ہوم << بیت المقدس کی دہلیز پر - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

بیت المقدس کی دہلیز پر - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

آج ہمیں حطین جانا تھا ۔ دل میں ایک عجیب طرح کی بےچینی عجیب سی خوشی تھی ۔ حطین کا نام کئی دہائیوں سے ذہن کے نہاں خانوں میں نقش تھا ۔ وہ سرزمین جس نے تاریخ کا نیا باب قلم بند کیا تھا ۔ مجھے بتایا گیا تھا ۱۱۸۷ء کو ہونے والی اس فیصلہ کن جنگ کی کوئی نشانی اب وہاں باقی نہیں جو صلاح الدین ایوبی اور صلیبیوں کے درمیان لڑی گئی تھی لیکن میں پھر بھی وہاں جانا چاہتا تھا ان فضاؤں میں سانس لینا چاہتا تھا اس دو چوٹیوں والی پہاڑی کے منظر کو اپنی آنکھوں میں ہمیشہ کے لئے مقید کرنا چاہتا تھا جو ان لمحوں کی گواہ تھیں جب اٹھاسی سال کے بعد قبلہ اول کی قسمت کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوا تھا ۔ دائیں چوٹی پر سلطنت یروشلم کے حکمران گی لوزینیان نے اس جنگ کے دوران اپنا خیمہ نصب کیا تھا جس کے باہر صلیب اعظم گڑی تھی ۔ میں اس چوٹی پر کھڑے ہوکر نیچے پھیلے حطین کے میدان پر نگاہ دوڑانا چاہتاتھا ۔

میں درحقیقت اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھ رہا تھا کہ آج مجھے اپنے بچپن کے اس ہیرو کے نقوش پاء پر چلنے کی توفیق مل رہی ہے جسے میرے اللہ نے اپنے قبلہ اول کی آزادی کے لئے پیدا کیا تھا ۔ مسجد اقصیٰ میں فجر اور اشراق کی نماز پڑھنے کے بعد ہم پَو پھٹنے پر ہوٹل واپس لوٹ آئے ۔ حمزہ اوربلال واپس آتے ہی بستر پر ڈھیر ہو گئے اور جلد ہی کمرہ ان کی گہری سانسوں سے گونجنے لگالیکن میں جاگتا رہا میرے دل کی بے کلی مجھے بستر پر لیٹنے سے روکتی رہی میں کھڑکی کے پردے ہٹا کر قبة الصخرا کو دیکھنے لگا ۔ جس کا سنہری گنبد جبل زیتون کے عقب سے طلوع ہوتے ہوئے سورج کی نرم روشنی میں چمک رہا تھا ۔ کبوتروں کی کئی ڈاریں اس کے گرد طواف کر رہی تھیں ۔ بے شمار کبوتر نیچے بیٹھے دانہ چگنے میں مصروف تھے ۔ گنبد سے امڈتی سنہری اور روپہلی شعاؤں نے جیسے مجھ پر جادو سا کر دیا . مجھے لگا جیسے اس پر آسمان سے نور کی بارش ہو رہی ہو ۔ قبةالصخرہ کے چبوترے پر زائرین کی کئی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بیٹھی نظر آرہی تھیں ۔ چبوترے کے نیچے لگے سینکڑوں سال پرانے زیتون کے درخت باد صبا کے سنگ دھیرے دھیرے مستی میں جھوم رہے تھے ۔ میں اس نظارے میں کھو سا گیا اور مسحور ہوکر بے اختیار اس کی طرف تکتا رہا ۔ پتہ نہیں اس سنہرے گنبد میں ایسی کیا کشش تھی کہ میں جب بھی اس کی طرف دیکھتا تھا تو میرے لئے اپنی نگاہ ہٹانا مشکل ہو جاتا تھا۔

میرے کانوں میں پچھلے چالیس سال سے مسجد اقصٰی کی خدمت کرنے والے خوش نصیب ابو فواد کی آواز گونجنے لگی جو اس نے قبة الصخرہ کے احاطے میں جھاڑو پھیرتے ہوئے سر اٹھا کر مجھ سے کہی تھی کہ
”ڈاکٹر کیا تم جانتے ہو کہ جنت تک جانے کا سب سے چھوٹا راستہ کون سا ہے ۔“
میں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ گنبد کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا ۔
” یہ گنبد! اور یہیں سے میرے آقا صلعم آسمان کی طرف گئے تھے.“
اور اس کے بعد میں جب بھی اس گنبد کی طرف دیکھتا تھا تو مجھے ابو فواد کی یاد آنے لگتی تھی اب مجھے بھی اس کی بات پر یقین ہو چلا تھا کہ وہ سچ کہتا ہے آخر اس جگہ میں کوئی تو ایسی خاص بات ہے کہ رسول اکرم صلعم کو ہزاروں میل دور سے یہاں لایا گیا تھا ورنہ معراج تو مکہ سے بھی ہو سکتی تھی ۔ آخر کچھ تو ہے کہ قرآن مجید میں جب بھی اس جگہ کا ذکر آتا ہے تو اسے خیر وبرکت والی جگہ کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ دنیا میں کسی اور خطہ زمین کے نصیب میں یہ سعادت نہیں۔ یہ سنہری شعاعیں گنبد سے نکل کر سیدھی آسمان کی وسعتوں میں گم ہو رہی تھیں مجھے لگا جیسے ان کے درمیان کوئی سیڑھی سی موجود ہے جو سیدھی آسمان کی طرف چلی گئی ہے ۔ اور چرخ نیلی فام اور اس گنبد کے درمیان کوئی براہ راست رستہ سا بن گیا ہے ۔ میرا بڑادل چاہا کہ میں بھی اپنے نبی صلعم کی اتباع میں ان سیڑھیوں پر چڑھتا اوپر چلا جاؤں لیکن میرے ایسے نصیب کہاں تھے میں اپنی انہی بے ہنگم اور بے سُری سوچوں میں مگن رہا ۔ پتہ نہیں کتنی دیر گزر گئی اچانک حمزہ نے نیند میں کچھ بولنا شروع کیا تو میں چونک گیا بڑے بے ربط سے الفاظ تھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ میں کھڑکی سے ہٹ کر رائٹنگ ٹیبل کے ساتھ بچھی کرسی پر آ بیٹھا اور اپنا بک ریڈر کھول کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے بارے میں لکھی ابن شداد کی یاد داشتیں پڑھنے لگا ۔

