14 اگست ہم جشن آزادی مناتے ہیں مگر کیوں ؟
کس بات پر خوشی؟ ویسے تو ہر انسان کا خوشی یا غمی کا معیار الگ اور منفرد ہوتا ہے، ہمارے ایک دوست ہیں، جب بھی سردیاں گزر جاتی ہیں اور بہار کے موسم کا آغاز ہونے جاتا ہے تو وہ قدرے افسردہ نظر آتے ہیں ، ایک مرتبہ ہم نے اس سے اس افسردگی کے بارے پوچھا تو کہنے لگا: بھائی لوگ بہار کو دیکھ کر فضول میں خوش ہورہے ہیں، مجھے تو خزاں کا موسم اچھا لگتا ہے.
کیوں بھائی؟ کہنے لگا ، بہار گرمیوں کی ابتدا ہے، اور گرمی ہمارے لیے بہت پریشان کن موسم ہے، مجھےبہار کی دھوپ میں گرمی کی تپش محسوس ہوتی ہے ، اس لئے مجھے خزاں اچھا لگتا ہے ۔ خیر وطن عزیز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جن کے لئے الگ وطن ہمارے دوست والا "بہار" ہی ہوگا، لیکن ہمارے لیے تو "بہار" ہی خوشی ہے۔ اور وطن ہی " بہار" ہے۔ لیکن سوال وہی ہے کہ وطن پر خوشی کیسے ؟ اور یہ بہار کیسے ؟
میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے قدرت اللہ شہاب کی ایک حکایت کی تلخیص پیش کرہاہوں جس سے معلوم ہوگا کہ یہ وطن ہمارے لئے کن مشکلات سے نجات کا ذریعہ بنا۔ ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ پرتاب سنگھ ، جسکا ایک مرتبہ شہاب صاحب زیارت کر چکے تھے، ان کے ذاتی اخراجات تو صیغہ راز میں رکھے جاتے تھے لیکن اس میں ایک مد کا نام "ٹٹی پن" کہلاتا تھا۔ قضاے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد تین ملازم مہاراجہ کو طہارت کرانے کیلیے مقرر تھے، دو ملازم چبھیس کی ململ کے ایک پورے تھان کو کھول کر اس کے دونوں سرے پکڑ کر ایک برآمدے میں کھڑے ہو جاتے تھے.
درمیان میں ایک خاص بناوٹ کی چوکی کا سہارا لیکر مہاراجہ صاحب ململ کے تھان پر مناسب آسن جما کر جھک جاتے تھے اور تیسرا ملازم چاندی کی گڑوی سے صحیح مقام پر پانی انڈیلتا تھا، اور دوسرے دونوں ملازم آرا کشوں کی طرح تھان آگے پیچھے کھینچ کر مہاراجہ کی صفائی کردیتے تھے۔ پھر وہ تھان تینوں ملازموں کو دان کردیا جاتا تھا۔
(شہاب نامہ ،صفحہ 387)
کم از کم اس جیسے واقعات کو سن کر یہ خوشی ضرور ہوتی ہے کہ اس طرز کی تابعداری اور صفائی کا اہتمام کرنے سے اس وطن نے ہمیں بچا لیا ہے ۔ یہ شوق صرف مہاراجہ صاحب کا نہیں ہندوستان کے وائسرائے اور انگریز افسروں کا بھی ہوتا ہوگا، اور لوگ اس کو اپنے لئے باعث اعزاز بھی سمجھتے ہوں گے ۔ ایک آزاد ملک کے رعایا کے طور پر اس قسم کے تجربات سے ہم نے آزادی پالی ہیں، اس پر شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔
عزت کے حال معلوم ہونے کے بعد جانی احترام کی حالت انگریز دور میں معلوم کرنی ہو، اس کیلئے بھی شہاب صاحب سے سننا چاھیے ، موصوف ایک جگہ لکھتے ہیں، اور یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب بنگال میں قحط آیا تھا، سیلاب کے بعد اشیاء خوردونوش ناپید ہوچکے تھے، لوگ بھوک اور فاقوں سے مر رہے تھے، ایک جگہ ایک شخص بھوک سے نڈھال موت کا انتظار کرتے ہوئے اپنی جھونپڑی کے سامنے پڑا تھا، اس کے آنکھوں میں ایسے آنسو تھے جس طرح پگلا ہوا موم بتی ہو، وہ اپنے جھونپڑی کے سامنے اکیلا پڑا تھا.
اس وقت فرینڈز ایمبولینس یونٹ کی ایک امدادی ٹیم وہاں پہنچ چکی تھی، خشک خوراک، ملک پاوڈر، گلوکوز کے ڈبے ، بسکٹوں کے پیکٹ اور وٹامن کی گولیاں جیپ میں پڑی تھی، جو ایک درخت کے سایہ میں کھڑی تھی، مسٹر رچرڈ سائمنڈ کالا چشمہ پہنے گھٹنوں کے بل اس طرح دم سادھے بیٹھا تھا جیسا مچھلی کا شکاری کھنڈی لگا کر خاموشی اختیار کرلیتا ہے ،ایک ناریل کے درخت کے سایہ میں مس بینکرٹ بھی جھونپڑی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بیٹھی تھی، جھونپڑی کے قریب ان کا تیسرا ساتھی کیمروں سے کھٹا کھٹ تصویریں کھینچنے میں مصروف تھا۔
اور وہ شخص بے حس و حرکت پڑا تھا۔ ابھی مرا نہیں تھا، ایک گیدڑ اس کی ایڑی میں دانت گاڑے کچر کچر منہ ماررہا تھا، پڑے ہوئے شخص کی پاؤں میں اتنی سکت نہیں رہی تھی کہ وہ اپنے پاؤں گیدڑ سے کھینچ لے ۔ یہ ایسا نایاب منظر تھا جو امریکی فوٹوگرافر کے لیے کہیں اور ملنا مشکل تھا، اس لئے جب میری جیپ کی آواز سن کر وہ گیدڑ بھاگ گیا تو فرینڈز ایمبولینس یونٹ کی امدادی ٹیم نے بہت برا منایا، اور دیر تک آپس میں زیر لب بڑبڑاتے رہے۔
(شہاب نامہ ، 231)
یہ تھی انگریزوں کی نظر میں ہماری اوقات ۔ اگر اس قسم کے عذاب سے ہمیں نجات ملی ہے تو آزادی کی وجہ سے۔ ہمیں یہ وطن اسلئے عزیز ہے کہ اس قسم کے تجربوں سے محفوظ ہو چکے ہیں۔
تبصرہ لکھیے