ہوم << نئی منزلوں کا سفر - عبدالعلام زیدی

نئی منزلوں کا سفر - عبدالعلام زیدی

مڈل کلاس کا ایک عام آدمی جس طرح کے مالی حالات میں زندگی گزارتا ہے ، وہ اس کے ماضی کے ہی درد نہیں ہوتے ، اس کے مستقبل کی بھی وہ زنجیر بنتے ہیں کہ جو اسے غریبی کے دائرے سے نکلنے نہیں دیتی ۔یہ کیسے ہوتا ہے آئیے دیکھتے ہیں ۔

غربت کے ایام اور مشکل حالات کیسے ایک انسان کو مال دار اور خوشحال بننے کے سفر پر گامزن ہونے سے روکتے ہیں، اس کے کئی ایک پہلو ہیں ، چند کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں ۔ ایمان اور اعتقاد کی سطح پر کچھ ایسے بلیوز ہوتے ہیں کہ جو مال کی نعمت سے محروم رکھتے ہیں ، جیسے مال کو کلی طور پر شر اور ہلاکت کی چیز سمجھنا ، مال کے بارے میں یہ سوچ کہ اسے زیادہ کمانے کے لیے حرام راستے اپنانے پڑتے ہیں ، یا یہ سوچ کہ یہ آسانی سے نہیں آ سکتا ، یا یہ کہ یہ صرف بزنس مین کے پاس آتا ہے وہ بھی جو خاندانی کاروباری ہو اور میں کبھی کاروبار نہیں کر سکتا ۔

یہ سارے خیالات جو بعد میں اعتقادات بن جاتے ہیں اور اٹل اصول اور دل کے حکمران ۔ یہ ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اچھے گمان سے محروم کر دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ خود کو کمتر اور حقیر جیسی کیفیات میں خوش رہنا سکھاتے ہیں ، جبکہ تیسری جانب ان کے نتیجے میں سستی کاہلی ، سیکھنے سے دوری ، آگے بڑھنے کی ہمت سے محرومی جیسے امراض چمٹ جاتے ہیں ۔ عادات اور پیٹرنز کی سطح پر غربت جب سوچ کا حصہ بن جائے تو پھر یہ ایسی عادات اور پیٹرنز کو وجود دیتی ہے کہ جو انسان کے راستے بند کرتے ہیں ۔

دوسروں کے ساتھ باؤنڈری نہ لگا پانا ، اپنے مال کا تحفظ کرنے کی اہمیت تک کا ختم ہو جانا ، پیسے خرچ کرنے میں اپنی ذات ، اور صحیح مقام اور جگہ کو نہ پہچان پانا ، اپنے بچوں کی تربیت اور تعلیم میں پیسے کمانے کے کچھ اچھے راستے نہ سکھا پانا ، بس وہی میٹرک ، ایف ایس سی کی لائن ، نوکری کی خواہش ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طرح غربت کے نتیجے میں والدین کے خاص طرح کے پیٹرنز ڈویلپ ہوتے ہیں ، خاص قسم کے طعنے ، نصیحتیں ، ڈر , اور پھر خواہشات ۔ اور آگے چل کر اس پر قائم خاندانی نظام بڑھتے قدموں کو کھینچ کھینچ واپس لاتا ہے اور نفسیاتی امراض کے ایک خاص کلے سے باندھے رکھتا ہے ۔

احساسات و جذبات کی سطح پر جیسے انسان جس علاقے میں زیادہ عرصہ رہتا ہے ، اسے وہ گھر چھوڑتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے ، گلی محلے اس کے قدم پکڑتے ہیں ، یادیں اپنی طرف کھینچتی ہیں. اسی طرح غریبی کی بڑی تلخ یادیں ہوتی ہیں ، ان یادوں میں جب ہم زیادہ جیتے ہیں تو ہمیں ان سے پیار ہو جاتا ہے ، بالکل اسی طرح جیسے ایک جھگی میں جینے والے کو اس جھگی سے پیار ہوتا ہے ۔چاہے وہ کتنی ہی تکلیفیں کیوں نہ سکتا ہو ، اسے جھگی چھوڑنے کے کتنے ہی مواقع کیوں نہ ملتے ہوں ۔ اس کے لیے اس دنیا سے نکلنا مشکل ہوتا ہے ۔

بالکل اسی طرح ہمیں ہمارا ماضی اسی سرکل کی طرف کھینچتا ہے کہ جس میں ہم نے زندگی گزاری ۔وہ حرکتیں ، وہ عادات ، وہ الفاظ ، حتی کہ تکلیف دہ چیزیں جیسے ڈنڈے مارتے استاد ، یا پر طعنے ، گھر میں ہوتی فالتو کی ڈانٹ ڈپٹ ۔ یہ سب ہمیں سونا سونا ، پیارا پیارا محسوس ہونے لگتا ہے یوں یہ زنجیریں ہمیں اپنی جھگیوں سے ا چھے پکے مکانوں میں منتقل ہونے نہیں دیتیں ۔ ان سے جان چھڑانا ضروری تو ہے مگر یہ بہت محنت مانگتا ہے ، منٹور مانگتا ہے ، علاج کا تقاضا کرتا ہے، والدین کی سوچ کی تبدیلی مانگتا ہے ۔ کیونکہ جب ہم اس ماضی سے نکلنے لگتے ہیں ہم سے گلٹ ، ناممکن کا احساس اور نہ جانے کیسے کیسے درد لپٹ لپٹ جاتے ہیں .

ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ ہم ہی حقیقت ہیں اور تم تو ہمارے ہی ہو ۔ ایسے میں پچھلی محبتوں کو چھوڑنا اور نئی محبتوں کی اپنانا یقین مانو واقعی میں بہت تکلیف دہ ہے!
ربنا آتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرۃ حسنة وقنا عذاب النار

Comments

Avatar photo

عبدالعلام زیدی

عبدالعلام زیدی اسلام آباد میں دینی ادارے the REVIVEL کو لیڈ کر رہے ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایس کے بعد سعودی عرب سے دینی تعلیم حاصل کی۔ زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اسلامیات اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولہور سے ایم اے عربی کیا۔ سرگودھا یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ سید مودودی انسٹی ٹیوٹ لاہور میں تعلیم کے دوران جامعہ ازھر مصر سے آئے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ دارالحدیث محمدیہ درس نظامی کی تکمیل کی۔ دینی تعلیمات اور انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں

Click here to post a comment