میں بہت خوش تھی۔ ابھی کچھ دن پہلے تو میں بہت خوش تھی۔ میں کیا سب ہی خوش تھے۔ بچے، بوڑھے جوان، عورتیں، مرد ایک انوکھی کیفیت سے سرشار، جھومتے، گاتے، سارے غموں کو بھلاتے، سب خوش تھے۔ غرضیکہ وہ ایک خوشی والا دن تھا۔
گو کہ سارے غم ختم نہ ہوئے تھے مگر اس خوشی نے سارے غم چلو ایک دن کے لیے ہی سہی، بھلا دیے تھے۔ اور سچی بتائوں تو مسئلے مسائل بھی بھول گئے تھے سب، چاہے ایک دن کے لیے۔ جھنڈیاں پکڑے، آزادی کےنغمے گاتے لوگ۔ آزاد ریاست کے آزاد لوگ۔ ابھی کچھ ہی دن تو ہوئے تھے۔ اس سب کو گزرے۔ پھر یہ کیا ہوا؟ کس نے اتنی زور کا طمانچہ مارا ہے کہ گالوں کی ساری لالی ہی نچوڑ لی ہے۔ ٹھوکر مار کر بڑی بے رحمی سے اوقات یاد دلائی ہے۔ کس بےدردی سے خوش گمانیوں کی سرزمین سے دھکا کھایا ہے۔ حماقتوں کی دنیا بسائے کتنی پرسکون تھی میں۔ یہ حقیقت آئینے میں کیوں دکھلا دی کہ آزاد قوموں کو غلام حکمران مل جائیں تو مجموعی غیرت اور خودداری نیلام ہو جایا کرتی ہیں۔
آج بند کمرے میں اکیلی بیٹھی ہوں میں۔ اور میتھیو کی باعزت دربدری دروازے کے اس پار کھڑی مجھے میری اوقات یاد دلا رہی ہے، میرا منہ چڑا رہی ہے، قہقہے لگا رہی ہے۔ وہ میتھیو جو جاسوسی کے الزام میں پہلے بھی ملک بدر کیا جا چکا ہے، اور اب دوبارہ غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں گھسا تھا، اسے مضبوط سکیورٹی حصار میں واپس بھیج دیا گیا ہے، کیونکہ میتھیو آقا ملک کا باعزت شہری ہے، اور میں یہاں سپاٹ چہرہ لیے ان گنت سوالات کی رسیوں سے بندھی خود کو بے بس محسوس کر رہی ہوں، کیونکہ میں اک آزاد ملک کی آزاد غلام ہوں۔
تبصرہ لکھیے