"!سلام اے محسنِ وطن، سلام"
28 مئی 1998 ٹھیک ساڑھے تین بجے ڈسٹرکٹ چاغی کا آسمان ساکن اور زمین سہمی ہوئی تھی۔ جیسے قدرت بھی کسی انقلابی لمحے کی منتظر ہو- اور کچھ ہی لمحوں میں وہ خاموشی ایک ایسی گرج میں بدل گئی جس سے چاغی کا سنگلاخ پہاڑ لرز کر ریزہ ریزہ ہو گیا۔ کتنے ہی متکبر بت اوندھے منہ گر پڑے۔ مشرک دشمن کا غرور خاک میں مل گیا اور غداروں کے خواب چکنا چور ہو گئے۔
پاکستان نے بین الاقوامی دباؤ، دھمکیوں اور پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر ایک نہیں بلکہ 6 ایٹمی دھماکوں کی گونج پوری دنیا کو سنائی۔ پاکستان کی غیور قوم کی پیشانیوں پر ایک بار پھر فاتحانہ چمک پیدا ہو گئی۔ اس سے پہلے بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے اور ابھی اس کا نشہ اترا بھی نہ تھا کہ پاکستان نے 6 ایٹمی دھماکے کر کے دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچا دی اور اسے اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن، لمحوں میں حاصل کردہ فیصلہ کن فتح کے پیچھے سالوں کی انتھک محنت اور کاوش تھی ۔
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
اقبال کے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے والے شاید گنتی کے کچھ ہی افراد نکلے۔ ان میں ایک نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا "ڈاکٹر عبدالقدیر خان" . اس عظیم ہستی نے اپنے کیریئر کی چمک، دنیا کی دولت اور شہرت کو خیر آباد کہہ کر اپنے وطن کی پکار پر لبیک کہا۔ ایک عظیم مشن کو اپنا مقصد حیات بنایا اور وہ مشن تھا پاکستان کو ایک مضبوط ایٹمی قوت بنانا۔ وہ ایک ایسا ایٹمی سائنس دان تھا جس کا دل پاکستان کی ہمیت کے لیے دھڑکتا تھا۔ جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا چاہتا تھا۔
یہ پورب، یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سفر کہوٹہ کی ایک چھوٹی سی لیبارٹری سے شروع ہوا، جس نے 1998 میں چاغی کے پہاڑوں کو لرزا کر رکھ دیا۔ اُس دن صرف ایک سائنس دان کی کامیابی نہیں تھی . وہ دن پاکستانی قوم کی خودی، غیرت اور بقاء کا اعلان تھا۔ اور اس اعلان کے پیچھے، ایک شخص کا نام جگمگا رہا تھا: ڈاکٹرعبدالقدیر خان !
لیکن یہ ریاست بھی عجیب ہے جو اپنے دشمنوں کو معاف کر دیتی ہے اور اپنے محسنوں کو رسوا کرتی ہے۔ 2004 میں عالمی دباؤ میں آ کر اپنے ہی ہیرو پر الزامات لگائے، زبردستی اعتراف جرم کروایا اور نظر بند کر دیا۔ ایک ایسا ہیرو، جس نے قوم کو عزت دلوائی لیکن خود اُسّے عزت سے محروم کر دیا گیا۔ جب وہ دنیا سے رخصت ہوا تو اُس کا جنازہ تنہا تھا ۔ نہ صدر مملکت، نہ وزیراعظم اور نہ آرمی چیف ....
اُس روز فیصل مسجد میں ہزاروں عاشقانِ وطن تو آئے، مگر وہ لوگ جن کی زبانوں پر قوم، عزت، غیرت اور شہداء کے نعرے ہوتے تھے، کہیں منہ چھپا کر پڑے تھے۔ اس جنازے نے پوری قوم کا ضمیر جھنجھوڑا، مگر شاید اُس وقت کی ریاست نے اپنا ضمیر دفنا دیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان تم جا چکے ہو، لیکن تمہاری خودداری، تمہارا حوصلہ، تمہارا عشقِ وطن آج بھی زندہ ہے۔ تمہارا جنازہ اگرچہ تنہا تھا، لیکن تمہاری خدمات پوری قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔تم نے جو چراغ جلایا تھا، ہم وہ بجھنے نہیں دیں گے۔ ہم شرمندہ ہیں، لیکن تمہاری قربانی ہماری نسلیں یاد رکھیں گی۔
"سلام اے محسنِ وطن، سلام!"
تبصرہ لکھیے