دینی مدارس کے طلبہ کا فکری ارتداد ایک ایسا المیہ ہے، جو اس زمانے کی فکری اور تعلیمی زوال کی گہرائیوں میں جڑ پکڑ چکا ہے۔ یہ طلبہ جب اپنی علمی پیاس بجھانے سے پہلے ایک مخصوص جماعت یا مکتبِ فکر کی فکری بیڑیوں میں جکڑے جاتے ہیں، تو ان کی ذہنی پرواز محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور ان کے فہم کی وسعتیں، فکری پرندے کے ٹوٹے پر کی مانند کبھی آسمان کی بلندیوں کو نہیں چھو پاتیں۔
یہ طلبہ جنہیں کبھی علم کے روشن دیے سے اپنے گرد پھیلے اندھیروں کو چیرنا تھا خود اپنے ہی خیالوں کے جال میں اسیر ہو جاتے ہیں۔ ان کا زاویہ نگاہ ایک تنگ گلی کی طرح ہوتا ہے، جہاں روشنی تو موجود ہوتی ہے، مگر افق کی وسعتوں کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ وہ دنیا کو اسی چھوٹی سی گلی میں دیکھتے ہیں، جہاں فرقہ واریت اور تنگ نظری کے سایے ان کے دماغ پر یوں چھا جاتے ہیں جیسے سر پر منڈلاتے بادل۔ ان کی فکر کی سرزمین بنجر ہو جاتی ہے اور علم کی بہار وہاں کبھی نہیں اُترتی۔
یہ وہی طلبہ ہیں، جو فکری یتیمی کا شکار ہو کر ایسے افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جو انہیں اپنے مقاصد کی آگ میں جھونکنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ان کی طبیعت کی سختی اور شدت پسندی انہیں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ وہ اپنے مخالفین کو دشمنوں کی صف میں کھڑا کرتے ہیں اور ذرا سی اختلافی بات پر لوگوں کو گمراہ، بدعتی یا کافر قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ طلبہ فکری ارتداد کی دلدل سے باہر آئیں، تو ضروری ہے کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی پر بھرپور توجہ دیں۔ علم کا سمندر ان کے لیے کشادہ ہو، جہاں وہ صرف ایک مخصوص مکتب فکر کی کشتیاں نہیں چلائیں، بلکہ مختلف علوم وفنون کے بحری جہازوں میں سفر کریں۔ ان کی نظریاتی تربیت ان اساتذہ کے زیر سایہ ہو جن کی فکر کا دامن وسیع ہو، جن کے علم کی گہرائی سمندر کی مانند ہو اور جن کی بصیرت کے چراغ میں حکمت کا تیل جلتا ہو۔
اساتذہ کی پاکیزہ صحبت وہ چمن ہے، جہاں سے علم وحلم کے پھول کھلتے ہیں، جہاں فکر کی روشنی دل ودماغ کو روشن کرتی ہے۔ ان کی صحبت طلبہ کو نہ صرف علمی وسعت عطا کرتی ہے، بلکہ ان کی شخصیت کو بھی نرمی، محبت اور تحمل سے آراستہ کرتی ہے۔ ایسے اساتذہ کی تربیت میں پروان چڑھنے والے طلبہ فکری پختگی اور دوراندیشی کی راہوں پر چلتے ہیں، جہاں اختلاف رائے ایک علمی گفت وشنید کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور ذاتی دشمنی کی گلیوں سے دور ہو جاتا ہے۔
یہی فکری وسعت اور دوراندیشی طلبہ کو دنیا کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کا درست تجزیہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ جب یہ طلبہ اپنے ماحول کی نبض پر ہاتھ رکھنا سیکھ لیتے ہیں، تو وہ کبھی بھی کسی فرقہ پرست یا تنگ نظر فرد کے آلہ کار نہیں بنتے، بلکہ خود اپنی راہ متعین کرتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب باطل اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ان کے دل و دماغ پر قبضہ نہیں کر پاتا۔
تبصرہ لکھیے