ماہ اگست نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ آزاد اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں کے لیے بھی خوشی و شادمانی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ چودہ اگست کو اس دن کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جب دنیا کے نقشے پر برصغیر میںپاکستان کی صورت میں نئی مملکت وجود میں آئی۔ اوائل ماہ سے ہی اس یوم کو شایان شان طریقے سے منانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔
لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کشمیر و پاکستان میں اس تاریخی دن کو منانے کے حوالے سے جدا گانہ انداز ہے۔کشمیری اس دن کو پاکستان کی محبت میں سرشار ، پورے اخلاص کے جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔ اس جرم کی پاداش میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو پاکستان سے انسیت کےجرم میں جانوں کے نذرانے پیش کرنا پڑتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں پاکستان میں جہاں ہر جگہ نمود ونمائش، تصنع و بناوٹ کا چلن عام ہے، وہیں اس قومی دن کو بھی ذاتی تشہیر و مفادات کے حصول کے لیے منایا جاتا ہے۔
بڑے ہوٹلوں،کمیونٹی سینٹرومیرج ہالز، آڈیٹوریم،تعلیمی اداروںمیں چند ہزار یاچند لاکھ روپے کے اصراف سے یوم آزادی کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے، جن میں وفاقی و صوبائی وزرا، مشیر، کاروباری شخصیات،ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرزکو مدعو کیا جاتا ہے اور انہیں تقریب کی صدارت ، مہمان خصوصی و اعزازی مہمان کی ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں اور اس کے عوض ان سےخطیر رقوم یا بڑے پیمانے پر ذاتی مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔ جیسے ہی اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے، پاکستان کے یوم آزادی کو ایک’’ ثقافتی تہوار‘‘ کے انداز میں منانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔
ملک کی تمام چھوٹی بڑی پرہجوم سڑکوں،مرکزی شاہراہوں ، چوراہوں ، فٹ پاتھوں پر قناتیں لگا دی جاتی ہیں جن میںرکھے بڑے بڑے تخت، طویل و عریض سبز رنگ کے پرچموں،جھنڈیوں، اسٹیکرز، بیجز تلے دبے ہوتے ہیں جب کہ قناتوں کے باہر بانسوں پر لٹکے بڑے بڑے جھنڈے لہراتےنظر آتے ہیں ۔’’ جذبہ حب الوطنی‘‘ کی علامات کی خرید و فروخت کے کاروبار میں حصہ ڈالنے کے لیے درجنوں ٹھیلے والے بھی گاہکوں میں گھرےنظر آتے ہیں۔ علاقہ پولیس و ٹریفک پولیس اہلکار یکم سے 15اگست تک وطن کی محبت میں سرشار ہوتے ہیں اسی لیے وہ ملک و ملت سے اپنی وابستگی کے اظہار کے لیے ٹھیلے اور پتھارے والوں سے بانی پاکستان کی ’’تصاویر‘‘ طلب کرکے قمیص کی جیبوں میں اپنے دل کے ساتھ لگا کر رکھتے ہیں۔
ان اسٹالوں اور پتھاروں پر جھنڈے، جھنڈیاں اور ’’صور اسرافیل‘‘جیسی سماعت شکن آواز والے مختلف اقسام وقامت کے باجے بھی سجے ہوتے ہیں جن کی قیمتیں بقدر جثہ ہوتی ہیں۔اس سال 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر قوم دوہری خوشیاں منارہی ہے ، ایک تو آزاد وطن کے حصول کی خوشی ،دوسری خوشی معرکہ حق میں ’’بنیان مرصوص یا آہنی دیوار ‘‘ بن کر بھارت کو ذلت آمیز شکست سے دوچارکرکےعظیم الشان فتح کی خوشی ہے۔ مودی سرکار نے خود ساختہ پہلگام حملے کی آ ڑ میں پاکستانی شہروں پر ’’آپریشن سیندور‘‘ کا نام دے کر جو میزا ئل حملے کئے .
