یہ صرف ایک جملہ نہیں، ایک مکمل طرزِ زندگی ہے۔ ایک ایسا نعرہ جو عقل، قانون اور ذمہ داری کا گلا گھونٹ کر قوم کے ضمیر پر قالین کی طرح بچھ چکا ہے۔ کہیں جانا ہو اور رش زیادہ ہو؟ سیدھا رانگ سائیڈ پر گاڑی گھما لو۔ کوئی ٹریفک اہلکار روک لے تو ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہنا:
"او بھائی، دیکھا جائے گا نا! پاکستان ہے۔"
گھر کی صفائی کرنی ہے؟ شاباش! شاندار!
اب وہ کچرہ کہاں جائے؟ ظاہر ہے سامنے والے پلاٹ میں، یا نالی میں، یا سڑک کنارے۔ کچرے کا اپنا کوئی وطن تو ہوتا نہیں، لیکن ہم خوب جانتے ہیں کہ ہمارا نعرہ بلند ہے:
“دیکھا جائے گا، پاکستان ہے!”
ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کا وقت آ گیا؟
حساب کتاب میں خالص تخلیقی صلاحیت دکھائیے۔ منافع کم، خرچہ زیادہ اور ہر رسید پر سوالیہ نشان۔ آخر حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم صرف کاغذ پر ہی امیر ہیں۔کسی نے پوچھا؟ فوراً جواب دیجئے:
“دیکھا جائے گا، پاکستان ہے!”
پارکنگ کا مسئلہ ہو؟ فٹ پاتھ پر لگا دو، یا کسی اور کی گاڑی کے آگے، پیچھے، بلکہ اوپر بھی ہو سکے تو لگا دو۔ “او بھائی، دو منٹ کا کام ہے” کہہ کر تین گھنٹے لگا دو۔
کوئی اعتراض کرے؟ “دیکھا جائے گا، پاکستان ہے!”
دفتر دیر سے پہنچنا؟
کیا مسئلہ ہے؟ آخر باس بھی پاکستانی ہے، اور وہ بھی سوچتا ہے “دیکھا جائے گا”۔
فائل گم ہو گئی، کام آدھا ہے؟ کوئی مسئلہ نہیں، "چائے پی لیں پہلے"، باقی وقت میں دیکھا جائے گا۔
سرکاری اسکول میں ٹیچر نہ آئے، اسپتال میں دوائی نہ ہو، پولیس اسٹیشن میں رشوت دیے بغیر ایف آئی آر نہ کٹے، پٹواری کے بغیر زمین نہ ملے، اور وکیل کے بغیر انصاف نہ آئے؟
کہنے کو تو یہ مسائل ہیں، مگر ہم نے انہیں معمول بنا لیا ہے۔
کیونکہ… جی ہاں!
دیکھا جائے گا، پاکستان ہے!
یہ جملہ کبھی جرات کی علامت تھا۔ شاید کسی مظلوم نے اسے کہتے ہوئے اپنے حق کے لیے قدم بڑھایا ہوگا۔
لیکن ہم نے اسے بے حسی، بددیانتی، اور غیر ذمہ داری کا لبادہ بنا دیا۔ اب یہ ایک اجتماعی بہانہ ہے – ایک ذہنی شارٹ کٹ جو ہمیں قانون، اخلاق، اور اصولوں سے بچا کر وقتی آسانی دیتا ہے۔
مگر غور کریں تو سوال یہ ہے..... کب تک دیکھا جائے گا؟ اور کون دیکھے گا؟
یہ ملک صرف ریاست نہیں، یہ ہم سب کا آئینہ ہے۔ اگر ہم نے ہر غلط کام پر "دیکھا جائے گا" کہنا ہے، تو شاید ایک دن واقعی کچھ "دیکھا" جائے گا اور وہ منظر خوشگوار نہیں ہوگا۔ آخر میں ایک سوال چھوڑتا ہوں:
اگر سب “دیکھیں گے”، تو کرے گا کون
تبصرہ لکھیے