آپ برا مانیں، مجھ سے اختلاف کریں، لیکن میرا ماننا ہے کہ پاکستانی عورت اول تو آزاد بلکل نہیں ہے، اور پاکستانی عورت بزدل ہے۔ یہ رشتوں اور خاندانوں کو بچانے کی ایسی زنجیروں میں باندھ دی گئی ہے کہ وہ ان زنجیروں کو ہی زندگی سمجھنا شروع ہو چکی ہے۔
میرے پاس کئی مثالیں موجود ہیں،کچھ کا میں چشم دید گواہ ہوں،کچھ کے لوگ گواہ ہیں کہ ایسے ہی واقعات پیش آئے، جہاں عورت کو اپنے لئے،اپنی خوشی کے لئے سٹینڈ لینا چاہیے تھا،نہیں لے سکی۔ اگر ایک عورت ایک toxic relationship میں ہے، وہ خواہ جس سے بھی ہے،وہ اس سے چھٹکارہ کیوں نہیں پا سکتی؟ طلاق یافتہ کا لیبل لگنے کا ڈر، بروکن فیملی کا ڈر، بچے بروکن فیملی میں متاثر ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ وہ توجیہات ہیں جو کہ ایک عورت دیتی ہے،جب وہ ایک toxic relationship کو نبھاہ رہی ہوتی ہے ۔ وہ ایسے رشتے کو بچانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہے، لیکن ملتا کیا ہے؟؟
اداسی۔ ویرانی ،ایسی زندگی جس میں صرف سانسیں رواں ہیں،زندگی نہیں ۔ ایک اہم وجہ ایسی عورتیں بتاتی ہیں کہ وہ یہ رشتہ صرف بچوں کی خاطر نبھاہ رہی ہیں۔ تو دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ،ایسے خاندان میں پلا بچہ زیادہ متاثر ہو گا؟ یا اس ماحول میں،جس میں اسکی زندگی صرف اسکی ماں کے گرد گھومتی ہو تو سبھی کا جواب یہی ہو گا وہ بچہ سنگل مادر کی زیر تربیت بہتر پرورش پائے گا۔ ایک اور توجیہہ دی جاتی ہے،کہ خاندان بچانا،رشتہ بچانا صرف عورت کا کام ہے۔وہ ہر حال میں کمپرومائز کرے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ کیوں کرے وہ کمپرومائز؟ کیا اسکی کوئی زندگی نہیں؟ اسکی کوئی خوشی نہیں ۔ جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو ہم پر موم بتی مافیا کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
جو سب سے اہم بات ہے،وہ یہ ہے کہ پاکستانی خواتین ہر قسم کے toxic relationship کو بچانا بھی چاہتی ہیں،مار برداشت کرتی ہیں،گالیاں سنتی ہیں،حتی کہ گھر سے نکال دی جاتی ہیں،لیکن وہ پھر بھی کہتی ہے کہ میں نے علٰیحدگی نہیں لینی ، اسکو اس گھٹن زدہ معاشرہ کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ وہ زنجیروں کے بنا رہ نہیں سکتی ۔ کیونکہ یہ سوچ پنپ چکی ہے ،کہ ایک تشدد زدہ رشتہ قبول ہے،لیکن خود پر طلاق یافتہ ہونے کا لیبل نہیں لگوانا۔ یہی رونا ہے ۔ روزانہ گھریلو تشدد کے کیسز آتے ہیں، کہتا ہوں،اپنے لیے سٹینڈ لو، جواب ملتا ہے ڈاکٹر صاحب!! دل کرتا ہے لوں۔نہیں لے سکتی۔ بس رو سکتی ہوں۔رو رہی ہوں۔
یہی پاکستانی عورت کا المیہ ہے کہ وہ جینا بھول چکی ہے ، وہ خود کو نہیں پہنچاتی، اپنے سپنے قربان کر چکی، اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ چکی، اپنے سارے مطالبات سے دستبردار ہو چکی، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے لیے کھڑا نہیں ہو سکتی۔ اسے toxic relationship کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ وہ اپنی زندگی اس کے بنا جی ہی نہیں سکتی۔ یہی رونا ہے!! یہی غم ہے کہ وہ یہ تشدد زدہ زنجیریں کیوں نہیں توڑنا چاہتی؟؟ کیوں نہیں اپنی مرضی سے جینا چاہتی؟؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جنکے جوابات کسی کے پاس نہیں ہیں ۔
تبصرہ لکھیے