بہاؤالدین بن شداد بارہویں صدی کا مشہور عالم اور مستند عرب تاریخ دان ہے جس کی سلطان صلاح الدین ایوبی پر لکھی کتاب " النوادر السلطانیہ والمحاصین الیوسفیہ “ سلطان ایوبی کی زندگی پر ایک بڑی مستند اور معتبر دستاویز سمجھی جاتی ہے اس کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈونلڈ سڈنی رچرڈز نے The rare and excellent history of Saladin کے نام سے کیا ہے یہ کتاب ایمیزون پر دستیاب ہے۔ ابن شداد نے زندگی کا بڑا حصہ سلطان صلاح الدین کے ساتھ گزارا وہ اس کی کابینہ میں وزیر بھی رہا ۔ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے سفر میں شریک رہا ۔ اس کی یہ کتاب اس کے ذاتی مشاہدات اور تجربات پر مبنی ایک بڑی حقیقیت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ ڈائری پر مشتمل ہے جو وہ سلطان کی ہمراہی میں روز لکھا کرتا تھا ۔ مجھے اس کتاب سے پہلی بار آگاہی اپنے سکول کے زمانے میں ہوئی جب میں نے التمش کی لکھی کہانی “ داستان ایمان فروشوں کی “ پڑھنی شروع کی ۔ جو ماہنامہ حکایت میں سلسلہ وار چھپا کرتی تھی اور یہی وہ دور تھا جب میرا سلطان ایوبی سے بھی تفصیلی تعارف ہوا۔ اور وہ میرا ہیرو بن گیا ۔ پھر میں نے سلطان ایوبی کے بارے میں بہت پڑھا ہر وہ کتاب جو اس کے بارے میں ہوتی تھی میری پسندیدہ کتاب بن جاتی ہے میں نے پہلے سکول لائبیریری اور کالج کی لائبریری سے مستعار لے کر ہر وہ کتاب پڑھی جو اس کے متعلق تھی ۔ مجھے ہیرلڈ لیمب ، لین پول اور ولئیم آف ٹائر ، ولئیم آف نیوبرگ ، کی لکھی کتابیں بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ اسے حسن اتفاق سمجھئیے یا قدرت کا کرشمہ کہ جن دنوں ابن شداداپنی ڈائری لکھا کرتا تھا عین انہی دنوں ولئیم آف ٹائر بھی ڈائری لکھتا تھا ولئیم دوئم فلسطین کے شہر ٹائر کا آرچ بشپ تھا اور سلطنت یروشلم کے شہنشاہ بالڈون چہارم کا اتالیق بھی تھا ۔ اس کی یاد داشتیں لاطینی زبان میں لکھی گئی تھیں جو prologue to the Historia کی شکل میں موجود ہیں انگریزی میں اس کا ترجمہ کرونیکل آف ولئیم آف ٹائر کے نام سے ہوا ہے اور مغربی مورخ اس کتاب کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ چند سال پہلے میں نے ابن شداد کی کتاب ایمیزن سے خریدی اور اپنے بک ریڈر میں محفوظ کر لی ۔ اسے کئی بار پڑھ چکا ہوں ۔ جو لطف ابن شداد کی تحریر میں ہے وہ کسی اور مصنف کے ہاں نہیں ملا۔ ابن شداد کی یہ کتاب ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ ماضی کے اس دور میں لے جاتی ہے جہاں میں ابن شداد کی طرح ایک چلتا پھرتا کردار بن کر سلطان ایوبی کی فوج کا ایک سپاہی بن جاتا ہوں اپنی تصور کی آنکھوں سے اپنے آپ کو ان واقعات کا حصہ بنا دیکھتا ہوں جو آج تاریخ میں رقم ہیں۔

آج بھی یہی ہوا ۔ یہ سوچ کر میرے رگ وپے میں برق سی دوڑنے لگی خون جوش مارنے لگا مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا جب میں نے یہ پڑھا کہ یروشلم کے ہیروڈ گیٹ کے سامنے واقع جس گولڈن وال ہوٹل میں اس وقت میں بیٹھا ہوں یہاں کبھی ایک وسیع و عریض میدان ہوا کرتا تھا اور آج سے ہزار سال پہلے اسی جگہ سے سلطان ایوبی نے یروشلم کی فتح کی غرض سے اپنے محاصرے کا آغاز کیا تھا ۔ سلطان سلیمان روڈ سے نکلنے والی صلاح الدین سٹریٹ جو ہیروڈ گیٹ سے شروع ہو کر مشرقی یروشلم کے درمیان سے گزرتی نابلس روڈ سے جا ملتی ہے اسی واقعے کی یادگار ہے ۔ ہیروڈ گیٹ سے لے کر دمشقی دروازے اور باب داؤد کے باہر تک اسی میدان میں سلطان کی فوجیں چار دن تک خیمہ زن رہی تھیں جہاں آج عمارتوں کے اس بچھے جال میں گولڈن وال ہوٹل بھی واقع ہے جس کے ایک کمرے میں اس وقت میں بیٹھا تھا ۔

