جب ظالم کو کھل کر مخاطب نہ کیا جائے، جب اس کے ظلم پر مصلحت کی چادر تان کر خاموشی اختیار کر لی جائے، تو بتائیں کہاں امن ہوگا؟ جب ایک ماں کا معصوم بچہ بلا وجہ غائب ہو جائے، اور پھر سالوں تک اس کی بہنیں اور بیٹیاں پلے کارڈز اٹھائے اس کی رہائی کی فریاد کرتی رہیں، تب مجھ سے کہا جائے کہ خاموش رہو، انتشار مت پھیلاؤ—تو بتائیے، میں کس کا مجرم بنوں؟ اپنے ضمیر کا، جو مسلسل مجھے کوس رہا ہے، یا ان حکمرانوں کا، جن کے ضمیر بھی بے حس ہو چکے ہیں؟
مجھے اپنے وطن عزیز، اسلامی جمہوریہ پاکستان سے محبت ہے۔ اس کا ہر محافظ میرے سر کا تاج ہے۔ تو کیا میں سچے پاکستانی ہونے کے لیے ہر لمحہ صفائیاں پیش کرتا پھروں؟ جب میرے ارد گرد گدھوں پر جھگڑا ہو اور محافظ ایدھی ایمبولینس کے ساتھ تشریف لائیں، تو میں کیا کروں؟ محافظ کو سلیوٹ کرنے کے لیے کھڑا ہو جاؤں یا اپنے پیاروں کے بکھرے وجود کو سمیٹوں؟ جب چند افراد کی خواہش کے پیش نظر مجھ سے میرا پانی چھین لیا جائے اور مجھے "چپ رہو" کا حکم ملے، تو بتائیں، میں پانی پانی کی دہائی دوں یا نغموں پر رقص کروں؟
اللّٰہ تعالیٰ اس وطن عزیز کی حفاظت کرے اور ہر اس محافظ کی حفاظت کرے جو اس کی سچائی سے حفاظت کرتا ہے۔
میرا مزدور جب بلوچستان میں مارا جائے، اور میری مائیں اسلام آباد اور کراچی کی سڑکوں پر چیختی ہوئی گرفتار ہوں، تو میں کیا کروں؟ ہر وہ پاکستانی جو عقل سلیم رکھتا ہے، وہ ظلم کے خلاف ہوگا اور اس کی مذمت ہمیشہ جاری رہے گی۔ شاید ہمارے گلے کاٹ بھی دیے جائیں، لیکن اس وطن عزیز کے در و دیوار سے ظلم نامنظور کے نعرے ہمیشہ گونجیں گے۔
ابھی وقت ہے کہ پالیسی ساز عقل سے کام لیں، بہکا ہوا جوان ہوش سے کام لے، واعظ انتشار سے باز آئے، اور ذاکر توہین سے گریز کرے۔ ہر فرد اگر اپنے حصے کا کام کر جائے، تو یقین جانیے کہ یہ اندھیری گھٹا چھٹ جائے گی اور ایک بہترین معاشرے کا خواب ضرور پورا ہوگا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان زندہ باد!
تبصرہ لکھیے