ہوم << عقل و عشق - محمد احسان محمود

عقل و عشق - محمد احسان محمود

اب اُس کا دیدار محض دیدار سے بڑھ کر محسوس ہونے لگا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دیکھنا بھی فقط معمولاتِ زندگی کے باقی تماشوں کی طرح ہے جو وقت کے ساتھ بہہ کر ماضی کی یادداشتوں میں کہیں گم ہو جائے گا، لیکن دل یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کائنات کی ہر چیز، وقت کے بہتے دھارے کی گھڑی، ہر لمحہ مجھے اُسے دیکھنے کی اجازت دے رہا ہے۔

بات یہاں تک محدود نہیں رہی بلکہ حالات و واقعات نے مجھے مجبور کیا کہ میں اسے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھوں تاکہ میرے احساسات و جذبات کی شدت اُس کی روح میں شامل ہو جائے ۔

اسی دوران میں خود کو مادی دنیا میں لایا تو معلوم ہوا کہ میں تو اپنی زندگی کو کامیابیوں کے زینوں پر لے کر چڑھا جا رہا ہوں۔ میں تو خواب پورے کرنے میں مصروف ہوں، گو کہ یہ نہیں معلوم کہ وہ خواب ہیں کس کے؟

بہر کیف میں اپنے سے جڑی ہر شے، ہر رشتے، ہر جذبے کو بے لوث کرنے میں مصروف ہوں۔میں انہیں اپنی محنت سے زمانے میں تبدیل کر رہا ہوں۔
تو کیا ایسے میں، میں خود کو اس حسین دلدل میں دھنسا کر خود کو مٹا ڈالوں؟
اگر سچ کہوں تو عقلاً ایسا ممکن نہیں کہ میں اپنے جذبات اور احساسات کو امر کرنے کے لیے موجودہ آسائشوں اور کامیابیوں کا قتل کروں۔
لیکن تاریخ مجھے بتاتی ہے کہ جو شخص بھی انسان اور وجدان کی کی حقیقت تک پہنچا اس نے عشق کے ہاتھوں عقل کو مروا کر ہی چھوڑا۔تو پھر میں کیوں خود کو ان انسانوں کی فہرست سے نکال پھینکوں۔
عشق، محبت، انس یہ سب میرا ورثہ ہے تو میں کیوں خود کو اس وراثت سے عاق کروں؟

شاید یہی وجہ ہے کہ میرے لیے وہ شخص، وہ چہرہ ہی ظلمتوں کا نور ہے۔وہ چہرہ دیکھنے سے وہی خوشی ملتی ہے جو پیاسے صحرائی کو دور کہیں نخلستان نظر آنے سے ملتی ہے۔ وہ میری وحشتوں کا قرار ہے۔گویا وہ میری زندگی کی بہار ہے۔یہ وہی چہرہ ہے جو مجھے مدلل اور عقلی انسان ہونے سے باز رکھتا ہے۔جی ہاں یہ وہی چہرہ ہے جو میرے عقل سے بھرے دماغ میں، دلائل میں خلل ڈال کر ایک حسین احساس بن کر ابھرتا ہے۔جو دنیا کے تمام چلتے کاروباروں کو روک کر مجھے جھنجھوڑ کر کہتا ہے کہ
انسان عقل کا غلام تو ہے لیکن آگ میں کودنے سے پہلے تک
انسان عقل کا غلام تو ہے لیکن محل کی آسائشوں پر زنداں کو ترجیح دینے سے پہلے تک
انسان عقل کا غلام تو ہے لیکن بہتے دریا میں عیال کو لے کر اترنے سے پہلے تک
انسان عقل کا غلام تو ہے لیکن صدیق کی تصدیق سے پہلے تک
انسان عقل کا غلام تو ہے لیکن کوفی پکار پر کربلا جانے سے پہلے تک
انسان عقل کا غلام تو ہے لیکن منصور کی سولی سے پہلے تک
انسان عقل کا غلام تو ہے لیکن کسی عام کو خاص کرنے سے پہلے تک
اور میں بھی عقل کا غلام تو ہوں لیکن اُسے پھر سے ایک بار دیکھنے (وصل) سے پہلے تک