۴ جولائی ۱۱۸۷ء میں صلیبیوں کو حطین کے میدان میں فیصلہ کن شکست دینے کے بعد سلطان راستے میں پڑنے والے تمام شہروں بیروت ، عکہ، جافا ، صیدون کو فتح کرنے کے بعد ستمبر کے آغاز میں عسقلان پہنچا ۔ ہزاروں سال پرانے اس شہر میں لوہے اور تانبے کے دور کی تہذیبوں کے کھنڈرات بھی موجود ہیں اور اپنے محل وقوع اور بحیرہ روم کے کنارے آباد اس شہر کو یروشلم اور مصر کا دروازہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں سے ایک سڑک ساحل کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی سے نکل کر مصر کے شہر العریش سے جا ملتی ہے اور اور سڑک یروشلم کی طرف چلی جاتی ہے ۔ جو بھی عسقلان کو فتح کرتا بالآخر یروشلم کا مالک بھی بن جاتا ۔ البلادری نے لکھا ہے کہ عسقلان وہ آخری شہر تھا جس پر امیر معاویہ نے حضرت عمر کے دور میں پہلی بار قبضہ کیا ۔ پھر یہ عباسیوں اور فاطمید کے قبضے میں رہا ۔ ۱۰۹۹ء میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران صلیبیوں یروشلم پر تو قبضہ کرلیا لیکن اپنے مضبوط قلعے کی بناء پر وہ عسقلان پر تسلط جمانے میں ناکام رہے ۔ بالآخر اگست ۱۱۵۳ء میں یہ بھی صلیبیوں کی جھولی میں جا گرا ۔ ان کا عسقلان پر یہ قبضہ تقریباً چوبیس سال تک قائم رہا ۔ سلطان یکم ستمبر کو عسقلان پہنچا تو قلعے کے محافظوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ۔ اور جنگ پر آمادہ ہوئے ۔ بالآخر ایک ہفتے کے شدید محاصرے اور سخت جنگ کے بعد انہوں نے شکست تسلیم کر کے قلعہ سلطان کے حوالے کر دیا ۔ عسقلان کے عیسائیوں کو اسکندریہ جلا وطن کر دیا گیا کچھ عیسائی یورپ کی طرف روانہ ہو گئے ۔

عسقلان کی وجہ شہرت اس مقام کیوجہ سے بھی تھی جہاں فاطمید روایات کے مطابق حضرت حسین کا سر اڑھائی سو سال تک دفن رہا تھا یہ مقام عسقلان شہر سے باہر ایک پہاڑی چوٹی پر تھا اور دنیا بھر سے شعیہ حضرات اور دیگر محب حسین اس مقام کی زیارت کے لئے آیا کرتے تھے اور یہاں سارا سال ایک میلہ سا لگا رہتا لیکن جب ۱۰۹۹ ء میں صلیبیوں نے یروشلم فتح کرنے کے بعد عسقلان کے قلعے کا محاصرہ کیا تو فاطمید خلیفہ کے حکم پر یہ سر مبارک وہاں سے نکال کر قاہرہ پہنچا دیا گیا جہاں یہ آج تک موجود ہے ۔ سر مبارک کے جانے کے بعد بھی اس مقام کی رونق قائم تھی اور زائرین اس مقام کی زیارت کے لئے بدستور آتے رہے ۔

مقام نبی حسین کی مکمل روئیداد اسی کتاب کے ایک دوسرے مضمون “ قصہ حسین کے سر کا” میں بڑی تفصیل سے موجود ہے ۔ ابن شداد نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ عسقلان کی فتح کے بعد سلطان بھی مقام حسین کی زیارت کے لئے گیا اور اس سے ملحقہ مسجد میں دو نفل ادا کئے وہ اس مسجد میں موجود اس منبر سے بہت متاثر تھا جو فاطمید خلافت کے وزیر اعظم بدر الجمالی نے وہاں رکھوایا تھا ۔ اب اس کی اگلی منزل یروشلم تھی جس پر قبضے کے لئے وہ پچھلے بیس سال سے کوششیں کر رہا تھا . اسی دوران یروشلم شہر کے شرفاء کا ایک وفد اس سے عسقلان میں آکر ملا ۔ جس کی قیادت یروشلم کا استفف اعظم ہراکیولس کر رہاتھا ۔ سلطان نے ان کے سامنے شرائط رکھیں کہ اگر وہ یروشلم بغیر جنگ کے اس کے حوالے کردیں تو وہ تمام شہریوں کو جان مال اور عزت کی امان دے گا۔ وہ جہاں جانا چاہئیں اپنے مال واسباب کے ساتھ جا سکیں گے۔ صلیبیوں کے مقامات مقدسہ کا احترام کیا جائے گا ۔ صلیبی جب چاہیں مستبل میں ان کی زیارت کے لئے آ سکیں گے۔

وفد نے یہ شرائط سنیں تو مشاورت کے لئے مہلت مانگی اور ایک الگ خیمے میں بیٹھ کر ان شرائط پر غور وخوص کرنے لگے ۔ اسی دوران دن کے وقت اندھیرا چھا گیا یہ سورج گرہن تھا ۔ پہلے تو صلیبی ڈر سے گئے لیکن پھر چند منٹ کے بعد سورج دوبارہ نکل آیا تو بڑے پادری ہراکلیوس نے کہا کہ اس وقت سورج گرہن کا ہونا تو ہمارے حق میں بڑا اچھا شگون ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوندا یسوع مسیح یروشلم کو ہمارے قبضے میں ہی رکھنا چاہتاہے ۔اور یہ سورج گہن اسکی طرف سے اشارہ ہے اب مسلمان ہم سے کبھی یروشلم چھین نہیں سکیں گے ۔ وفد کے باقی ارکان نے اس کی بات پر یقین کر لیا ۔ اور جب وقفے کے بعد مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تو صلیبی وفد نے سلطان کی تمام شرائط مسترد کر دیں ۔ اور کہا کہ وہ کبھی اس شہر کو مسلمانوں کے حوالے نہیں کریں گے جہاں ان کا مسیح ان کے لئے صلیب پر لٹک گیا تھا۔ سلطان نے جب یہ باتیں سنیں تو کہا تو پھر ٹھیک ہے اب اس شہر کا فیصلہ میری تلوار کرے گی ۔ یوں صلیبی وفد واپس لوٹ گیا اور اس کے پیچھے پیچھے سلطان بھی نابلوس اور رملہ کو فتح کرتا ہوا بالآخر ۲۰ ستمبر ۱۱۸۷ء کی شام اپنے لشکر سمیت بیت المقدس کی دہلیز پر آن پہنچا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کا انتظار دنیا بھر کے مسلمان نوے سال سے کر رہے تھے ۔ اس نے ہیروڈگیٹ اور دمشقی دروازے کے سامنے پہنچ کر ڈیرے ڈال دیے ۔ شہر کا محاصرہ ہو گیا ۔ اس وقت تک ٹائر اور یروشلم کے علاوہ باقی ساری سلطنت یروشلم سلطان کے زیر نگیں آ چکی تھی ۔

شہر کی صورت حال بہت دگرگوں تھی ۔ شکست خوردہ اور مفتوحہ علاقوں سے لوگوں کا ایک جم غفیر یروشلم میں اس خیال سے جمع ہو چکا تھا کہ یہ شہر کبھی بھی مسلمانوں کے قبضے میں نہیں جا سکتا کہ ورجن میری اور حضرت عیسٰی ان کی مدد کو آئیں گے ۔ ان میں سپاہی بہت کم اور عام لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔ ابن شداد کی یاد داشتوں کے مطابق شہر میں ساٹھ ہزار سے پناہ گزینوں سمیت ستر ہزار سے ایک لاکھ کے قریب لوگ جمع ہو چکے تھے ۔ شہر کی گلیوں اور بازاروں ، میدانوں اور گرجوں میں ہر طرف ان مسیحی پناہ گزینوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ شہر میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ لوگوں کے اس بے ہنگم ہجوم نے یروشلم کے قلعے میں محصور لوگوں کی زندگیاں اور بھی مشکل بنا ڈالیں تھیں جو پہلے ہی یروشلم میں خوراک اور پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے تھے۔ یروشلم کے شہریوں نے سلطان سے لڑنے کا فیصلہ تو کرلیا تھا لیکن ان کے پاس شہر کا دفاع کرنے کے لئے شہر کی فصیلوں کے علاوہ کچھ باقی نہ بچا تھا ۔ ساری فوج تو جنگ حطین میں ختم ہو چکی تھی۔
سلطنت یروشلم کا بادشاہ گی لوزائینن Guy of Lusignan اور ٹمپلرز کا گرینڈ ماسٹر جرارد رایدفورت Gérard de Ridefort اور دوسرے تمام معروف اور بڑے صلیبی کمانڈروں کے ساتھ جنگ حطین میں گرفتار ہو چکا تھا ۔ جنہیں سلطان نے دمشق کے قید خانے میں ڈال دیا تھا ۔ یروشلم میں موجود گئی کی بیوی اور یروشلم کی ملکہ سبیلا Queen Sibylla کے پاس کوئی قابل قدر ملٹری کمانڈر موجود نہیں تھا ۔ جو سلطان کا مقابلہ کر سکتا ۔ شہر میں گنتی کے چند محافظین تھے باقی سب عام شہری تھے جنہیں جنگ کا کوئی تجربہ نہ تھا ۔ ملکہ سبیلا یروشلم کے شہنشاہ بالڈون چہارم کی بہن اور بالڈون پنجم کی ماں تھی ۔ شہنشاہ بالڈون چہارم گوڈفری کے بھائی بالڈون اول کی اولاد سے تھا ۔ گوڈ فری پہلی صلیبی جنگ کے بعد ۱۱۹۹ء میں یروشلم کا پہلا حکمران بنا تھا ۔ اور چونکہ وہ بے اولاد تھا اس لئے 1100ء میں اس کی وفات کے بعد اس کا بھائی بالڈون اول یروشلم کا دوسرا بادشاہ بن گیا تھا۔ چوبیس سالہ بالڈون چہارم کو Baldwin IV the Leper کوڑھی شہنشاہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کا انتقال کوڑھ (Leprosy) کی وجہ سے ہوا تھا ۔ بالڈون چہارم جب اپنے باپ املریک اول کے بعد تیرہ سال کی عمر میں ۱۱۷۴ء میں یروشلم کا بادشاہ بنا تو اس وقت وہ کوڑھ (جذام ) کے مرض میں مبتلا ہو چکا تھا اور اس کا چہرہ اور ہاتھ بری طرح اس بیماری کی وجہ سے متاثر تھے ۔ لیکن اپنی اس بیماری اور خراب صحت کے باوجود
۲۵ نومبر ۱۱۷۷ء کو جب سلطان صلاح الدین نے پہلی مرتبہ یروشلم پر حملہ کیا تو بالڈون چہارم نے کرک کے حکمران رینالڈ آف چیٹیلان کی مدد سے جنگ مونتگیسارد Battle of Montgisard ‎میں سلطان کو شکست دی تھی ۔مسلمان اس جنگ کو تل الجزر کی جنگ کے نام سے یاد کرتے ہیں یہ جنگ رملہ کے قریب ایک پہاڑی تل الجزر کی دو گھاٹیوں کے درمیان لڑی گئی تھی ۔ اگست ۱۱۸۲ء میں اس نے ایک بار پھر Battle of Belvoir Castle ‎معرکہ کوکب الهوامیں سلطان کو شکست دی ۔ ۱۱۸۲ء میں ہی اس نے تین سال کے لئے سلطان سے امن کا معاہدہ کیا ۔ لیکن اسی دوران کوڑھ کے مرض نے شدت پکڑی جس میں اس کی دائیں آنکھ کی بینائی جاتی رہی ، دونوں ہاتھوں کی انگلیاں گل کر گر گئیں اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا۔

نیوز بولڈ نے اپنی کتاب The Crusaders in the Red Sea and the Sudan" میں بیان کیا ہے کہ مارچ ۱۱۸۲ء میں کرک کے ٹمپلر اور شدت پسند حکمران رینالڈ آف چیٹلان نے امن معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خلیج عقبہ کی بندرگاہ عقبہ پر قبضہ کر لیا اور پھر بحری بیڑے کے ذریعے بحیرہ احمر کی جانب سے مکہ اور مدینہ پر چڑھائی کی تو سلطان نے رینالڈ کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی قسم کھائی اور اسے سزا دینے کے لئے ۴ نومبر ۱۱۸۳ء میں کرک کا محاصرہ کر لیا ۔ جس پر بالڈون چہارم پالکی میں بیٹھ کر سلطان سے مقابلے کے لئے کرک پہنچ گیا جہاں اس نے میدان جنگ میں سلطان سے ملاقات کرنے کے بعد سلطان سے معذرت کی اور معاہدے کی خلاف ورزی پر رینالڈ کو سزا کے طور پر معطل کر کے قید خانے میں ڈال دیا ۔ ‎ مشہور تاریخ نگار ولئیم آف ٹائر جو آٹھ سال تک بالڈون ون کا اتالیق رہا تھا اس نے بڑی تفصیل سے بالڈون چہارم کی بہادری اور جواں مردی کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جب تک بالڈون زندہ رہا اس کا حوصلہ جوان رہا اس نے شدید بیماری اور اپاہجی کے باوجود یروشلم کا بھرپور دفاع کیا سلطان کی پیش قدمی کئی بار روکی کئی بار اسے شکست دی اور اسے کبھی یروشلم کی طرف بڑھنے نہ دیا ۔ ۱۱۸۵ء میں بالڈون چہارم کا انتقال ہوا۔ ‎تو اسے گوڈفری اور بالڈون اول کے ساتھ کلیسائے مقبرہ مقدس Church of the Holy Sepulchre میں دفن کیا گیا جہاں
‎عیسائیوں کی روایات کے مطابق حضرت عیسٰی زندہ ہونے سے پہلے تین دن تک دفن رہے تھے اور یہ عیسائیوں کا مقدس ترین مقام تصور کیا جاتا ہے ۔

‎بالڈون چہارم نے کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی تھی لہٰذا اس کی جگہ اس کا بھانجا اور بیوہ بہن سبیلا کا بیٹا بالڈون پنجم آٹھ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا لیکن اگلے ہی سال ۱۱۷٦ء میں وہ بھی کوڑھ کے مرض کی وجہ سے عکہ میں انتقال کر گیا۔ اسے بھی یروشلم لا کر حضرت عیسٰی کے مقدس چرچ میں دفن کیا گیا جہاں اس سے پہلے یروشلم کی صلیبی سلطنت کے پہلے چھ شہنشاہ دفن تھے ۔ بالڈون ساتواں اور آخری شہنشاہ تھا جسے یہ اعزاز نصیب ہوا ۔ ہملٹن نے لکھاہے کہ یروشلم کے سات صلیبی شہنشاہوں کے یہ مقبرے حضرت عیسٰی کے چرچ میں ۱۸۰۸ء تک موجود تھے جب ایک آگ نے انہیں تباہ کر دیا ۔ جب میں اس چرچ کی زیارت کے لئے گیا تو وہاں ایک زیر زمین کمرے میں صرف ایک تختی لگی دیکھی جس پر لکھا تھا کہ یہاں پہلے سات صلیبی حکمرانوں کے مزار تھے ۔ ان کے ساتھ ہی ایک طرف کبھی عیسائی روایات کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کا مزار بھی ہوا کرتا تھا جو اس آگ کے نتیجے میں ان صلیبی شہنشاہوں کے مزاروں کے ساتھ ہی جل کر خاکستر ہو گیا تھا ۔

‎بالڈون پنجم کی موت کے بعد اس کی ماں سبیلا ملکہ بن گئی ۔ ملکہ سبیلا نے ٹمپلرز نائٹس کے سردار گئی لوزینیان سے دوسری شادی کی تھی اور یوں گئی اپنی بیوی کے نام پر یروشلم میں حکومت کرنے لگا تھا ۔ کسی بڑے کمانڈر کی موجودگی کے بغیر بظاہر یتیم نظر آنے والا ‎یروشلم پلیٹ میں رکھا ہوا ترنوالہ محسوس ہوتا تھا یوں لگتا تھا جیسے اب یروشلم کی فتح بس چند دنوں کی مار ہو زمینی حقائق اور قرآئن ایسے تھے کہ سلطان کی فتح یقینی نظر آتی تھی ۔ لیکن یہاں سلطان کی رحمدلی ہی اس کے لئے مصیبت بن گئی ۔ سلطنت یروشلم کی ایک طاقتور اور بڑی جاگیر ابلین (جافا ) Ibelin کا جاگیردار بیلین Balian جو بیلین آف ابلین کہلاتا تھا ۔جنگ حطین میں شریک تھا اور گرفتار بھی ہواتھا لیکن شکست کے بعد جب سلطان نے اسے رہا کیا تو وہ ٹائر ( صور) چلا گیا لیکن اس کے بیوی بچے یروشلم میں تھے چنانچہ اس نے سلطان کی خدمت میں درخواست کی کہ اسے یروشلم جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں کو وہاں سے نکال سکے۔ سلطان نے اسے اس شرط پر اجازت دے دی ۔ کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا ۔ اور صرف ایک رات یروشلم میں قیام کے بعد اپنے بیوی بچوں کو لے کر وہاں سے نکل جائے گا ۔ بیلین آف ابلین جب یروشلم پہنچا تو یروشلم کے بڑے پادری اور بطریق اعظم هراکلیوس اورشلیم Eraclius نے بیلین کو ورغلا کر یروشلم کے دفاع کی ذمہ داری پر یہ کہہ کر راضی کر لیا کہ وہ اسے سلطان سے کئے ہوئے وعدے سے آزاد کرتا ہے ہراکلیوس کا کہنا تھا کہ ایک کافر سے کئے ہوئے وعدے کو توڑنا چھوٹا گناہ ہے لیکن کلیسا کی حفاظت سے منہ موڑنا بڑا گناہ ہے اس نے بیلین کو یقین دلایا کہ وہ خداوندا سے اس کی سفارش کرے گا اور اس وعدہ خلافی پر خداوند اس سے ناراض نہیں ہو گا بلکہ اس کے سارے گناہ معاف کر دے گا ۔

بیلین اس کے بہکاوے میں آگیا اور اس نے سلطان کو پیغام بھیجا کہ شہر کے لوگوں اور بطریق اعظم کے اصرار پر وہ سلطان سے کیا ہوا اپنا عہد توڑ رہا ہے اور سلطان سے جنگ کرنے پر مجبور ہے ۔ لیکن وہ اس کے بیوی بچوں کا ٹائر جانے کی اجازت دے۔ ابن شداد نے لکھا ہے کہ سلطان نے بہادر دشمن کی طرح اس کا یہ عذر بھی قبول کیا اور اس کا چلینج بھی ۔ بیلین کی بیوی ماریہ کومنین اور تین بچوں کو نہ صرف عزت سے اپنے پاس ٹھہرایا ۔ انہیں کپڑے اور تحائف دئیے بلکہ زاد راہ دینے کے ساتھ پچاس گھڑ سواروں کے دستے کی حفاظت میں ان کو ٹائر بھجوا دیا ۔ لیکن اسے اپنی اس رحمدلی کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی ۔ بیوی بچوں کو ٹائر بھیجنے کے بعد بیلین نے بے فکر ہو کر روشلم میں موجود فوجوں کی کمان سنبھال لی ۔ وہ ایک بہت بہادر اور جرآت مند اور بڑی اچھی شہرت کا مالک کمانڈر تھا ۔ فلسطین کی عیسائی دنیا میں اسے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ اس کی موجودگی میں یروشلم شہر جو پہلے صرف ایک دن کی مار محسوس ہوتا تھا ناقابل شکست لگنے لگا۔ الجزری نے لکھا ہے کہ بیلین کی موجودگی نے شہر کے عام لوگوں کے حوصلے اتنے بلند کر دئیے کہ شہر کا ہر عام شہری بھی سپاہی اور نائٹس بن کر دفاع کے لئے جان لڑانے کے لئے تیارتھا ۔انہیں یقین ہوگیا کہ مقدس مریم نے یروشلم کی حفاظت کے لئے اسےبھیجا ہے۔

سلطان جب چار دن کے محاصرے اور ہر ممکن کوشش کے باوجود شہر فتح نہ کر سکا تو اس نے ۲۵ ستمبر کے دن شہر کی مغربی سمت سے محاصرہ اٹھاکر مشرقی جانب سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ کیونکہ اسے خبر ملی تھی کہ مشرقی دیوار بہت کمزور ہے ۔ شام کاوقت تھا ڈوبتے سورج کی روشنی میں سلطان کی فوجوں کو محاصرہ ختم کر کے جاتا دیکھ کر شہرکے محصور لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہ یہ سمجھے کہ سلطان مایوس ہو کر واپس چلا گیا ہے ۔ وہ ساری رات شہر کی گلیوں میں جشن مناتے رہے اور چرچوں میں خدا کا شکر ادا کرتے رہے ساری رات کلیساؤں کی گھنٹیاں بجتی رہیں ۔ لیکن ۲٦ستمبر کی صبح کے وقت ان کی ساری خوشیاں ماتم میں بدل گئیں جب انہوں نے طلوع ہوتے سورج کی شعاعوں میں سلطان کا خیمہ جبل زیتون پر نصب دیکھا ۔ جس پر اس کا پرچم لہرا رہا تھا اور اس سے آگے وادی قیدرون میں سلطان کی فوج اپنی منجبیقوں کے ساتھ حملے کے لئے تیار کھڑی تھی ۔یہ جمعے کا دن تھا اور سلطان نے ہمیشہ کی طرح اپنے اس نئے حملے کے لئے بھی جمعہ کے دن کا ہی انتخاب کیا تھا ۔

اب سلطان نے مشرقی دیوار کی جانب سے حملے شروع کر دئیے ۔ سلطان کو اپنی رحمدلی کی بڑی قیمت چکانی پڑ رہی تھی ۔ نو دن کی شدید جنگ اور ہزاروں سپاہیوں کی جان کی قربانی دینے کے بعد دسویں دن یکم اکتوبر کو آخر کار اس کی منجبیقوں نے گولڈن گیٹ سے ملحقہ دیوار میں شگاف ڈال دئیے لیکن شہرکے لوگوں نے سلطان کی فوجوں کا شہر میں داخلہ روک دیا ۔ اس شگاف پر اتنی گھمسان کی جنگ ہوئی کہ یہ علاقہ لاشوں سے پٹ گیا ۔ سارا دن مسلمان فوجیں شہر فتح کرنے میں ناکام رہیں ۔ رات ہوئی تو سلطان نے جنگ بند کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہ دوسرے دن سورج کی روشنی میں دوبارہ بھرپور حملہ کرنا چاہتا تھا ۔ ایوبی فوجیں اپنے مرکز کی طرف لوٹ آئیں ۔ دیوار میں پڑنے والے اس شگاف نے شہر کے محصور لوگوں اور بیلین کو یقین دلا دیا کہ اب وہ زیادہ دیر اس شہر کا دفاع نہیں کر پائیں گے چنانچہ پو پھٹنے سے پہلے ہی بیلین اپنے چند سرداروں کے ساتھ صلح اور ہتھیار ڈالنے کی درخواست لے کر سلطان ایوبی کی خدمت میں حاضر ہوگیا سلطان نے عزت کے ساتھ اپنے خیمہ میں ان کا استقبال کیا اور لیکن ساتھ ہی دیوار پر دوبارہ حملے کا حکم بھی دے دیا ۔

