدا ئیں سنائی دیں جو پکارتی تھیں
صفوں کی تعدار طاق رکھنا
خبر نہیں ہے کہ اس گھڑی کائنات بھر میں
کوئی صدا بھی نہیں تھی یا تھی
بس اک تسلسل کے ساتھ تکبیر کی صدا تھی

سو ہم نے اس ایک ذات کے رخ سلا م پھیرا
کہ جس کا کوئی بھی رخ نہیں ہے
اور اپنی نظروں سے ایک کھلتے گلاب کو چوم کر اٹھایا
اور اپنے بچپن کی اور لڑکپن کی اورآغاز نوجوانی کی میتیں دوش پر اٹھائے
ہم ایک ایسی لحد کی جانب چلے جو تازہ کھدی ہوئی تھی

تو ہم نے اس شام چار قبروں پہ مٹی ہموار کی تھی جن میں سے تین قبریں
دکھائی دیتی نہ تھیں مگر تھیں
اور آج تک ہم نے اپنی مدفون آرزؤوں کے
اور خوشیوں کے
اور بے فکر زندگی کے
سرہانے کتبے نہیں لگائے
………………………..
چوبیس جنوری
والد گرامی
صاحب کمال صاحب دل جناب زکی کیفی کی تاریخ وفات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *