اردو ادب کی وسعتوں میں اگر کسی ایسی شخصیت کو تلاش کیا جائے جس نے قلم کو علم کی بارگاہ کا چراغ، تدریس کو فن کی معراج اور تحقیق و تنقید کو دل و دماغ کی ہم آہنگی میں ڈھالا ہو، تو پروفیسر ناصر بشیر کا نام برجستہ ذہن میں آتا ہے۔ وہ محض ایک استاد یا محقق نہیں بلکہ اردو زبان و ادب کی روحانی ساخت کے امین، علمی دیانت کے نگہبان اور تخلیقی اظہار کے سچے مسافر ہیں۔ ان کی نثر میں علم کی ژرف نگاہی، جذبے کی صداقت اور زبان کی لطافت اس خوبصورتی سے یک جا ہوتی ہے کہ قاری حیرت اور تحسین کے دو پاٹوں میں گھر جاتا ہے۔
سر چشمۂ علم: آغازِ زندگی اور علمی تربیت
ناصر بشیر کی ابتدائی زندگی ایک ایسے علمی ماحول میں گزری جہاں زبان محض اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ تہذیب، فکر اور شائستگی کا پیکر تھی۔ انھوں نے اردو زبان سے اپنے قلبی تعلق کو تعلیمی سفر میں شامل کیا اور اپنی محنت، لگن اور فکری بالیدگی سے اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ ان کی علمی پرورش نے ان کے اندر نہ صرف زبان کی باریکیوں کا شعور بیدار کیا بلکہ تحقیق و تنقید کا ایسا شعور پیدا کیا جس نے ان کے فکری اُفق کو نئی جہات بخشی۔
درس و تدریس: ایک فن، ایک مشن
پروفیسر ناصر بشیر درس و تدریس کو محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری، ایک فکری خدمت اور ایک روحانی تجربہ سمجھتے ہیں۔ ان کے لیکچرز معلومات کا انبار نہیں بلکہ ادبی شعور کا آئینہ ہوتے ہیں، جن میں زبان کی ساخت، اسلوب کی نزاکت، اور متن کے باطن کو سمجھنے کی جستجو صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کے ہزاروں شاگرد علمی و ادبی دنیا میں ان کے فکر و فن کی گواہی بن کر موجود ہیں، جو اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ دلوں میں چراغ روشن کرنے والے معلم ہیں۔
تصانیف: علم و ادب کا گلدستہ
ناصر بشیر کی تصنیفی خدمات اردو ادب کے مختلف پہلوؤں کو محیط ہیں۔ ان کی ہر کتاب ایک فکری کائنات کو وا کرتی ہے:
1. شمس آغا کی کہانی : اردو افسانے کے ایک گوشۂ فراموش کو بازیافت کرنے والی یہ کتاب صرف ایک ادبی شخصیت کا خاکہ نہیں بلکہ اردو افسانے کی گم گشتہ تاریخ کا قیمتی ورق ہے۔
2. پہلی پیشی : عمرہ کے سفر پر مبنی یہ سفرنامہ ادب، روحانیت اور مشاہدے کا نادر امتزاج ہے، جہاں زائر کا باطن اور منظر کا حسن ایک ہی نثر میں گھل مل جاتا ہے۔
3. حج بیتی : ایک روحانی سفر کی داستان، جو خارجی منازل سے زیادہ داخلی تجلیات کی ترجمان ہے۔ اس میں انسان اور خدا کے مابین خاموش مکالمہ، نثر کی لطافت میں ڈھل کر قاری کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔
4. لسانی مضامین : اردو زبان کی صوتیات، صرف و نحو، اور اسلوب پر لکھے گئے ان کے مضامین ایک ایسا علمی سرمایہ ہیں جو زبان کے طالب علم کو نہ صرف علم بلکہ فہم کی بھی دولت عطا کرتے ہیں۔
تنقید نگاری: فہم کا وقار، احساس کی شائستگی
ان کی تنقید محض رائے زنی یا حوالہ بازی نہیں بلکہ ایک فکری ریاضت ہے۔ وہ فن پارے کو محض سطحی انداز میں نہیں پرکھتے بلکہ اس کے اندر چھپی تہوں کو شائستگی سے بے نقاب کرتے ہیں۔ ان کی تنقید میں نہ تعصب کی گرفت ہے، نہ جذباتی سطحیت کا شور؛ بس ایک متوازن، مدلل اور بے لاگ نقطۂ نظر جو ادب کو آئینے میں دیکھنے کے ہنر سے روشناس کراتا ہے.
سفرنامہ نگاری: منظر، جذبہ اور فکر کا امتزاج
ناصر بشیر کے سفرنامے اردو ادب میں ایک منفرد اسلوب کی شناخت بن چکے ہیں۔ وہ سیاحت کو نثر میں ڈھالنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ ان کی تحریر میں محض مناظر کی جھلک نہیں بلکہ دل کی کیفیات، آنکھوں کے مشاہدے اور روح کے تجربے یکجا ہو کر قاری کو ہمسفر بنا لیتے ہیں۔ “پہلی پیشی” اور “حج بیتی” مذہبی سفرنامہ نگاری میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
زبان و بیان کا فن: سادگی میں تاثیر، شائستگی میں وقار
ان کی نثر میں غیر ضروری تصنع یا لفاظی کا شائبہ تک نہیں۔ وہ سادہ بات کو حسنِ ترتیب، دقیق فکر اور شعوری اظہار کے ساتھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ اس کا اثر قاری کے ذہن پر دیر تک قائم رہتا ہے۔ ان کی نثر کلاسیکی ادب کی گہرائی اور جدید اظہار کی تازگی کا حسین امتزاج ہے۔
علمی و ادبی سرگرمیاں:
پروفیسر ناصر بشیر نے نہ صرف تدریسی میدان میں بلکہ قومی و بین الاقوامی علمی و ادبی فورمز پر بھی اپنے فکر و بیان کی خوشبو بکھیری۔ ان کے مقالات، خطابات اور مکالمے زبان و ادب کے متنوع پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں، جہاں علم کی گہرائی اور بیان کی شستگی قدم بہ قدم ساتھ چلتی ہے۔
شخصیت: شفقت، متانت اور وقار کا پیکر
ان کی ذات میں ایک ایسا نرمی آمیز وقار ہے جو انھیں ہردلعزیز بناتا ہے۔ وہ اختلاف کو نفرت نہیں، تنوع سمجھتے ہیں۔ ان کی گفتگو، نشست و برخاست اور فکری رویہ شائستگی، سنجیدگی اور حسنِ اخلاق کا مرقع ہے۔
ایک زندہ تجربہ، ایک روشن چراغ
پروفیسر ناصر بشیر اردو ادب کا وہ نام ہے جس نے لفظوں کو زیور نہیں بلکہ احساس کا پیرہن پہنایا۔ ان کی تحریریں محض مطالعہ کے لائق نہیں بلکہ محسوس کیے جانے کے قابل ہیں۔ وہ تحقیق میں صداقت، تدریس میں محبت اور ادب میں سچائی کی مثال ہیں۔ بلاشبہ، اردو ادب ان پر ناز کر سکتا ہے اور آنے والی نسلیں ان کے علمی و فکری نقوش پر اپنے راستے استوار کر سکتی ہیں۔ اگر ادب کو جینا ایک فن ہے، تو ناصر بشیر اس فن کے سچے علم بردار ہیں۔



تبصرہ لکھیے