حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے عرفتُ رَبِّی بِفَسخِ العزائم ۔ یعنی مجھے اپنے رب کی معرفت اس بات سے حاصل ہوئی کہ بڑے بڑے منصوبے فیل ہوگئے اور بنے بنائے کام بگڑ گئے۔ہمتوں کے ٹوٹتے،عقد کشا ہوتے اپنے رب کی معرفت ہوئی۔"
مولا کا یہ فرمان بار بار مجھے تنبیہ کرتا ہے۔میں بار بار اس فرمان پر غور کرتا ہوں ۔
کبھی رات کی تاریکی جب ہر سُو پھیل جاتی ہے۔تو میں تکیے پر سر رکھ کر سوچتا ہوں ۔کہ کہاں مستقبل کا پلان،فیوچر کےلیے تگ و دو ،خوابوں کو پانے کا جنون،مقصد میں کامیابی کا لگن،ایک طویل و لامتناہی خواہشوں کا سلسلہ جنہیں حاصل کرنے عمرِ عزیز کے حسِین لمحات کٹ چکے ہیں۔
اچھی تعلیم کے حصول کا سوچا ،گھر چھوڑا ،گاوں چھوڑا ،لنگوٹیا یاروں سے جدا ہوئی۔گاوں وہ خواب ہوتے گلیاں،وہ نہریں،وہ بل کھاتی نہریں،ڈھلتی شام ،نہیں معلوم اک خواب کی تکمیل کی خاطر کیا کیا نہیں چھوڑا۔
دیس سے پردیس ،پھر پردیس کی ہوا ایسی لگی کہ کب دیار غیر چھوڑ کر اپنوں سے آ ملوں گا۔
وقت بہت ظالم ہے۔رکتا کسی کےلیے نہیں ۔ادھر پلٹے برسوں نے سفر طے لیے۔
زندگی کیا ہے؟پیچ در پیچ کھٹن راہوں کا اک مجموعہ۔
اک پہاڑ جہاں سے واپسی کا راستہ نہیں ۔
اک گھاٹی جہاں سے باہر نکلنا ممکن نہیں۔
اک چمن جہاں دوبارہ بہار کی امید نہیں ۔
لوگوں کا کیا؟اک دوسرے سے آگے جانے کا نشہ
محبت،احساس،جذبات،ہمدردی تو کتابوں میں رہ گئے۔
یہ تو صرف الفاظ ہیں۔انہیں ڈھونڈنے نکلیں تو شاید آب حیات مل جاے مگر محبت کہاں ملتی ہے۔احساس کی قدر ،جذبات کی اہمیت؟
جسم اک مشین جہاں سینے میں دل نہیں پتھر ہوتا ہے۔
میں اک شاعر ،حسّاس کتابی بندہ،جو لفظوں کی چاشنی ،جملوں کی خوبصورتی ،شعروں کی فنی باریکی ،جذبات کی فراوانی،احساس کی قدر دانی پر مرنے والا،ہلکی سی بے رخی پر ٹوٹ کر بکھرنے والا اس دنیا میں کیسے جیوں؟
خوبصورت آواز کی صدائیں سُن کر سینے میں موجود دل دھڑکنے والا شاعرِ آوارہ مزاج،سیماب طبیعت،پراکندہ خیالات ،لفظوں کا اک ہجوم آنکھوں کے سامنے رقصاں ہو کر اک غزل کی تکمیل میں ،اک تحریر کی خوبصورتی کےلیے آمادہ کار ہوتے ہیں۔
ہمیں احساس لکھنے کا نشہ ہے۔لیکن ہماری مجبوری ہے ہم احساس ،جذبات کو اصل قالب و کیفیت میں نہیں دیکھا سکتے اسی لیے لفظوں کا جامہ پہنا کر صفحہ قرطاس پر یا سینہِ قرطاس پر موتیوں کے شکل میں بکھیر دیتے ہیں۔لیکن اس عہدِ ناہنجار میں ان موتیوں کو چننے والے کہاں پاوں تلے روند دیتے ہیں۔
ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں خوابوں کو بیچنے کے علاوہ دیکھنا ممکن نہیں۔
جہاں احساسات و جذبات روپے پیسوں میں خرید لیتے ہیں۔اک تصنع بھری زندگی۔
تبصرہ لکھیے