ہوم << مردو عورت کی فطری محبت:مگر انا کی جنگ کیوں ؟ - ماریہ بتول

مردو عورت کی فطری محبت:مگر انا کی جنگ کیوں ؟ - ماریہ بتول

وہ تو خوشبو ہے ،ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے ،پھول کدھر جائے گا ؟

محبت ،انسان کی سب سے فطری ،سب سے خالص ،اور سب سے طاقتور جبلت ہے ۔جب مردو عورت کی فطرت ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتی ہے ،تو محبت ایک فطری راستہ اختیار کرتی ہے ۔جیسے بہار میں پھول کِھلتے ہیں ،جیسے بارش کے بعد زمین مہکتی ہے ۔

مرد عورت کی آنکھ میں اپنا عکس تلاش کرتا ہے ،اور عورت مرد کے لہجے میں اپنا نام سننا چاہتی ہے ۔یہ تعلق خواہ فطری ہو یا روحانی ،اس کی بنیاد ہمیشہ احساس ،قرب ،اعتماد اور احترام پر ہوتی ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب محبت اتنی فطری ،روحانی ،دلنشین اور مقدس ہے تو پھر اس میں انا کی دیواریں کیوں کھڑی ہو جاتی ہیں ؟

یہی وہ لمحہ ہے جہاں محبت جزبات سے ہٹ کر "میں"اور "تم"کی جنگ بن جاتی ہے ۔محبت جو"ہم"کے خوبصورت تصور سے شروع ہوئی تھی وہ "میں"کی خودپرستی اور "تم"کی ضد میں الجھ کر ،زخم خوردہ ہونے لگتی ہے ۔مرد اپنی خودشناسی ،عزت نفس،اور جزباتی تربیت کے خول میں بند ہے۔جبکہ دوسری طرف عورت اپنی خود شناسی ،عزت نفس اور جزباتی تحفظ کی تلاش میں ہے ۔اگر فطری تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں محبت کرتے ہیں ،مگر انا کے خول کی وجہ سے دونوں ہی اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہیں:یوں دو دل قریب ہوکر بھی دور ہو جاتے ہیں ۔

کیا یہ انا واقعی اتنی ضروری ہے ؟
کیا محبت کے دریا کو "برابری "کے پل پر بہنے نہیں دیا جا سکتا ؟
کیا مردو عورت ،اپنے اپنے دائرے سے ایک قدم باہر نکل کر ،ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم نہیں کرسکتے ؟

میں نے سب شکوک وشبہات بابا جی کے سامنے پیش کیے. مردو عورت دونوں ہی فطرتاً ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔مگر انا جیسی شیطانی رکاوٹ کی وجہ سے ایک دوسرے سے بلکہ فطری محبت ،ضرورت والی محبت بن جاتی ہے ۔ بابا جی نے میری طرف توجہ کا رخ مبذول کرتے ہوئے کہاکہ مردو عورت دونوں اپنی اپنی ضرورت سے محبت کرتے ہیں ۔کچھ ضرورتیں دونوں کی مشترک ہوتی ہیں ۔جیسے جسم کی ضرورتیں ،کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اماں حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فرمایا تو جسم کی ضرورت ایک فطری جبلت ہے.

میں نے حیرت سے پوچھا پھر انا کدھر سے آ گئی ؟
بابا جی نے توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہاکہ لیکن انا کی ضرورتوں میں اختلاف ہے ۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ،دونوں کی اناؤوں میں ،ازل سے ابد تک ایک جنگ چھڑی رہتی ہے۔ میں نے اُلجھتے ہوئے پوچھا ،انا کی ضرورتیں کیا ہیں بابا جی اور جنگ کیسی ؟؟؟؟

مرد کی پسلی سے عورت کو پیدا کیا ،مرد خود کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے ۔مذہب سے ڈر کر وہ ،خود کو خدا تو نہیں کہلاتا مگر مجازی خدا ضرور کہلانا پسند کرتا ہے ۔بابا جی کے چہرے پر پھر ایک مسکراہٹ نے ڈیرے ڈال دیئے ۔مرد کی بات تو کچھ کچھ ٹھیک معلوم پڑتی ہے ۔بظاہر تو مرد کو ،خدا نے افضل پیدا کیا ہے ۔عورت کو یہ بات معلوم بھی ہے۔تو پھر اس کی انا جنگ پر آمادہ کیوں ہے ؟؟؟؟

میں نے سر کھجاتے ہوئے عرض کی تو بابا جی ہنس پڑے ۔میں کچھ شرمندہ ہوا۔ دیکھو بیٹا ،تم ایک بات بھول رہے ہو،مرد کو اللّٰہ نے اپنی بہت سی خوبیوں میں سے حصّہ دیا ہے ۔رازق بنایا ہے ،متکبر بنایا ہے ،قابض بنایا ہے ،عادل بنایا ہے ۔لیکن عورت کو وہ صفت دی ہے جو مرد کو نہیں دی. وہ کونسی صفت ہے بابا جی ؟؟؟؟
میں نے حیرت سے پوچھا، عورت کو اللّٰہ تعالیٰ نے خالق بنایا ہے بیٹا! اولاد پیدا کرنے کی طاقت دی ہے اور یہ طاقت عورت کی انا کو دوام بخشتی ہے ،قوت دیتی ہے اور مرد کے مقابلے پر لا کھڑا کردیتی ہے ۔

بابا جی نے میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا....
ہاں یہ تو ٹھیک فرمایا آپ نے ،لیکن میرا سوال تو وہیں کا وہیں کھڑا ہے نا!میں نے یہ پوچھا تھا کہ مردو عورت کیوں ایک دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں ؟ میں نے بے صبری سے پوچھا.
بابا جی مسکرائے: بتاتا ہوں بیٹا ،بتاتا ہوں۔

اگر عورت کی ضرورت کی بات کی جائے تو تمہارا سوال عورت کی ایک اہم ضرورت سے متصل ہے اور وہ ضرورت ہے مرد کی طرف سے دیئے گئے نام کی ،پناہگاہ کی ،ٹھکانے کی ،جہاں وہ زمانے بھر کے طوفانوں سے بچنے کے لیے چھپ سکے۔عورت کو اپنی اس ضرورت سے بہت زیادہ محبت ہے اور ہونی بھی چاہیے ۔ اب تم مجھے بتاؤ کہ کیا تمہاری محبت میں وہ پناہ تھی ؟میں کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا.میری خاموشی ہی میرے سب سوالوں کا جواب تھا۔

مندرجہ بالا تحریر اسی داخلی ٹکراؤ کو سمجھنے کے لیے ایک فطری وروحانی کوشش ہے۔جہاں محبت فطرت ہے،مگر انا اس فطرت کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے ۔

Comments

Click here to post a comment