600x314

ترقی کی راہ، سڑکیں یا اسکول؟ – عدنان فاروقی

قومیں شاہراہوں سے نہیں، تعلیم اور ہنر سے آگے بڑھتی ہیں. پاکستان میں موٹر ویز کی چمکتی سڑکیں اور تیز رفتار ٹرینوں کے خواب دکھائے جا رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زائد بچے آج بھی اسکول کے دروازے سے باہر کھڑے ہیں۔

تعلیم اور صحت پر جی ڈی پی کا دو فیصد بھی خرچ نہ کرنے والا ملک اگر اربوں روپے صرف کنکریٹ اور لوہے پر لگا دے تو کیا اسے ترقی کہا جا سکتا ہے؟
سوال یہ ہے کہ جب قوم ہی علم اور ہنر سے محروم ہو تو وہ جدید ٹرانسپورٹ یا شاندار شاہراہوں سے کون سا روشن مستقبل تراش لے گی؟

مالی سال 2023-24 کی بجٹ تفصیلات ہمارے المیے کو مزید واضح کرتی ہیں۔ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تقریباً 96 فیصد جاری اخراجات پر صرف ہوا، جن میں 86 فیصد قرض اور سود کی ادائیگی میں چلا گیا۔ یوں سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں کے لیے محض 13 فیصد کے قریب بجٹ بچ سکا۔ گویا حکومت کے پاس تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی شعبوں کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ مزید تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ آڈیٹر جنرل کی تازہ رپورٹ کے مطابق وفاقی اداروں اور محکموں میں 375 کھرب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں اور مالی بدانتظامی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ وہ قومی وسائل ہیں جو اگر ایمانداری سے عوامی فلاح پر خرچ ہوتے تو آج ملک کی تقدیر بدل سکتی تھی۔

اعداد و شمار خود ہمارے سماجی ڈھانچے کی کمزوریوں کو عیاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت 2 لاکھ 42 ہزار کے قریب اسکول ہیں، جب کہ ہوٹلوں کی تعداد 2 لاکھ 56 ہزار سے زیادہ ہے۔ یعنی قوم کے لیے کھانے پینے کے مراکز تعلیمی اداروں سے بڑھ گئے ہیں۔ اسی طرح ملک میں 6 لاکھ کے قریب مساجد موجود ہیں لیکن صنعتی کارخانوں کی تعداد صرف 23 ہزار ہے۔ مذہبی وابستگی اپنی جگہ قابلِ تحسین ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی معیشت صرف عبادت سے نہیں بلکہ صنعت، تحقیق اور محنت سے پروان چڑھتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ صحت پر فی کس خرچ خطے کے اکثر ممالک سے کئی گنا کم ہے، اور تعلیمی بجٹ کا بڑا حصہ محض تنخواہوں اور انتظامی اخراجات میں ضائع ہو جاتا ہے۔ تحقیق، جدت اور ہنرمندی پر سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔

ترقی کبھی شاہراہوں اور فلائی اوورز سے نہیں آتی، یہ ہمیشہ انسانوں میں سرمایہ کاری سے جنم لیتی ہے۔ اگر ہماری حکومتیں قرضوں کے بوجھ تلے دب کر بھی تعلیم، صحت اور ہنر کو ترجیح نہ دیں تو آنے والی نسلیں انہی سڑکوں پر غربت اور بے روزگاری کا بوجھ اٹھائے چلتی رہیں گی۔

اصل سوال یہی ہے:
کیا ہم اپنے بچوں کو روشن مستقبل دینا چاہتے ہیں یا صرف چمکتی سڑکوں پر اندھیروں کا سفر؟

مصنف کے بارے میں

عدنان فاروقی

عدنان فاروقی ربع صدی سے زائد عرصہ بیرون ملک رہے۔ انگریزی، اردو، عربی اور ترکی زبانوں سے شناسائی ہے۔ مترجم اور محقق کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے لگاؤ ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور غالب کے عاشق ہیں۔ ادب، تاریخ، سماجی علوم اور بین الاقوامی تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو نثر میں مزاحیہ و سنجیدہ اسلوب کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سماجی، تاریخی اور فکری موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment