تمہیدی کلمات
اگر زندگی کے صفحات کو پلٹ کر دیکھوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر موڑ پر کوئی نئی آزمائش، کوئی نئی منزل تھی۔ میں، سر سید احمد خان، ایک ایسے دور میں پیدا ہوا جب ہندوستان کی فضا پر انگریزوں کا سایہ تھا مگر مسلمانوں کے دلوں میں ابھی تک مغلیہ تہذیب کی رمق باقی تھی۔ میرے بزرگوں نے دہلی کی شان دیکھی تھی اور میں نے اس کے زوال کو۔ یہی زوال میرے دل و دماغ پر حاوی رہا، اور اسی نے مجھے قوم کی بیداری کے لیے میدانِ عمل میں لا کھڑا کیا۔
خاندان اور ابتدائی زندگی
میرا جنم ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ء کو دہلی میں ہوا۔ ہمارا خاندان مغل دربار سے وابستہ رہا تھا۔ میرے والد، میر متقی اللہ خان، شاہ عالم ثانی کے دور میں صاحبِ منصب تھے۔ والدہ کا نام عزیز النساء تھا، جو انتہائی نیک اور دین دار خاتون تھیں۔ انھوں نے مجھے ابتدا ہی سے اسلامی اقدار اور علم کی اہمیت سے روشناس کرایا۔ بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق تھا۔ فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ بعد میں دہلی کے مشہور علماء سے منطق، فلسفہ، اور ریاضی کی تعلیم لی۔ اُس زمانے میں دہلی کالج (جو بعد میں اینگلو اورینٹل کالج بنا) علم و ادب کا مرکز تھا۔ وہاں کے ماحول نے مجھے جدید علوم سے متعارف کرایا۔
ملازمت اور عملی زندگی
۱۸۳۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں منصف کے عہدے پر فائز ہوا۔ میرے فرائض میں مختلف اضلاع میں عدالتی کام شامل تھا۔ اس دوران میں نے انگریزی حکومت کے نظام کو قریب سے دیکھا۔ مجھے احساس ہوا کہ مسلمانانِ ہند جدید تعلیم سے بے بہرہ ہیں، جس کی وجہ سے وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی نے ہندوستان کی تاریخ بدل دی۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوا اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ میں اس وقت بجنور میں تھا۔ جب خبر ملی کہ دہلی کے باشندوں کو بے دریغ قتل کیا جا رہا ہے تو دل خون کے آنسو رونے لگا۔ میں نے انگریز افسران کو مسلمانوں کی بے گناہی کے بارے میں لکھا مگر کسی نے سننے کی زحمت نہ کی۔
انگلستان کا سفر اور جدید خیالات
۱۸۶۹ء میں میں انگلستان گیا۔ وہاں کے تعلیمی نظام، علمی اداروں اورمعاشرتی ترقی نے مجھے حیران کر دیا۔ کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں کو دیکھ کر خیال آیا کہ کیوں نہ ہندوستان میں بھی ایسا ہی ادارہ قائم کیا جائے؟ وہاں رہ کر میں نے مغربی علوم کو سمجھا اور محسوس کیا کہ مسلمانوں کو جدید تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔
علی گڑھ تحریک کا آغاز
انگلستان سے واپسی پر میں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم دلوانے کا عزم کیا۔ ۱۸۷۵ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا) قائم کیا۔ میرا مقصد تھا کہ مسلمان نوجوانوں کو انگریزی تعلیم دے کر سرکاری ملازمتوں کے قابل بنایا جائے تاکہ وہ قوم کی قیادت کر سکیں۔ کچھ لوگوں نے مخالفت کی کہ یہ کالج اسلامی اقدار کے خلاف ہے مگر میں نے واضح کیا کہ “دین اور دنیا دونوں کی تعلیم ضروری ہے۔” میں چاہتا تھا کہ مسلمان جدید علوم سیکھیں، مگر اپنے ایمان اور تہذیب سے بھی جڑے رہیں۔
ادبی خدمات
میں نے صرف تعلیم ہی پر توجہ نہیں دی، بلکہ قوم کو بیدار کرنے کے لیے قلم بھی اٹھایا۔ “تہذیب الاخلاق” نامی رسالہ جاری کیا، جس میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے مضامین لکھے۔ میں نے قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھی، جس میں جدید سائنسی نظریات کو دین کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ میرے نزدیک ادب کا مقصد صرف تفریح نہیں، بلکہ معاشرے کی رہنمائی کرنا ہے۔ میں نے “آثار الصنادید” میں دہلی کی تاریخی عمارات کا تذکرہ کیا، تاکہ آنے والی نسلیں اپنی تہذیب سے واقف رہیں۔
لکھنؤ اور ادبی محافل
لکھنؤ ہمیشہ سے تہذیب و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں کی محفلیں شعر و سخن سے گونجتی تھیں۔ جب کبھی لکھنؤ آیا، نوابوں اور ادیبوں کی صحبت نے مجھے متاثر کیا۔ یہاں کے لوگ نرم خو، خوش گفتار، اور علم دوست تھے۔ لکھنؤ کی رونق دیکھ کر اکثر خیال آتا کہ کاش دہلی بھی اپنی کھوئی ہوئی شان واپس پا لے۔
اخلاقیات پر زور
میں نے ہمیشہ اخلاقی اقدار کو ترجیح دی۔ تعلیم اگرچہ ضروری ہے، مگر اس کے ساتھ حسنِ اخلاق بھی لازمی ہے۔ میں نے اپنے کالج کے طلباء کو ہمیشہ سچائی، محنت، اور دیانتداری کی تلقین کی۔ ایک بار کہا تھا کہ:
“تعلیم یافتہ وہ نہیں جو صرف کتابیں پڑھ لے بلکہ وہ ہے جو علم کو عمل میں لائے اور معاشرے کی خدمت کرے۔”
آخری ایام
عمر کے آخری حصے میں بیماریوں نے گھیر لیا، مگر کام کا جذبہ کم نہ ہوا۔ ۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء کو علی گڑھ میں انتقال ہوا۔ أپ کی خواہش تھی کہ مسلمان علم و عمل کی راہ پر چلیں، اور ہندوستان میں اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کریں۔
وصیت
اے نوجوانو! تم ہی قوم کا مستقبل ہو۔ علم حاصل کرو، اخلاق کو اپناؤ، اور قوم کی خدمت کو اپنا شعار بناؤ۔ یاد رکھو، “ترقی کا راستہ تعلیم سے گزرتا ہے۔”



تبصرہ لکھیے