شہر کے لوگوں نے پھر بھر پور دفاع کیا ۔ دیوار پر قبضے کے لئے جاری اس جنگ کے دوران ہی مزاکرات بھی چلتے رہے آخر تیرہ دن کے محاصرے اور شدید لڑائی کے بعد سلطان اور بیلین آف ابلین کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوہی گیا جس کی رو سے شہر کے تمام شہریوں کو تاوان کے عوض شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی انہیں ان کی جان و مال اور عزت کی بھی امان دی گئی ۔ ولئیم آف ٹائر ، ہیرلڈ لیمب ، ولئیم آف نیو برگ ، لین پول اور سٹیون رونسیمین سمیت تقریباً تمام ہی مغربی تاریخ دانوں متفق ہیں کہ سلطان شہریوں کو امان دینے کے لئے تیار نہیں تھا ۔ لیکن بیلین آف ابلین نے اسے دھمکی دی کہ اگر شہریوں کو امان نہ دی گئی تو وہ پورے شہر کو تباہ کردے گا مسجد اقصٰی اور قبةالصخرہ کو ملیامیٹ کر دے گا اور شہر کے پانچ ہزار مسلمانوں کو جنہیں اس نے یرغمال بنا رکھا تھا انہیں قتل کر دے گا ۔

شہر کے لوگ اپنے بیوی بچوں اور عورتوں کوقتل کر کے ایوبی لشکر پر حملہ آور ہوں گے اور آخری سانس تک شہر کا دفاع کریں گے ۔ جس پر سلطان نے مجبور ہو کر امن کا معاہدہ کر لیا اور شہریوں کو جان ومال کی امان دی لیکن ابن شداد ، عماد الدین اصفہانی اور دیگر چشم دید گواہوں کے مطابق جب بیلین آف ابلین بطریق اعظم ہراکلیوس کے ہمراہ جبل زیتون پر سلطان کے خیمے میں مذاکرات کر رہا تھا اس وقت تک سلطان کے دستے دیوار میں ڈالے گئے شگاف کے ذریعے شہر میں داخل ہو کر شہر پر قبضہ کر چکے تھے اور شہریوں کو امان اس نے بیلین کی دھمکی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی روائتی رحمدلی کی بناء پر دی تھی ۔ بہرحال وجہ کوئی بھی ہو ایسی پرامن فتح تاریخ کے اوراق پر کم کم ہی رقم ہے ۔

شہر کے لوگ اپنا تمام مال واسباب گھوڑا گاڑیوں ، گدھوں اور اونٹوں پر لاد کر شہر سے اس طرح بحفاظت نکلے کہ کسی ایک بھی شخص کی جان نہ گئی اور نہ ہی خون کی کوئی بوند زمین پر گری ۔ چشم فلک نے ایسا نظارہ کم ہی دیکھا تھا ۔ فتح مکہ کے بعد یروشلم شہر کی فتح کا یہ منظر ہمیشہ کے لئے تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہو گیا ۔ اٹھاسی سال پہلے جب صلیبیوں نے یروشلم شہر فتح کیا تھا تو بربریت اور درندگی کی وہ کہانیاں رقم کی تھیں کہ عیسائی مؤرخین بھی اس پر شرما جاتے ہیں ۔مغربی تاریخ نگاروں کے مطابق اس دن یروشلم کی گلیوں میں مسلمانوں کا اتنا خون بہا تھا کہ گھوڑوں کے ٹخنوں تک خون تھا ۔ یروشلم کی گلیاں خون سے بھر گئیں تھیں ستر ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا۔ ننھے بچوں کے جسموں کو نیزوں پر انی پر پرو کر ان کی نمائش کی گئی تھی ۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے غیر مولود بچوں کو پیروں اور گھوڑوں کی سموں تلے کچلا گیا تھا ۔ اسی شہر نے یہ منظر بھی دیکھا کہ سلطان نے فدیہ لے کر تمام گرفتار شدگان کی رہائی کا حکم دیا اور جو غریب فدیہ دینے کے قابل نہ تھے ان کا فدیہ خود ادا کرکے انہیں رہا کردیا۔ سلطان کے حکم کے مطابق ہر عیسائی مرد دس اشرفی ( دینار) عورت پانچ اشرفی اور بچہ ایک اشرفی زر فدیہ ادا کر کے شہر سے نکل سکتا تھا ۔ یروشلم کے ہر شہری کو اختیار دیا کہ اگر وہ یروشلم میں نہ رہنا چاہے تو جہاں جانا چاہے چلا جائےاور جو جی چاہے ساتھ لے جائے ۔ ابن شداد کی تحریر کے مطابق شہر سے نکلنے والے سب سے پہلے قافلے میں یروشلم کا بڑا پادری هراکلیوس بھی تھا جس نے شہر کے سارے کلیساؤں سے سونے چاندی کے شمع دان پیالے ، فانوس اور دیگر قیمتی اشیاء کو اکٹھا کیا اور انہیں گدھوں پر لاد کر شہر سے نکل گیا۔ اس سامان کی مالیت اتنی زیادہ تھی کہ کئی ہزار عیسائیوں کا زر فدیہ اداکیا جا سکتا تھا لیکن وہ صرف اپنے دس دینار دے کر شہر سے نکل گیا ۔ اسے اس قدر زیادہ قیمتی اشیاء اور مال واسباب کے ساتھ جاتے دیکھ کر کچھ سالاروں نے سلطان کی توجہ اس طرف مبذول کروائی اور زور دیا کہ اسے روکا جائے لیکن اس نے جواب دیا کہ “میں زبان دے چکا ہوں ۔اگر اس نے فدیہ اداکر دیا ہے تو اسے نہ روکا جائے ۔ “ ولئیم آف ٹائر نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے اٹھارہ ہزار شہریوں کا زرفدیہ ادا کرکے انہیں رہا کروایا تھا ۔

