ہوم << ایک عام پاکستانی ڈاکٹر پریشان کیوں ہے؟ - ڈاکٹر محمد شافع صابر

ایک عام پاکستانی ڈاکٹر پریشان کیوں ہے؟ - ڈاکٹر محمد شافع صابر

گزشتہ دنوں ایک آرتھوپیڈک سرجن ملے،پوچھنے لگے کہ جناب کتنی ٹریننگ باقی ہے؟ جواب دیا ابھی تقریباً تین سال باقی ہیں۔ وہ بولے! زندگی اور مزاووہی ہے جو ٹریننگ میں کٹ جائے، جیسے ہی ٹریننگ ختم کر کے آپ فیلڈ میں آتے ہو تو آپکو لگ پتا جاتا ہے۔

آپ کسی بھی ہسپتال جائیں تو وہاں پہلے ہی اتنے ڈاکٹروں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں کہ آپ حیران رہ جاتے ہیں ۔ کسی اچھے ہسپتال میں او پی ڈی سلاٹ ملنا بھی ایک نعمت سے کم نہیں، اگر کوئی سرجری والا مریض آ جائے،اگر آپ اسے سرجری کا ریٹس بتائیں تو وہ ایسی بحث کرتا اور رونے رو کر جو پیسے بتاتا ہے اس سے آپ کا خرچا تک نہیں پورا ہوتا،تو شافع صاحب اس ٹریننگ کو خوب انجوائے کرو۔ اب پاکستان کے ڈاکٹروں میں افراتفری کا دور دورہ ہے۔ ایک ہاؤس آفیسر جب اپنے سنئیرز کو یوں پریشان دیکھتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ ہاوس جاب کا ایک سال کبھی ختم نا ہو۔ جو میڈیکل آفیسر (MO) ہے وہ اس لیے پریشان ہے کہ کہیں بھی جاب میسر نہیں ۔

بی ایچ یو ( بنیادی مرکز صحت) ، آر ایچ سی ( رورل ہیلتھ سینٹر)، ٹی ایچ کیوز،ڈی ایچ کیوبہسپتالوں میں ایڈہاک اور کنٹریکٹ تقرریاں ختم ہو چکی ہیں ۔ جب ایسے مراکز میں نوکری نہیں ملے گی تو cip ( سنٹرل انڈکشن پالیسی)میں میرٹ نہیں ملے گا۔ کچھ کے پارٹ ون نہیں پاس ہو رہے،جنکے پاس ہو چکے،انکا میرٹ نہیں بن پا رہا، پرائیویٹ ہسپتالوں والے بنا تنخواہ ٹریننگ دے رہے ہیں اور چل سو چل۔ یعنی کہ ہر بندا اپنی حد تک پریشان ہے۔ ایک HO (ہاؤس آفیسر) اپنے پی جی آر (پوسٹ گریجویٹ ٹرینی) سے متاثر ہوتا ہے،پی جی آر اپنے ایس آر ( سینئر رجسٹرار)کو اور ایک SR اپنے سینئر کو،یوں دوسروں سے متاثر ہوتے ہوتے ہم آپس میں مقابلے میں اتنا الجھ چکے ہیں کہ ہم جینا اور ہنسنا بھول چکے ہیں ۔

زندگی کسی کی بھی آسان نہیں ہے، ہر کسی کی مشکلات اور پریشانیاں الگ ہیں ۔ ہر کسی کی اداکاری ہوتی ہے کہ وہ ان مجبوریوں سے کیسے نپٹ رہا ہے۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے یہ خیال کر لیا ہے کہ سوائے ہمارے باقی سب کی زندگی آسان ہے ،انہیں کوئی مشکل نہیں ،اور ہمارے انہی خیالات کی وجہ سے ہم بلاوجہ پریشان رہتے ہیں ۔صوبہ پنجاب میں اصلاحات کے نام پر محکمہ صحت میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے عام ڈاکٹر شدید متاثر ہوا ہے۔ ایڈہاک تقریروں نا ہونے کی وجہ سے کافی ڈاکٹر بیروزگار ہو چکے ہیں،ٹریننگ سلاٹس بہت کم ہیں اور ڈاکٹروں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے،جس کی وجہ سے ڈاکٹرز ڈپریشن اور انزائٹی کا شکار ہو رہے ہیں اور اپنے مستقبل سے مایوس ہو رہے ہیں ۔

اس کا آسان حل اتنا سا ہے کہ یہ بات بلکل سوچنا بند کر دیں کہ اگر میں نے ایسا کر لیا یا وہ امتحان پاس کر لیا تو آگے دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی، ایسا کھبی نہیں ہونے والا،زندگی کے ہر مرحلے کی اپنی مشکلات ہوتی ہیں،جسے آپ نے فیس کرنا ہوتا ہے،اور دوسرا یہ سوچنا بند کر دیں کہ صرف میری زندگی مشکل ہے ،باقی سبھی کی آسان ہے،اور سوائے میرے باقی سارے خوش ہیں ،اپنے آپ کو الزام دینا بند کر دیں۔ تیسرا اور اہم ترین حل یہ ہے کہ،دوسروں سے بلاوجہ ضرورت سے زیادہ متاثر ہونا بند کر دیں، اگر ایک بندا آپ سے ایک دو سال پہلے کنسلٹنٹ بن گیا ہے تو کوئی قیامت نہیں آ گئی ۔

آپ سکون سے اپنے محنت کریں،وقت آنے پر آپ کے سارے معاملات خود ہی بہتر ہو جانے ہیں اور آپ نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنسنا ہے،جنکو سوچ سوچ کر آپ بلاوجہ پریشان رہتے تھے ۔ خوش رہیں،اور خوشیاں بانٹیں۔ کامیابیاں ملتی چلی جائیں گے۔

Comments

ڈاکٹر محمد شافع صابر

مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال ،لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری میں پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کر رہے ہیں.

Click here to post a comment