ہوم << یہ جتھا لشکرِ جرار کیسے بنا؟ - سعید مسعود ساوند

یہ جتھا لشکرِ جرار کیسے بنا؟ - سعید مسعود ساوند

ایک فئۃِ عظیمہ غزہ میں عزیمت کا نشان بن کر دنیا کی آنکھوں کو چندھیا رہی ہے، ہزاروں شہداء، لاکھوں جرحاء کے باوجود صیہونیت کا سردرد بنے ہوئے ہیں۔ آقا و غلام سبھی انگشت بدنداں ہیں کہ یہ جتھا لشکرِ جرار کیسے بنا؟

دوسرا گروہ اپنے ان بھائیوں کا سہارا بنے، ان کی آہ و بکا کو عوام تک پہنچا رہا ہے، مصلحت کو پرے رکھ کر "اسرائیل مردہ باد"، "نیتن یاہو قاتل" کے نعرے لگا رہے ہیں، ہزاروں سے لاکھوں افراد جمع کیے، بنگلادیش، پاکستان، افغانستان، یمن اور دیگر غیور ممالک میں اظہارِ یکجہتی کر رہا ہے۔ ان کے جو بس میں ہے، وہ کر دکھا رہا ہے۔ حکومت کو پیش قدمی پر ابھارنے کی خدمت سر انجام دے رہا ہے۔ ایک تیسرا ٹولہ، من بتیا، پہلے فئہ کی حمایت میں بولنے سے ڈر رہا ہے۔ آقا کی ناراضی زبانیں گنگ کیے ہوئے ہے، تو دوسرے گروہ کی جواں مردی، احتجاجی مظاہرے، اور حکومت و ریاست کو آئینہ دکھانے میں مگن لوگوں کے خلاف ماشاءاللّٰہ اپنے خبثِ باطنی کا اظہار کر رہا ہے، لگے لپٹے لفظوں میں بکواس اور طنز کر رہا ہے۔

میں تینوں کو صائب سمجھتا ہوں، شاید آپ میری بات نہ سمجھیں، اس لیے تھوڑی تفصیل عرض کیے دیتا ہوں:
وہ غیور جو دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند، ان کی آنکھوں میں چبھ رہے ہیں، تو یہ ان کی سعادت اور ایک موقع تھا، جس سے وہ پہلو تہی کیے بغیر مستفید ہو رہے ہیں، جذبۂ جہاد سے شرسار، جامِ شہادت نوش فرما رہے ہیں۔ دوسرا گروہ، وہ جنہیں موقع تو ملا ہے مگر جانے سے عاجز، کوشش تو خوب کر رہا ہے مگر مجبور ہے، خدا کی ذات پر یقین، اگر ان کو بھی ملتا، تو یہ بے خوف و خطر اس آگ میں داخل ہوتے، اور اپنے بچوں اور بچیوں کی شہادت پر رشک کرتے۔ تیسرا ٹولہ، جو ہمیشہ کی طرح خبثِ باطنی کا شکار، پہلوں کو موت کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے طعنے دے رہا ہے، تو افسردہ اور مجبور مجاہد مسلمانوں پر طنز کرتے ہوئے ان کے جذبات مجروح کر رہا ہے.

یہ وہ گروہ ہے جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے اب تک بدستور موجود ہے، جو امتِ مسلمہ کو اچھے برے کے درمیان امتیاز کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ یہ گروہ دانشور ٹائپ فیس بک شاشے میں دستیاب ہوتا ہے، جو بڑے پیک میں بھی مل سکتا ہے بشرطیکہ وہ فاران کنٹری دوسرے لفظوں میں گھر کا نہ گھاٹ کا ہو۔ تو احباب گرامی قدر آپ ان تینوں کو اپنے اپنے کام میں لگے رہنے دیں، اگر آپ پہلے نہیں بن سکتے تو دوسرے بنیں دوسرے بننے سے عاجز ہیں تو علاج کروائیں اور خاموش ہو جائیں تیسرے والے اپنے فلسفیانہ دانشورانہ اصل بات یانہ مذمت کا کیا فائدہ یانا بے وقوفانہ شریرانا منافقانہ حرام زادنہ سوچ سے خود اور اپنے احباب کو بچانا۔

Comments

Avatar photo

سعید مسعود ساوند

سعید مسعود ساوند کا تعلق کندھ کوٹ سے ہے۔ دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں۔ سندھی، اردو اور عربی زبان میں لکھتے ہیں۔ روزنامہ اسلام، ماہنامہ شریعت اور ہدایۃ الاخوان کے مستقل لکھاری ہیں۔ علمی محفلوں کا انعقاد، فکری نشستوں کی میزبانی، اور دینی و علمی مجالس کا اہتمام معمول ہے۔ دین کی سچائی، علم کی روشنی، اور فکر کی تازگی کرنا مشن ہے۔

Click here to post a comment