دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اصل انقلاب نہ تلواروں سے آتے ہیں نہ تخت و تاج سے بلکہ وہ قلم سے جنم لیتے، پنپتےاور قیادت کے شعور سے پروان چڑھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ میں ایسے ہی ایک صاحبِ بصیرت معلم، محقق اور قائد ڈاکٹر محمد زاہد بلال آج اس روشن روایت کے امین نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں جب سنگاپور میں عالمی سطح پر منعقدہ میڈیا کانفرنس IAMCR 2025 میں دنیا بھر کے ممتاز محققین، اساتذہ اور ابلاغی ماہرین جمع تھے تو اس بین الاقوامی علمی محفل میں یونیورسٹی آف اوکاڑہ کا پرچم جس بلند نظری سے لہرایا، اس کے پیچھے ڈاکٹر زاہد بلال کی فکری محنت اور تحقیقی بصیرت کارفرما تھی۔ انہوں نے "ڈیجیٹل دور میں اسلامی اجتماعات کا کردار اور سماجی ہم آہنگی" کے عنوان سے نہ صرف اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے اسکالروں کے ساتھ سنجیدہ علمی مکالمہ کیا۔
یہ شرکت محض ایک کانفرنس میں موجودگی نہیں تھی، بلکہ اوکاڑہ جیسے شہر سے اُبھرتے ہوئے ایک تعلیمی ادارے کی بین الاقوامی سطح پر شناخت کا اعلان تھی۔ یہ ان اداروں کے لیے پیغام ہے جو وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں، مگر بصیرت، وژن اور قیادت سے محروم ہیں۔ ڈاکٹر زاہد بلال کی شخصیت کا ایک اور پہلو اُن کا غیرمعمولی کردار اور وعدے کی پاسداری ہے۔ میں نے خود اس کا مشاہدہ اُس وقت کیا جب میری کتاب کی تقریب رونمائی اوکاڑہ پریس کلب میں طے تھی۔اظہار خیال کے لیے ڈاکٹر ذاہد بلال کا نام دعوت نامہ پر درج تھا۔ تقریب کے روز اطلاع ملی کہ ان کی والدہ محترمہ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
دل میں خیال آیا کہ شاید وہ شریک نہ ہو سکیں۔ مگر وقتِ مقررہ پر وہ تقریب میں نہ صرف موجود تھے، بلکہ انہوں نے نہایت وقار اور محبت سے اظہار خیال کیا اور اپنی موجودگی سے تقریب کو وقعت بخشی۔ ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ یہ ہے اصل استاد کا چہرہ کہ وہ جو علم دیتا ہے وقت دیتا ہے اور اپنی موجودگی سے نئی نسل کو زندگی کے رویّے سکھاتا ہے۔ وہ جو صرف مضامین نہیں پڑھاتا، کردار بھی تعمیر کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ آج جس مقام پر کھڑی ہے، وہاں تک پہنچنے میں کئی ہاتھ، کئی ذہن، اور کئی دل شامل ہیں۔ لیکن ان میں کچھ لوگ چراغِ راہ بن جاتے ہیں ڈاکٹر زاہد بلال انہی میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے شعبہ میڈیا و کمیونیکیشن اسٹڈیز کو محض ایک اکیڈمک ڈپارٹمنٹ نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے تحقیق، تنقید، اور سماجی بصیرت کا مرکز بنایا ہے۔ ان کی قیادت میں طلبہ نہ صرف صحافت، ابلاغ اور تحقیق سیکھتے ہیں، بلکہ زندگی کی معنویت، اقدار اور ذمے داری کا شعور بھی پاتے ہیں۔ یہی وہ تعلیم ہے جو قوموں کو بناتی ہے، معاشروں کو سنوارتی ہے، اور اداروں کو بین الاقوامی افق تک لے جاتی ہے۔ ڈاکٹر زاہد بلال کا قلم روشن ، کردار مستحکم، قیادت باوقار اور یہی وہ مثلث ہے جو کسی بھی قوم کو زوال سے نکال کر کمال کی طرف لے جا سکتی ہے۔
تبصرہ لکھیے