کیا اسلامی جمہوریت کا تجربہ ناکام ہو چکا؟- غلام اصغر ساجد

اسلامی جمہوریت کا خواب اور منصوبہ کسی دینی و مذہبی جماعت کی کوششوں سے پاکستان کے ساتھ نتھی نہیں ہوگیا، اور نہ علامہ اقبالٌ یا قائد اعظم محمد علی جناحٌ کی ذہنی اختراح کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ چند بانیان کے ہاتھوں کر دیا گیا بلکہ یہ تحریک پاکستان کی اصل روح تھی، یہ مسلم جمہور تھی جو پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ کا نعرہ لگا رہی تھی، برصغیر کے طول و عرض میں ریفرنڈم ہوئے اور وہ اکثریت کی بنیاد پر پاکستان حاصل کر کے رہے، قیام پاکستان کے بعد یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہاں کوئی اور نظام کار نافذ کیا جاتا، البتہ یہ سوال موجود تھا اور اسے بہترین طریقے اور اتفاق رائے سے حل کیا گیا کہ اسلام بطور نظام کس طرح چلے گا؟ اسلامی جمہوریت! جس میں اقتدار اعلیٰ (Paramountcy) کے تحت مسلمانوں کو ایک محدود عمومی حاکمیت (Limited Popular Sovereignity) عطا دی گئی ہے، اس میں انتظامیہ (Executive) اور مقّننہ (Legistlture) مسلمانوں کی رائے سے بنے گی، مسلمان ہی اس کو معزول کرنے کے مختار ہوں گے، سارے انتظامی امور جہاں شریعت کا صریح حکم موجود نہیں، مسلمانوں کے اجماع سے ہی طے ہوں گے، ہر وہ شخص تعبیر کا حق رکھے گا جس نے اجتہاد کی قابلیت و اہلیت بہم پہنچائی ہو مگر جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم موجود ہو وہاں کوئی مولوی، کوئی سربراہ، کوئی مقنّنہ، کوئی مجتہد، کوئی مذہبی اسکالر اور عالم دین بلکہ ساری دنیا کے مسلمان مل کر بھی اس حکم میں یکسر مو ترمیم کرنے کا حق نہیں رکھتےـ

کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، اسلامی جمہوریت بطور نظام، نفاذ شریعت میں ناکام ہو چکی ہے؟
قرار دادِ مقاصد نے پاکستان میں جمہوریت کی ہیت کو بدل دیا ہے، ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء کی یہ مشترکہ کوشش تھی جس کے بعد ریاست پاکستان پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو قبول کر لیا گیا اور اس کے احکامات کی تحت ملک کے نظام و نسق کو چلانے کا روڈ میپ پیش ہوا

آج 69 سال کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ قرارداد مقاصد اور جمہوریت کے ملاپ سے اسلامی جمہوریت کا جو نطفہ، ریاست کی کوکھ میں رکھ دیا گیا تھا وہ برگ و بار لانے میں اور ملک میں نفاذ شریعت میں ناکام ہو چکا ہے۔ نتیجتاً یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب بھولے دماغوں سے امیدوں کو نکال باہر کریں کہ یہ بچہ پیدا ہو گا اور اس ملک میں شرعی نظام نافذ ہو گا

دراصل سمجھ یہ لیا گیا ہے کہ کوئی بھی نظام چاہے وہ خلافت اسلامیہ ہو یا اسلامی جمہوریت ایک خود کار طریقے سے شریعت کا نفاذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خلافت اسلامیہ میں آپو آپ قوانین معاشرے پر لاگو ہو جائیں گے اور اگر اسلامی جمہوریت آئے تو ایسا ممکن نہیں ہو گا کہ شریعت، معاشرے پر نافذ ہو سکے۔ اگر خلافت اسلامیہ یا اسلامی جمہوریت ، خود کار نظام تسلیم کر لیے جائیں تو خلافت کا نظام چاہیے یاسر پیرزادہ اور محمد حنیف جیسے مسلمانوں کے ہاتھ چلے یا ملا عمرؒ اور ملا اختر منصور کے ہاتھ، شریعت کا نفاذ ہی ہوتا چلے گا اور اسلامی جمہوریت اگر نواز شریف یا عمران خان کے ہاتھ چلے یا سراج الحق اور فضل الرحمن کے اس سے شریعت کا نفاذ ممکن ہی نہیں۔ حالانکہ ایسا ممکن نہیں کہ ایک ہسپتال کا نظام، انجیئرنگ یونیورسٹی کے اساتذہ کا کوئی گروپ چلا سکے اور وہاں سے مریض دھڑا دھڑ شفا یاب ہو کر نکلنا شروع ہو جائیں اور نہ ایک اسکول کا نظام ڈاکٹرز کے کسی پینل کے ہاتھوں چل سکتا ہے اور وہاں سے ٹھیک ٹھیک ڈگریاں جاری ہونا شروع ہو جائیں

قرار دادِ مقاصد کی اساس کے ساتھ موجود آئین پاکستان تو کیا خود اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید خود کار صلاحیت نہیں رکھتی، اس کے فہم و تشریح کو سمجھنے سمجھانے والے کی اور اسے عملاً قبول والے کی ضرورت اسے ہمیشہ سے رہی ہے۔ خود ہر کتاب کے ساتھ رسول کا بھیجا جانا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ خدا کی شریعت، خودکار نہیں ہے۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ شریعت یا قرار داد مقاصد کی روشنی میں اس کو اس دور میں عملی شکل میں ڈھالنے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر ایک ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جو شریعت اسلامی اور اسلام کو نہ صرف سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہو بلکہ اس دور میں معاشرے پر نافذ کرنے کے لیے عملی صورت حال پیدا کرنے کی قابلیت اور صلاحیت بھی رکھتی ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *