ہوم << الفاظ اور ہم - بنت سعید

الفاظ اور ہم - بنت سعید

ان دنوں مجھے بہت اداسی محسوس ہو رہی تھی تو جیسا کہ میں نے سوچا کیوں نہ کسی اپنے سے کچھ گھنٹوں کی رفاقت ادھار لی جائے۔اس میں مناسب یہ تھا کہ میں اپنی کچھ دیرینہ سہیلیوں کو دعوت پر مدعو کروں۔اس سے نہ صرف وقت اچھا گزر جاتا بلکہ پرانے وقتوں کے قصے بھی دہرائے جاتے ہیں۔

سب نے میری اس پیشکش کو کھلے دل سے وصول کیاکیونکہ بچوں والی ماں اور ایک بیوی اور ایک بہو کیلئے گھر سے نکلنا آسان نہیں ہے. ہمیں اس کے لیے ہفتوں درکار ہیں کہ کسی بھی پروگرام کو اسکے انجام تک پہنچایا جائےاور جب بات اپنی ذات کی خوشی کی ہو تو پھر تو بہت سے واہمے خود کو لپیٹ لیتے ھیں کہ کہیں کوئی غلطی نہیں کر رہے. کوئی کام ادھورا تو نہیں رہ گیا کہ کہیں بچوں کو نظرانداز تو نہیں کر رہا. میرا تھوڑا سا وہ وقت جو میں اپنے ذہنی سکون کے لیے نکالنا چاہتی ہوں حالانکہ یہ دعوت بچوں کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ خیر سب کے مسائل سلجھانے کے بعد ایک دن متفقہ طور پر طے پا گیا۔

یہ ایک بہت اچھا دن تھا سب ایک دوسرے سے مل کر نہ صرف محظوظ ہوئے بلکہ بچوں نے بھی خوب ادھم مچایا مگر دوران محفل جب کھانا کھانے لگے تو حسب عادت سب ماؤں نے ضروری سمجھا کہ پہلے بچوں کو سیر کروائی جائے۔اب کیوں کہ ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہے اسلیے ان کے کھانے پینے کے معامعلات بھی ایک جسے نہیں ہوتے ایسے میں ایک عزیزہ جنکا بچہ انکو کھاتے میں بہت تنگ کر رہا تھا دوسری عزیزہ سے جو انکے پاس بیٹھی تھیں اور غالباً انکا بیٹا آرام سے کھا رہا تھا ان سے گوش گزار ہوئی:
"آپ اچھی ہیں آپکا بچہ کتنے مزے سے کھا رہا ہے " ،وہ تھوڑی ہچکچاتے ہوئے بولی، "جی بس کھا لیتا۔"

ایسا ہی تب بھی ہوا جب کسی نے کھیلتی ہوئی کسی کی بچی کی ماں کو کہا کہ :
"آپکے تو مزے ہیں جی نہ بچی تنگ کرتی ہے نہ کچھ کہتی ھے"، حا لانکہ ابھی کچھ وقت پہلے وہ بچی اپنی اماں کو خوب تنگ کرتی پائی گئی تھی۔ ایسا کچھ میں نے تب بھی دیکھا جب ایک سالگرہ کے موقعے پر کچھ بچے بہت ادھم مچا رہے تھے تو ایک ماں نے کچھ ایسے تنبیہ کرتے ہوئے اپنے بچے کو منع کیا کہ :
"مت کرو یہ آپکا گھر نہیں ہے جہاں تم ایسے شرارتیں کرو۔

ان سب باتوں کی طرف آپکی توجہ مبذول کرانے کا مقصد یہ ہے کہ محفل میں آنے بیٹھنے اور الفاظ کو استعمال کرنے کے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں۔وہ بھی تب جب آپ ایک ماں سے مخاطب ہیں۔ یہ بہت چند ایک جملے ہیں جو عام سے لگتے ہوں گے مگر اخلاقیات میں انکے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں۔ کسی کی وقعتی صورتحال اصل میں روزمرہ کے حالات کی عکاس نہیں ہوتی۔ کسی بھی بچےکی ماں اسکی پرورش میں کتنی خوش قسمت ہے یہ آپکے بتانے پہ منحصر نہیں ہے۔ ایک اور بات جو میں نے آخر میں لکھی کہ کیا ہم اپنے بچوں کو صرف دوسروں کو دیکھانے کیلئے غلط بات سے منع کریں گے۔

یعنی کہ بچے اپنے گھر میں سب کر سکتے ہیں یہ تربیت کا کون سا اصول ہے اچھی بات تو انسان گھر سے سیکھتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ گھر میں غلط کر کہ باہر سب صحیح کرےگا۔ اولاد اللہ سبحان تعالٰی کی طرف سے ایک آزمائش ھے مگر اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ اپنے الفاظ کا چناؤ مناسب نہ کریں۔آپ اچھے برے میں فرق نہ کریں یہ سب وہ باتیں ہیں جواب خود پہلے سیکھ لیں گے تو آپ اپنے بچوں کو بھی سیکھا سکیں گے۔