78 سال کا طویل عرصہ پاکستان بننے کو ہوچکا. آزادی کی نعمت بہت بڑی نعمت ہے. اس پر اللہ رب العزت کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جن مقاصد کے لیے ہم نے ملک پاکستان حاصل کیا تھا .ہم ہمیشہ ان مقاصد کے حصول میں ناکام رہے اور آج بھی ناکام ہیں .
اسلام ایک کامل اور مکمل دین ہے اور یہی دین ایک انسان کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے. اور قرآن پاک کی رو سے حضور نبی اکرم علیہ السلام کی ذات اقدس ہر مسلمان کے لیے نمونہ اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے. ایک مسلمان کی کامیابی کا راز اسی میں مخفی ہے کہ وہ قول و فعل میں مکمل اتباع نبوی کرے .چاہے وہ جس شعبہ سے بھی متعلق ہو سب سے عظیم مدبر اور منصف لیڈر خود حضور نبی اکرم علیہ السلام کی ذات ہے. اور پھر آپ کے بعد ایک مثالیی دور آپ ہی کی منتخب کردہ قیادت" خلفاء راشدین "کی ہے.
لہذا ایک حکمران اور لیڈر کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ سیاست میں حضور نبی اکرم علیہ السلام اور آپ کی منتخب کردہ جماعت کی مکمل پیروی کی. جن مقاصد کے حصول کو انہوں نے سر فہرست رکھا اسے سرفہرست رکھنے میں ہی ہماری کامیابی ہے. یہی وجہ ہے کہ جب سے ہم نے اتباع نبوی کو پس پشت ڈالا تو ذلالت اور ناکامی ہمارا مقدر بنی آج ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں آواز اٹھانا ہمارے لیے مشکل ہے. حالانکہ حضور نبی اکرم علیہ السلام اور خلافت راشدہ کے بابرکت دور کے بیسیوں واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انہوں نے ہر فورم پر ظالم سے مظلوم کا حق دلوایا .
لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اتباع نبوی تو دور کی بات ہم نے تو بانیان پاکستان کے مقاصد کو بھی پس پشت ڈال دیا اور معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے ہم مظلوم کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں .
کیا تحریک آزادی سے بانیان پاکستان کا مقصد شعائر اسلام کی توہین تھا؟
کیا تحریک آزادی سے بانیان پاکستان کا مقصد مظلوم کے حق میں اور ظالم کے خلاف خاموشی اختیار کرنا تھا؟
کیا تحریک آزادی سے بانیاں پاکستان کا مقصد نفاذ اسلام نہیں تھا؟
کیا اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر ظلم کا خاتمہ اور امن کی فراہمی بانیاں پاکستان کا مقصد نہیں تھا؟
اگر ان مقاصد کے حصول میں ہم ناکام رہے اور یقینا ناکام رہے تو پھر علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق ہم ہی ہیں .
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
78 سال بعد ملک پاکستان کی اس گھمبیر حالت کو دیکھ کر بے اختیار زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں:
میں تو ہر طرح سے اسباب ہلاکت دیکھوں
اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت دیکھوں
وہ جو بے ظرف تھے اب صاحب میخانہ ہوئے
اب بمشکل کوئی دستار سلامت دیکھوں
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازار
گرجے ہیں بہت شیخ سرگوشہ ممبر
کڑکے ہیں بہت اہل ستم برسردربار
چھوڑی نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت
اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
بہرحال اللہ پاک ملک پاکستان کو سلامت رکھے اور ظالم و جابر حکمرانوں سے اس ملک کی حفاظت فرمائے اور ملک پاکستان کی جانب میلی نگاہ سے دیکھنے والوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ پاکستان زندہ باد!
تبصرہ لکھیے