ہوم << پاکستان آذربائیجان برادر برادر (1) - اشفاق عنایت کاہلوں

پاکستان آذربائیجان برادر برادر (1) - اشفاق عنایت کاہلوں

آتش کدہ کی گرمی اور روحانی ماحول سے نکل کر جیسے ہی ہم واپس سُرخانی پولیس اسٹیشن کے پاس پہنچے، وہاں ایک بس کھڑی نظر آئی جو غالباً ہمیں لے جانے کے انتظار میں خود بھی بور ہو رہی تھی، کیونکہ اُس میں کوئی سواری موجود نہ تھی.

روزا سے پوچھا:
"کچھ کھانے کو دل کر رہا ہے؟"، تو وہ کمرہ امتحان میں بیٹھے کنفیوزڈ طالب علم جیسی سنجیدگی دکھاتی ہوئی.
"ابھی خاص بھوک نہیں، کروغلو بس اڈے پر ٹرکش ریسٹورنٹ سے ہی کھائیں گے."
میں نے دل ہی دل میں شکر کیا کہ یہ فیصلہ اُس نے کیا ہے، کیونکہ ابھی بھوک نے مکمل بغاوت کا اعلان نہیں کیا تھا، فقط معدے میں کچھ ہلکی پھلکی احتجاجی ریلی سی نکلی تھی۔

میں نے جوس کی تجویز دی جو روزا نے قبول کر لی، اور ہم چھوٹی سی کریانہ شاپ میں داخل ہو گئے، میں نے دکاندار کو سلام عرض کیا، روزا نے بھی کچھ دراست وچے انداز میں بولا، جیسے کوئی آذری شاعرہ نظم سنا رہی ہو، دکاندار نے مسکرا کر وعلیکم السلام کہا. روزا جوس تلاش کرنے میں مصروف ہو گئی اور میں دکاندار کے پاس کھڑا ہو گیا،. اس نے فوراً پوچھا،
"انڈین؟" میں نے عاجزی سے جواب دیا، "پاکستانی."
بس پھر کیا تھا، دکاندار صاحب نے محبت کے سمندر میں چھلانگ لگا دی، وہ کاؤنٹر سے باہر نکل آیا اور ایک بار پھر مجھے آذربائیجانی روایتی انداز میں رخساروں پر بوسوں کی بارش میں بھگو دیا.

"پاکستان آذربائیجان برادر برادر!"
اُس کا والہانہ جوش ایسے تھا کہ جیسے ہم بچپن کے بچھڑے ہوئے بھائی ہوں جو اچانک راشن کی دکان پر مل گئے ہوں۔
روزا جوس کے دو ٹن ہاتھ میں تھامے آ گئی، میں نے قیمت ادا کرنی چاہی تو دکاندار نے انکار کر دیا، بلکہ محبت کا تڑکا لگاتے ہوئے دو عدد چپس کے پیکٹ بھی مفت دے دیے، میں نے اصرار کیا کہ بھائی پیسے لے لو، محبت اپنی جگہ لیکن کاروبار بھی کوئی چیز ہے! مگر وہ اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا، کھانے کا بھی پوچھا، لیکن ہم نے معذرت کی، کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلی ملاقات پر ہمیں پانچ کلو قورمہ اور دو درجن نان بطور تحفہ پیش کر دے.

یہ چھوٹے چھوٹے لمحے ہی تو اصل میں سفر کی مٹھاس ہوتے ہیں، جنہیں بعد میں یاد کر کے ہنسی آتی ہے اور دل خوش ہو جاتا ہے۔ جب ہم بس پر سوار واپس آ رہے تھے اور کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے سبزے کو نظروں سے چاٹ رہے تھے، اچانک میری نگاہ کھیتوں کے بیچ ایک گھر کے سامنے لہراتے تین جھنڈوں پر جا ٹکی—ترکیہ، آذربائیجان اور درمیان میں ہمارا اپنا سبز ہلالی پرچم فخر سے لہرا رہا تھا.