مؤرخ جانتھن فلپس نے سلطان صلاح الدین کی زندگی پر اپنی کتاب 'دی لائف اینڈ لیجنڈ آف سلطان سلاڈن (صلاح الدین)' میں لکھا ہے کہ یروشلم کے مسیحی شہریوں کو کچھ ایسا دیکھنے کو نہیں ملا جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ مسلمانوں کے محاصرے کے دوران یروشلم کی خواتین نے اپنے بال کٹوا دیے تھے کہ وہ فاتح فوج کے سپاہیوں کی نظروں میں نہ آئیں لیکن فلپس لکھتے ہیں کہ فتح اور یروشلم پر قبضے مکمل کرنے کا مرحلہ طے کرنے کے بعد سلطان صلاح الدین نے خاص طور پر عورتوں کے معاملے میں رحم دلی کا مظاہرہ کیا جس کے لیے وہ مشہور تھے۔۔۔سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ ان کا یہ جذبہ سچا تھا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی تھا۔ وہ ان کو فروخت کر سکتے تھے یا اپنے فوجیوں کے حوالے کر سکتے تھے۔ یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہر اس اندازے کو غلط ثابت کیا جو شاید ماضی میں اس شہر میں ہونے والے واقعات کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں انھیں اپنے زمانے میں'خون کا پیاسا' اور 'شیطان کی اولاد!' کہا گیا تھا، وہاں 20 ویں اور 21 ویں صدی میں ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔

شہر سے نکلنے والے آخری قافلے میں بیلین اور ملکہ سبیلا شامل تھیں ۔ اس نے یروشلم کے خزانے سے ایک لاکھ اشرفیاں دے کر دس ہزار عیسائیوں کو آزاد کروایا تھا ۔ سلطان نے نہ صرف ملکہ کو آزاد کر دیا تھا بلکہ اسے اپنے خاوند گئی آف لوزیان سے ملاقات کی اجازت بھی دے دی تھی جو دمشق کے قید خانے میں قید تھا ۔
اس دور میں یہ رواج عام تھا کہ مفتوحہ شہر کو فاتح فوج بری طرح لوٹ لیا کرتی تھی ۔ شہر میں تین روز تک لوٹ مار کرنے اور شہریوں کو غلام بنانے کا انہیں پورا پورا حق حاصل ہوتا تھا لیکن چشم فلک نے پہلی بار دیکھا کہ سلطان ایوبی کی فوج اور مسلمان تاجروں نے عیسائیوں کے گھروں کا سامان خریدا تاکہ وہ زرفدیہ دینے کے قابل ہو جائیں ۔ اس طرح وہ عیسائی بھی آزاد ہو گئے جو فدیہ دینے کے قابل نہیں تھے۔

سلطان ایوبی نے زر فدیہ اداکرنے کے لئے چالیس دن کی میعاد مقرر کی تھی ۔ چالیس دن پورے ہو گئے تو ابھی بھی ہزاروں عیسائی شہر میں موجود تھے ۔ اس پر سلطان کا بھائی العادل سلطان کے پاس آیا اور عرض کی کہ اس شہر کی فتح میں میرا بھی حصہ ہے اس لئے اس کے عوض مجھے ایک ہزار عیسائی غلاموں کا انعام دیا جائے ۔سلطان نے اسے ایک ہزار عیسائی بطور غلام دے دئیے ۔ العادل نے باب داؤد پر جاکر انہیں آزاد کر دیا اور واپس آکر سلطان سے کہا کہ میں نے وہ غلام آزاد کر دیے ہیں۔ جس پر سلطان نے جواب دیا کہ میں جانتا تھا کہ تم ایسا ہی کرو گے۔ ورنہ میں تمہیں اتنے غلام کبھی نہ دیتا ۔ اللہ تمہاری نیکی قبول کرے۔
یہ واقعات محض افسانے نہیں ہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جو ابن شداد کے علاوہ تقریباً تمام مغربی اور مسلمان مؤرخین نے بھی بیان کیے ہیں۔ ہیرلڈ لیمب نے لکھا ہے کہ ” عیسائی عورتوں کا ایک گروپ سلطان کے پاس آیا ۔پتہ چلا کہ یہ ان صلیبی فوجیوں کی بیویاں بیٹیاں اور بہنیں ہیں جو مارے گئے یا قید میں ہیں ۔اور ان کے پاس اپنی رہائی کے لئے دینے کو زر فدیہ نہیں ہے ۔ سلطان نے نہ صرف سب کو رہا کر دیا بلکہ انہیں راہ سفر کے لئے اپنی جیب سے پیسے دے کر رخصت کیا ۔ اس کے بعد اس نے عام حکم جاری کر دیا کہ تمام عیسائیوں کو جو شہر میں رہ گئے ہیں ان کا زر فدیہ معاف کر کے رہا کر دیا جائے ۔ صلیبیوں کے صرف فوجی اور نائٹس ہی قید رہے۔“

بارٹلیٹ نے اپنی کتاب میں ٹائر اور ٹریپولی کے صلیبی حکمرانوں پر شدید تنقید کی ہے کہ یروشلم سے نکلنے کے بعد جب یروشلم کے بے یارومدگار شہری ٹائر پہنچے تو وہاں کے حکمران کونارڈ آف مونٹفریٹ نے صرف ان شہریوں کو ٹائر میں داخل ہونے کی اجازت دی جو جنگی خدمات سرانجام دے سکتے تھے باقی بوڑھے عورتیں اور بچے مجبوراً دھکے کھاتے ٹریپولی پہنچے تو وہاں بھی انہیں قبول کرنے سے انکار کیا گیا جس پر اانطاکیہ کی صلیبی ریاست نے انہیں پناہ دی ۔ اور کچھ بحری جہازوں پر بیٹھ کر اٹلی اور یورپ چلے گئے ۔

یہ مضمون میری انے والی کتاب ” اہل وفا کی بستی کا “ میں شامل ہے