وہ ایک میت تھی۔ شاید کسی کا باپ، بیٹا، شوہر، بھائی یا دوست۔ لوگ جنازہ لیے جا رہے تھے، راستے میں اچانک آسمان کے منہ سے بارش برسنے لگی۔ وہ بارش، جو اکثر زندوں کے لیے راحت ہوتی ہے، آج مردہ بدن کے لیے محض ایک تکلیف دہ رکاوٹ بن گئی۔اور پھر.
کسی نے جلدی سے پلاسٹک کا ایک ٹکڑا نکالا، مردہ جسم پر ڈال دیا۔ باقی سب بھاگتے ہوئے چھتوں، کمروں اور برآمدوں کی طرف نکل گئے۔ کسی کو کپڑے خراب ہونے کا ڈر تھا، کسی کے ہاتھ میں قیمتی موبائل تھا اور کچھ ایسے بھی تھے جنہیں بارش میں بھیگنے سے نزلہ ہو جاتا ہے۔ بس وہ ایک ہی شخص تھا جو بھیگتا رہا۔ ٹپ ٹپ پانی کی بوندیں مسلسل اس پر پڑتی رہیں وہ جو اب شخص نہیں رہا تھا۔
اس منظر میں ایک خوفناک سچائی چھپی ہے جو ہماری آنکھوں سے برسوں اوجھل رہی۔ وہ سچائی یہ ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے دنیا پر کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ ہم جن رشتوں، تعلقوں، حیثیتوں، جائیدادوں، شہرت، دشمنیوں اور سازشوں پر عمر لگا دیتے ہیں وہ سب ایک لمحے میں اُڑن چھو ہو جاتے ہیں۔ جب بارش برستی ہے تو کوئی ہمارے ساتھ بھیگنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور یاد رکھیں: کفن کی کوئی جیب نہیں ہوتی۔
ہم جب اس دنیا سے جاتے ہیں تو وہ سب کچھ جو ہم نے جمع کیا، سنبھالا، سمیٹا، اس کا حق مارا، اُس کا حق مارا، عیاریوں اور مکاریوں سے ڈنڈیاں مار مار کر پیسہ جمع کیا، اس کے لیے دوڑے، لڑے، ترسے، ترسائے وہ سب یہی رہ جاتا ہے۔ گھر، بنگلہ، گاڑی، موبائل، بینک بیلنس سب۔ بس ساتھ جاتا ہے تو اعمال کا ایک رجسٹر جسے نہ کوئی جھٹلا سکتا ہے نہ بدل سکتا ہے۔ ہم روز جیتے ہیں لیکن کسی کے حق مار کر۔ کسی کی زمین ہڑپ کر کے، کسی بہن کو وراثت سے محروم کر کے، کسی ملازم کی تنخواہ دبا کر، کسی کمزور پر طنز کر کے، کسی کو اپنی زبان کے نشتروں سے چھلنی کرکے، کسی کو اپنے ہاتھ سے ایذا پہنچا کر.
کسی مظلوم کی آواز دبا کر۔ ہم سمجھتے ہیں یہ سب چھوٹا موٹا ہے، دنیا کا چلن ہے، سب کرتے ہیں۔ تمام علماء کرام، اکابرین اور سکالز اس بات پر متفق ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ:
"جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ نہ ہوں، وہ جہنمی ہے۔"
مگر ہم تو اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اب ہمیں موت صرف دوسروں کے لیے لگتی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ محشر ابھی بہت دور ہے،اور معافی کا دروازہ کھلا ہے۔
ہاں! دروازہ کھلا ہے، لیکن حقوق العباد کا دروازہ تب تک نہیں کھلتا جب تک وہ شخص خود نہ معاف کر دے جس کا حق ہم نے مارا ہے۔اور سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں سب سے مشکل چیز کسی ٹوٹے دل سے معافی مانگنا ہے اور سب سے مشکل کام کسی ظالم کو معاف کرنا ہے۔بارش میں بھیگی وہ لاش ہم سب کا آئینہ ہے۔ ہم سب کی کہانی ہے۔ ایک دن ہم بھی اسی طرح پلاسٹک میں لپٹے ہوں گے، اور دنیا ہمارے بغیر اپنا کاروبارِ زندگی جاری رکھے گی.
ذرا سوچیں....کیا ہم صرف ایک بارش سے بچنے کے لیے سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں، یا کچھ ایسا بھی کر لیتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی ہماری یاد میں خود کو نہ سہی کم از کم اپنی آنکھیں ہی بھگو لے؟
تبصرہ لکھیے