دنیا کے اکثر ممالک ایک ہی نسل یا زبان پر مشتمل نہیں ہیں۔ لسانی اور نسلی تنوع ایک حقیقت ہے، جسے نہ تو حکومتی مشینری کے زور پر دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی وقتی نعروں کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اصل کامیابی اس وقت آتی ہے جب عوام کے مینڈیٹ سے تشکیل پائی گئی سیاسی قیادت اس تنوع کو قبول کرتے ہوئے عوامی نمائندگی اور شمولیت کے ذریعے سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔
کامیاب مثالیں: جب سیاست نے تنوع کو طاقت بنایا
سوئٹزرلینڈ: چار مختلف زبانیں (جرمن، فرانسیسی، اطالوی اور رومانش) بولنے والی آبادی ایک ہی وفاقی ریاست میں پرامن طور پر رہتی ہے۔ وہاں کا جمہوری نظام اور فیصلہ سازی میں عوامی شمولیت نے تنوع کو بکھرنے کے بجائے ایک طاقت بنا دیا ہے۔
کینیڈا: انگریزی اور فرانسیسی بولنے والی کمیونٹیز کے درمیان کشیدگی کو جمہوری ڈھانچے، صوبائی خودمختاری اور حقوق کی ضمانت کے ذریعے قابو میں رکھا گیا۔
بھارت: درجنوں زبانیں اور نسلی گروہ رکھنے والا ملک، جہاں کئی بار داخلی کشیدگی پیدا ہوئی لیکن جمہوریت کے تسلسل نے اسے ایک ساتھ جوڑے رکھا۔ بھارت کا سب سے بڑا سرمایہ یہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے آنے والے سیاستدان ہی اصل طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اختلافات کے باوجود وفاقی ڈھانچہ اب تک قائم ہے۔
ناکام مثالیں: جب جبر نے تقسیم پیدا کی
مشرقی تیمور : انڈونیشیا نے فوجی طاقت کے ذریعے مشرقی تیمور کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی، لیکن وہاں کی الگ ثقافت اور شناخت نے علیحدگی کو جنم دیا۔ آخرکار 2002 میں یہ ایک آزاد ملک بن گیا۔
مشرقی پاکستان : پاکستان کے دو بازوؤں کے درمیان لسانی اور معاشی ناانصافیوں نے ریاستی اتحاد کو توڑ دیا۔ اردو کو واحد قومی زبان بنانے اور بنگالی عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی نے بغاوت کو جنم دیا، جس کا نتیجہ 1971 میں پاکستان کی تقسیم کی صورت میں نکلا۔
یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ ریاستی اتحاد صرف جبر سے قائم نہیں رہتا۔ کامیابی وہاں ملتی ہے جہاں سیاسی قیادت عوام کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور عوامی رائے کا احترام کرتی ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات میں بھی یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی اور لسانی شناختوں کو تسلیم کیا جائے۔تمام گروہوں کو مساوی سیاسی و معاشی مواقع دیے جائیں۔ طاقت کے بجائے آئینی سیاست اور مکالمے کو بنیاد بنایا جائے۔ سب سے بڑھ کر عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ جنہیں عوام ووٹ کے ذریعے منتخب کرتے ہیں، انہیں اقتدار دینا ہی سیاسی استحکام کی کنجی ہے۔ حقیقی جمہوریت میں عوامی مینڈیٹ وہی حیثیت رکھتا ہے جو دل کے لیے دھڑکن۔
کثیرالسانی اور کثیرنسلی ممالک کے تجربات ایک ہی سبق دیتے ہیں- تنوع کو دبانے کے بجائے قبول کریں، جمہوریت اور عوامی نمائندگی کے ذریعے سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے پاکستان اپنے مسائل پر قابو پا سکتا ہے اور سیاسی استحکام حاصل کر سکتا ہے.



تبصرہ لکھیے