ہوم << راہول گاندھی کے الزامات: بھارتی انتخابی شفافیت پر بڑھتے سوالات - اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

راہول گاندھی کے الزامات: بھارتی انتخابی شفافیت پر بڑھتے سوالات - اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر مشہور ہے، جہاں ہر پانچ سال بعد عام انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ اس جمہوری عمل میں شفافیت، غیرجانب داری اور عوامی اعتماد بنیادی ستون ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں مختلف سیاسی جماعتوں پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے غیرجمہوری ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔ راہول گاندھی کی تازہ پریس کانفرنس اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے، جس میں انھوں نے مودی حکومت پر متعدد سنگین الزامات لگائے۔

راہول گاندھی کا بنیادی مؤقف
راہول گاندھی نے مودی حکومت کو درج ذیل امور میں ملوث قرار دیا:
الف) فلاحی اسکیموں کا سیاسی استعمال
"لاڈلی بہنا" اسکیم: خواتین کی مالی مدد کا یہ پروگرام بظاہر سماجی بہبود کے لیے تھا لیکن راہول گاندھی کے مطابق اسے انتخابی رشوت کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اس طرح کی اسکیموں سے وقتی فائدہ تو عوام کو ملتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پالیسی سازی کا نتیجہ ہے یا محض ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی؟
ب) جذباتی مناظر اور مذہبی بیانیہ
"آپریشن سندور" جیسی کارروائیوں کا مقصد، ان کے بقول، عوامی مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ بینک کو متاثر کرنا تھا۔
یہ طریقہ کار جمہوریت میں "جذباتی سیاست" (Emotional Politics) کو فروغ دیتا ہے، جو پالیسی پر مبنی سیاست کے برعکس ہے۔
ج) قومی سلامتی کے سانحات کا انتخابی فائدہ
پلوامہ حملہ: ایک افسوس ناک واقعہ جس میں بھارتی فوجیوں کی جانیں گئیں۔
الزام یہ ہے کہ اس سانحے کو انتخابی مہم میں بطور "قومی اتحاد" کا نعرہ بنا کر سیاسی فائدہ اٹھایا گیا۔
د) ووٹر لسٹ میں دھاندلی
راہول گاندھی نے 40,009 جعلی اور غلط پتوں کی فہرست پیش کی۔
اس سے ووٹ ڈالنے کے عمل میں ہیرا پھیری اور دھاندلی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، جو انتخابی نتائج کی ساکھ کو متاثر کر سکتا ہے۔
3. الزامات کے ممکنہ اثرات
داخلی سطح پر
عوام میں انتخابی نظام پر اعتماد کم ہو سکتا ہے۔
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔
میڈیا اور سول سوسائٹی پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ معاملے کی مزید چھان بین کریں۔
بین الاقوامی سطح پر
بھارت کی جمہوری ساکھ پر سوال اٹھ سکتا ہے۔
غیرملکی میڈیا اور عالمی ادارے انتخابی شفافیت پر رپورٹنگ بڑھا سکتے ہیں۔
4. قانونی اور ادارہ جاتی پہلو
الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان الزامات کی غیرجانب دارانہ تحقیقات کرے۔
ووٹر لسٹوں کی تصدیق اور آڈٹ کا نظام مزید سخت کیا جائے۔
فلاحی اسکیموں کے اجراء کے لیے انتخابی ضابطہ اخلاق (Model Code of Conduct) میں مزید واضح شقیں شامل کی جائیں۔
5. جذباتی سیاست بمقابلہ پالیسی پر مبنی سیاست
یہ معاملہ اس بڑے سوال کو بھی جنم دیتا ہے کہ کیا سیاست کا مقصد عوامی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنا ہے یا طویل المدتی پالیسیوں کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا؟
جذباتی سیاست وقتی طور پر کامیاب ہو سکتی ہے مگر یہ سماجی تقسیم اور پالیسی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔
پالیسی پر مبنی سیاست شفافیت، احتساب اور پائیدار ترقی کو فروغ دیتی ہے۔

مستقبل کے لیے لائحہ عمل
1. انتخابی فہرستوں کا باقاعدہ آڈٹ: جعلی ووٹروں کی نشان دہی اور ان کے اندراج کی روک تھام۔
2. سیاسی مہم میں قومی سلامتی کے واقعات پر پابندی: تاکہ حساس معاملات کو ووٹ بینک کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔
3. فلاحی اسکیموں کی شفاف منظوری: ان کا آغاز انتخابی سال میں نہ ہو تاکہ سیاسی فائدہ نہ اٹھایا جا سکے۔
4. میڈیا نگرانی کا سخت نظام: جھوٹے بیانیے اور پروپیگنڈا کو روکنے کے لیے۔

راہول گاندھی کے الزامات مودی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو یہ بھارت کے جمہوری ڈھانچے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ دوسری طرف، اگر یہ صرف سیاسی الزام بازی ہے تو اس کا مقصد عوامی رائے کو متاثر کرنا ہو سکتا ہے۔اصل ضرورت ایک آزاد، منصفانہ اور شفاف تحقیقات کی ہے تاکہ نہ صرف حقیقت سامنے آئے بلکہ عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد بھی بحال ہو۔