یہ منظر دیکھتے ہی میرے اندر کا جذباتی پاکستانی ایک دم بیدار ہو گیا جو کرکٹ جیتنے پر سڑک پر بھنگڑا ڈالنے کو تیار ہوتا ہے، دل نے کہا،
"بس روک!" اور دماغ نے کہا،
"پہلے سوچ لو!"
مگر دل جیت گیا، جیسے ہمیشہ ہوتا ہے. میں فوراً اُٹھا اور ڈرائیور سے بس روکنے کو کہا. روزا نے ایسے چونک کر دیکھا جیسے میں نے بس میں بم کی نشاندہی کی ہو، گھبراہٹ سے پوچھتی،
"کیا ہوا؟ خیریت؟" میں نے رازدارانہ انداز میں اُسے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔

بس کے بریک چرچرائے، ڈرائیور نے ہماری طرف دیکھا، شاید سوچ رہا ہو کہ یہ دونوں پاگل ہیں، ہمیں اتار کر بس آگے بڑھ گئی، ہم واپس اسی سمت چل پڑے جہاں جھنڈے لہرا رہے تھے، سو گز کا فاصلہ جذباتی حالت میں میلوں طویل محسوس ہو رہا تھا، دائیں طرف بھاری بھرکم لکڑی کا بنا دیہاتی سٹائل گھر تھا، گھر کی بیرونی شکل و ساخت پرانی فلموں میں ہیرو کے ننھیالی گھر جیسی تھی. میں نے ہمت جمع کر کے بھاری لکڑی کے دروازے پر دستک دی، لیکن وہ اتنا وزنی تھا کہ آواز شاید گیٹ ہی میں دب گئی، میں نے دونوں ہاتھوں سے دروازہ تھپتھپانا شروع کر دیا، جیسے کسی سوئے ہوئے دیو کو جگا رہا ہوں، اچانک اندر سے ایک کتے کی بھونک سنائی دی، میرا دل کانوں میں آ گیا، لیکن چونکہ میں پرچم کا پرستار تھا، ہمت نہ ہاری۔

کچھ لمحوں بعد ایک بوڑھی عورت کی آواز آئی، اور پھر چھوٹا سا دروازہ کھلا، میں نے فوراً سلام کیا اور جواب کا انتظار کیے بغیر بول پڑا،
"میں پاکستان سے آیا ہوں، یہ میری دوست روزا ہے، ہم آتش گاہ دیکھنے گئے تھے، واپسی پر آپ کے گھر کے باہر پاکستان کا جھنڈا دیکھا تو بس... دل کھینچ لایا."
بوڑھی اماں مسکرائی، جیسے میرے جذبات کی زبان سمجھ گئی ہو اور مجھے لگا جیسے پرچم نے بھی ایک نظر بھر کر مجھے دیکھا ہو اور کہا ہو،
"شاباش، اصلی پاکستانی ہو تم."

میرے منہ سے "پاکستان" کا نام سن کر بوڑھی عورت کے چہرے پر چمک سی آ گئی تھی، اس نے اپنے جھریوں بھرے چہرے پر ایک روشن مسکراہٹ سجا کر "خوش آمدید" کہا اور فوراً ہمیں اندر آنے کا اشارہ دیا لیکن ابھی ہم قدم بڑھانے ہی والے تھے کہ پیچھے سے ایک غضبناک آواز سنائی دی، بھونکنے کی، اور وہ بھی پوری شدت کے ساتھ! ہم دونوں کی روحیں جسم سے نکلنے کو تھیں، دل کی دھڑکنیں بڑھ گئیں جیسے کوئی جاز بینڈ بج رہا ہو۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک کتا، جو سائز میں چھوٹا لیکن اعتماد میں لیجنڈری لگ رہا تھا، ہمیں ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا.

میں نے روزا کی طرف دیکھا، روزا نے میری طرف دیکھا اور دونوں نے بیک وقت دو قدم پیچھے ہٹائے. اس بڑھیا نے جب ہمارے چہروں کا رنگ فق ہوتے دیکھا تو فوراً کتے کو ششکارا،
"شش شش شو!" وہ کتا دم لپیٹ کر فلمی ولن کی طرح اک ادا سے پلٹ گیا۔
ابھی ہم سکھ کا سانس لے ہی رہے تھے کہ اندر سے ایک لمبا تڑنگا، دہقانی لباس پہنے نوجوان نمودار ہوا، سچ پوچھیں تو جیسے رشین فلموں کا کوئی کسان ہیرو ہو، اس نے روایتی انداز میں "سلام علیکم" کہا.

اور میں نے بھی پاکستانی اسٹائل میں جواب دیا، جب میں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے "پاکستان" کہا، تو وہ نوجوان ایک دم جذباتی ہو گیا. دروازے سے باہر نکل کر مجھے زوردار جپھی لگا لی، الف لیلیٰ کی جادوئی دوڑ چل پڑی تھی.
یہ کوئی معمولی جپھی نہ تھی، جناب! میری پسلیوں نے چیخ مار کر کہا،
"یہ دوستی نہیں، اذیت ہے!"
پھر تو جیسے جذبات کا طوفان آ گیا، میرے گالوں پر "چٹاخ چٹاخ" بوسے مارے گئے. میں ایک لمحے کو سمجھا شاید یہ رسمِ محبت ہے یا ریسلنگ کا وارم اپ. روزا ایک کونے میں کھڑی دلچسپی سے دیکھ تھی.

میں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا:
"گھبراو نہیں، یہ پیار ہے، مار نہیں!" وہ بمشکل مسکرا کر میرے پیچھے چل دی۔
گھر کا اندرونی منظر کسی کلاسیکی روسی فلم کے سیٹ جیسا تھا، گھر مکمل طور پر "ڈاچا" طرز پر بنا تھا، چاروں طرف سے بند، ایک گیراج نما صحن تھا جہاں سے گزر کر ہمیں مہمان خانے میں یعنی اُن کے ڈرائنگ روم میں صوفے پر بٹھایا گیا، صوفے کی نرمی نے ہمیں لمحہ بھر کو اپنے اصل مشن سے غافل کر دیا، ابھی ہم کمر سیدھی ہی کر رہے تھے کہ وہی بوڑھی عورت، جس کی آنکھوں میں اب تجسس اور جوش کی چمک تھی، اندر گئی اور جیسے ڈھول کی تھاپ پر اعلان کیا ہو کہ
"پاکستانی مہمان آ چکے ہیں."

بس پھر کیا تھا، پورے خاندان کا قافلہ، شادی کی بارات بن کر، ایک ایک کر کے ہمارے درشن کو آ پہنچا، بوڑھے، جوان، بچے، بہوئیں، سب ہی مسکرا رہے تھے اور ہم دونوں کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ہم ہالی ووڈ کے سلیبریٹی ہوں یا کم از کم مشہور یوٹیوبر. کچھ ہی لمحوں میں سامنے میز پر رنگ برنگی نعمتیں سجی ہوئی تھیں، انار، سیب، ناشپاتی، اور پتہ نہیں کیا کیا، ساتھ کچھ نمکو ٹائپ اشیاء بھی تھیں جن کی شناخت سے ہم قاصر رہے لیکن چکھنے کا ارادہ پکا تھا، بڑھیا اشارے کر رہی تھی کہ
"کھاؤ بیٹا، کھاؤ!"
میں نے دل رکھنے کو ایک سیب اٹھایا، دوسرا روزا کو دیا، روزا نے پہلے سیب کو دیکھا، پھر مجھے، سوالیہ نظروں سے پوچھ رہی ہو:
"واقعی؟ یہ بھی کھانا ہے؟"

میں نے فوراً سیب کو دانتوں سے کاٹا اور قدرے حیرانی سے پوچھا،
"آپ کے گھر کے باہر پاکستان کا پرچم؟"، وہ سب یک زبان ہو کر بولے،
"پاکستان آذربائیجان برادر برادر!"

(جاری ہے)

Comments

Avatar photo

اشفاق عنایت کاہلوں

اشفاق عنایت کاہلوں سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ سفر اور سفرنامہ ان کی پہچان ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ہوتے ہوئے اعلی تعلیم کےلیے روس جا پہنچے جہاں یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلے غیرملکی طالب علم کے طور پر ٹاپ کیا۔ روسی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ دنیا کی تلاش اور تحریر کے ذریعے سفری تجربات کا اشتراک ان کا جذبہ ہے۔ کئی سفرنامے شائع ہو چکے ہیں، ان میں کوہ قاف کے دیس میں ایک سال، ارتش کنارے، سیمپلاٹنسک: پیار کا دوسرا شہر، اوست کامن گورد، بہشت بریں باکو، اور تاشقند میں تنہا شامل ہیں۔ مختلف زبانوں میں ان سفرناموں کے تراجم ہو چکے ہیں

Click here to post a comment