ہوم << القدس سوگوار ہے - علی عبداللہ

القدس سوگوار ہے - علی عبداللہ

القدس سوگوار ہے۔۔۔۔ اقصی کے مینار سسک رہے ہیں۔۔۔۔ اس کے صحن میں بکھری اذانیں بین بن چکی ہیں۔۔۔۔عیسی علیہ السلام کو بپتسمہ دینے والے دریائے اردن کی لہریں کسی ازلی غم میں ٹھہرنے لگی ہیں۔۔۔۔ اور یروشلم کے پرانے پتھروں میں دبی ہوئی مظلوموں کی چیخیں۔۔۔۔جو صدیوں سے رہائی کی منتظر تھیں۔۔۔۔ ایک بار پھر انہیں ملبے کے مزید نیچے دفن کر دیا گیا ہے-

سنا تم نے؟
وہ زمین، جو انبیاء کے قدموں کی برکت سے روشن تھی، اک عرصے سے آگ میں جھلستی چلی آ رہی ہے۔ وہ شہر، جو کبھی علم، محبت، اور امن کا گہوارہ تھا، اب دھوئیں اور بارود میں لپٹا ہوا ہے۔ وہ کوچے، جن میں کبھی زیتون کے درختوں کی چھاؤں میں قہقہے بکھرتے تھے، اب وہاں معصوم بچوں کے بے جان جسم بکھرے پڑے ہیں۔ یہاں ماں کی گود میں اب لوریاں نہیں، آخری بوسے ہیں۔ باپ اپنے بیٹے کی شناخت آنکھوں سے نہیں، ہاتھوں کی لکیروں سے کرتے ہیں- بہنیں اپنے بھائیوں کو جنازوں میں دیکھتی ہیں، اور بھائی بہنوں کی قبر پر خاک ڈالنے سے پہلے بے بسی سے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں؛ کہ شاید وہاں سے کوئی مدد آجائے- شاید کوئی دعا القدس کو تھام لے اور کوئی فرشتہ نازل ہو جائے- حجرہ مریم اداس ہے کہ وہاں بے موسمے پھل تو کیا، اب موسم ہی اجڑ چکے ہیں-

مگر سننے والے ہیں ہی کہاں۔۔۔۔۔وہ جو عدل کے پرچم اٹھائے گھومتے تھے؟ وہ جو حقوقِ انسانی کے بڑے بڑے منشور لکھتے تھے؟ وہ جو ایک آنسو پر ماتم کرتے تھے، مگر یہاں بہتے لہو پر کیوں خاموش ہیں؟ کوئی جا کے بتائے محمود درویش کو کہ جن خوابوں کی وہ تعبیر چاہتا تھا، وہ خواب نہیں رہے۔۔۔خواب تو ملبے میں دب چکے ہیں، وہ بارود کی آگ میں جل چکے ہیں، وہ گولیوں کی تپش میں پگھل چکے ہیں۔ جاؤ نزار قبانی کو بتاؤ کہ اس کے شہر کا حسن۔۔۔ہاں وہی حسن جو زیتون کے درختوں کے سائے میں مسکراتا تھا، جو گلیوں میں بچوں کی ہنسی سے مہکتا تھا، وہ حسن اب راکھ میں بدل چکا، وہ سب خاک ہو چکا-
کیا یہاں کوئی امراء القیس نہیں جو یہ ہی کہہ سکے،
"قفانبک من ذکری حبیب و منزل" کہ آؤ، رک کر اس اجڑی ہوئی سرزمین کو یاد کریں۔

القدس سوگوار ہے- یروشلم اداس ہے۔ انبیاء کی خوشبوؤں سے معطر یہ شہر پکارتا ہے کہ ابن خطاب کے ہاتھوں میں تھمائی گئی اس کی کنجیوں کو اب کن ناپاک ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے؟ کہاں ہیں وہ جن کے بڑے کہتے تھے کہ " اگر یورپ کے غاصب فلسطین داخل ہوئے تو آسمان پھٹ جائے گا، پہاڑ لرز جائیں گے اور زمین ہل جائے گی کہ وہ کیسے فلسطین داخل ہو گئے"- کہاں ہیں وہ سب جن کے بڑوں نے کہا تھا کہ، "عرب قابضوں کو یہ سرزمین دینے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیں گے"-
اب وہ سب فقط تماشائی نہیں تو اور کیا ہیں؟

اے گزرگاہ پیغمبر(محمد صل اللہ علیہ وسلم)، گلیاں و پتھر اداس ہیں، مساجد و مینار مغموم ہیں- اے قدس، اے سیاہی میں لپٹی حسین عورت، اے قدس، اے غموں کے شہر، اے آنکھ میں تیرنے والے اشک، اے مذاہب کے موتی۔۔۔۔ میں تجھ پہ قربان، میں تم پہ فدا- میں دل کا بوجھ آنسوؤں سے ہلکا کر رہا ہوں، کاش یہ غم ہلکا ہوتا!

Comments

Avatar photo

علی عبداللہ

علی عبداللہ پیشے کے لحاظ سے آئی ٹی ٹرینر ہیں۔ دو دریاؤں کی سرزمین جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتب بینی اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے۔ ادب، تاریخ، مذہب اور ٹیکنالوجی ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں. مختلف ویب سائٹس اور قومی و بین الاقوامی اخبارات میں ان کی تحاریر شائع ہو چکی ہیں۔

Click here to post a comment