انہیں نہ صرف ہماری مسلح افواج نے بنیان مرصوص یا سیسہ پلائی دیوار بن کر نہ صرف ناکام بنایا بلکہ مودی سرکار کی مانگ کا سیندور اجاڑ دیا۔ پاک افواج اور اس کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے قومی پرچم اور باجوں کے اسٹال پرصبح سے رات گئے تک سیکڑوں مرد و زن اور بچوں کا اژدہام جمع رہتا ہے۔ گھروں کی چھتوں پر سبز پرچم ،گھر کے باہر جھنڈیاں لگا کر ہم اپنے ملی فریضے سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جب کہ بچے رات گئے تک صور اسرافیل طرز کے باجے بجا کر پڑوسیوں کا ذہنی سکون برباد کرتے ہیں کیونکہ ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘۔
بھارت کو خوف زدہ کرنے کے لیے دھماکہ خیز اشیا کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ہر گلی کوچے پٹاخوں اور کریکرز کے دھماکوں سے لرزتے رہتے ہیں۔جن نوجوانوں کے پاس مختلف اقسام کا لائسنس و بغیر لائسنس والا آتشیں اسلحہ ہوتا ہے ، 13 اور14 اگست کی درمیانی شب وہ اس سے فائرنگ کرکے یوم آزادی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ چھتوں پر لگایا جانے والا قومی جھنڈا ہوا کے جھکڑوں کی وجہ سے چیتھڑوں میں تبدیل ہوکر زمین بوس ہوجاتا ہے اور اس کا صرف ڈنڈا باقی رہ جاتا ہے۔ قومی پرچم کی اس طرح کی بے حرمتی ہم نے کراچی میں خیابان شمشیر پر ملک کے سابق وزیر اعظم کے محل نما بنگلے کی کمپاؤنڈ میں لگے جھنڈے کی دیکھی تھی۔
سرکاری، سیاسی و سماجی سطح پر بھی یوم آزادی کی تقریبات انتہائی زور و شور اور جوش و جذبے کےساتھ منائی جاتی ہیں جن میں ڈھول ، تاشوں اور باجے گاجے کے ساتھ محفل موسیقی کے پروگرامز کا انعقاد ہوتا ہے جن میں سے بعض تقریبات میں اس قدرنظم و ضبط کے فقدان اور مادر پدر آزادی ملنے پر نوجوان اس قدر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ بھی حرمت کو پامال کردیتے ہیں۔ اسی طرح کا واقعہ چند روز قبل حیدرآباد میں کراچی آرٹس کونسل کی جانب سے منعقدہ جشن آزادی کی تقریب میں وقوع پذیر ہوا لیکن اس پر کسی حلقے کی جانب سے بھی تاسف یا شرمندگی کا اظہار نہیں کیا گیا۔
سماجی تنظیموں کے پروگراموں میں تقاریر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں ڈائس پر مکے مار تے ہوئے ملک پر جانیں قربان کرنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے، لیکن رات بارہ بجے کے بعد پاکستانی قوم کا وطن سے محبت کا جذبہ اگلے یوم آزادی تک کے لیے مؤخر ہوجاتا ہے۔
آزاد کشمیر میںبھی پاکستانی پرچموں کی خرید و فروخت ہوتی ہے ، وہاں بھی گھروں کی چھتوں پر پاکستان اور کشمیر کے قومی پرچم اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ کے نعرے والے جھنڈے نظر آتے ہیں۔ یہ نعرہ ریاست جموں و کشمیر کے مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان نےچھ عشرے قبل لگایا تھا جو بعدازاں کشمیری قوم کے دل کی آواز بن چکا ہے۔ اسے نہ صرف آزاد کشمیر کے باسی بلکہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ لگاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے ہر علاقے میں ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ لکھے پرچم لہراتے نظر آئیں گے کیونکہ کشمیر کے خطے کے دل پاکستان کے نام کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ ہر وقت پاکستان کی محبت میںسرشار ہوتے ہیں ۔
پاکستان زندہ باد کی ریلیاں وہاں بھی نکالی جاتی ہیں لیکن ان میں نمود و نمائش کے عنصر کا فقدان ہوتا ہے۔ دھیرکوٹ، چمن کوٹ، نیلم، راولا کوٹ، مظفر آبادچمیاٹی، باغ سمیت ہرعلاقے میں یوم آزادی کے جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن منتظمین انہیںذاتی یا مالی مفادات کے حصول کا ذریعہ نہیں بناتے۔وہاں نہ تو کہیں بجے بجتے سنائی دیتے ہیں نہ ہی پٹاخوں یا کریکرز کی آوازیں آتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام تو پاکستان سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ انہیں نہ تو بھارت کی دس لاکھ فوج کا خوف ہوتا ہے جو ان پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے تعینات کی گئی ہے اور نہ ہی جان جانے کا۔
14 اگست کو کشمیری باشندےپاکستان کا یوم آزادی مناتے ہیں جب کہ بھارت کا یوم آزادی جو 15 اگست کو منایا
جاتا ہے، اسےوہ یوم سوگ کے طور مناتے اور پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے’’ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں‘‘۔ اس نعرے کا جواب بھارتی افواج گولیوں کی باڑ سے دیتی ہیں اور پاکستان کی محبت کے جرم میں درجنوں کشمیری باشندے شہید ہوجاتے ہیں جنہیں ان کے عزیز و اقارب بھارتی فوجیوں کے سامنے ہی پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر تدفین کرتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے