ہوم << افواج پاکستان،قوم کی ڈھال - سلمان احمد قریشی

افواج پاکستان،قوم کی ڈھال - سلمان احمد قریشی

ریاست کی بنیاد اس کی حاکمیت اور قانون کی بالادستی پر ہوتی ہے۔ جب کوئی گروہ یا فرد ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے، تو ریاست کے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے۔طاقت کا موثر استعمال، دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک نے دہشت گردوں اور مسلح گروہوں سے نرمی برت کر امن قائم نہیں کیا۔ امریکہ سے لے کر روس، چین سے لے کر ترکی تک، ہر ریاست نے اپنی سا لمیت کے دفاع میں طاقت استعمال کی ہے۔پاکستان میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ جو عناصر ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں، انہیں آئینی اور قانونی فریم ورک کے تحت سخت ترین کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے۔ اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو دیکھیں گے کہ جب بھی ریاست نے کمزوری دکھائی، دہشت گرد مزید طاقتور ہوئے، اور جب بھی افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی، ملک میں امن بحال ہوا۔

ایک مخصوص لابی عرصہ دراز سے دہشت گردی کو ''اچھے'' اور ''برے'' کے خانوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کبھی ''گڈ طالبان'' اور ''بیڈ طالبان'' کی بحث چھیڑی جاتی ہے، تو کبھی دہشت گردوں کو ''ناراض پاکستانی'' کہہ کر ان کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ معصوم شہریوں، بچوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا خون بہاتے ہیں، ان میں ''اچھے'' اور ''برے'' کی تفریق کیسے کی جا سکتی ہے؟ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتے ہیں۔ان کی کوئی قوم، مذہب، یا نظریہ نہیں ہوتا۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب ریاست کسی دہشت گرد گروہ کے خلاف کارروائی کرتی ہے، تو بین الاقوامی میڈیا اور چند مخصوص انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار فوراً حرکت میں آ جاتے ہیں۔ وہ دہشت گردوں کو ''بے گناہ شہری'' اور ''مظلوم اقلیت'' کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بیان اس حقیقت کو تسلیم کر چکا ہے کہ دہشت گرد کسی بھی قسم کی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں، اور ان کے خلاف سخت کارروائی عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے۔

پاکستان میں جاری دہشت گردی کے پیچھے کون ہے، یہ کوئی راز نہیں رہا۔ بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد بارہا سامنے آ چکے ہیں۔ بھارتی ایجنسی ''را'' مختلف دہشت گرد گروہوں کو فنڈنگ، تربیت اور سہولت فراہم کر رہی ہے، تاکہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جا سکے۔ بھارتی میڈیا اور سیاسی حلقے نہ صرف ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا بھی چلاتے ہیں۔

پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں کمزوری کی کوئی گنجائش نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نرم رویہ اپنانا درحقیقت دشمن کو مزید شہ دینے کے مترادف ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز، سہولت کاروں اور مالی معاونین کے خلاف بغیر کسی دباؤ کے سخت سے سخت کارروائی کرے۔یہ وقت فیصلہ کن اقدامات کا ہے یا تو ہم ایک مضبوط اور مستحکم ریاست کے طور پر ابھریں گے، یا پھر مظلومیت کے ڈھونگ میں الجھ کر مزید نقصان اٹھائیں گے۔ فیصلہ ریاست کو کرنا ہے، اور قوم اپنی افواج اور سیکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔

پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف ایک بھرپور جنگ لڑ رہا ہے، اور اس جنگ میں ریاست نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ سانحہ اے پی ایس ہو یا حالیہ جعفر ایکسپریس حملہ، ہر بزدلانہ کارروائی کے پیچھے وہی پرانا حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔مظلومیت کا ڈھونگ دہشت گرد گروہ اور ان کے سہولت کار ہر ممکن طریقے سے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ عوامی ہمدردی حاصل کی جا سکے اور ریاست کے خلاف ایک بیانیہ تشکیل دیا جا سکے۔

کسی بھی ملک کی سا لمیت اور ترقی کا دار و مدار اس کے اندرونی استحکام اور سرحدی تحفظ پر ہوتا ہے۔ جب سرحدیں محفوظ ہوں اور ریاستی امور میں یکجہتی قائم ہو، تو کوئی بیرونی یا اندرونی قوت اس کی خودمختاری کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔پاکستان جیسے جغرافیائی اور اسٹریٹجک لحاظ سے حساس ملک میں سرحدی اور ریاستی امور میں ہم آہنگی نہایت اہم ہے۔ سرحدوں کی حفاظت صرف فوج کا نہیں، بلکہ پوری قوم کا مشترکہ فریضہ ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد جس تیز رفتاری سے دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی افواج کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ پاکستانی عوام اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے ریاست کے ہر اقدام کی حمایت کرتی ہے۔آج کی جنگ صرف میدان میں نہیں لڑی جا رہی، بلکہ ایک بڑا محاذ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی کھولا جا چکا ہے۔ دشمن عناصر سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع کو استعمال کرکے افواج پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ان سازشوں کا جواب بھی اتنی ہی شدت سے دینا ہوگا جتنا کہ میدان جنگ میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سائبر کرائم قوانین کو مزید موثر بنائے اور ریاست مخالف بیانیہ پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت ایکشن لے۔

افواجِ پاکستان صرف ایک عسکری قوت نہیں، بلکہ قوم کی غیر متزلزل ڈھال ہیں، جو ہر محاذ پر دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیتی ہیں۔ چاہے سرحدوں کی حفاظت ہو یا اندرونی امن و امان، چاہے قدرتی آفات ہوں یا دہشت گردی کے خلاف جنگ، پاک فوج ہمیشہ اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر قوم کے دفاع میں سینہ سپر رہتی ہے۔یہ وہ جانباز ہیں جن کے حوصلے فولادی، عزم اٹل اور ارادے ناقابلِ تسخیر ہیں۔ یہ صرف بندوقوں کے سائے میں نہیں، بلکہ عوام کی دعاؤں کے حصار میں لڑتے ہیں۔ ان کی وردی محض لباس نہیں، بلکہ قربانی، حوصلے اور وطن سے بے پناہ محبت کی علامت ہے۔یہی وجہ ہے کہ افواجِ پاکستان نہ صرف جنگی محاذ پر بلکہ ہر میدان میں قوم کی امید اور فخر ہیں۔ یہ صرف سرحدوں کے محافظ نہیں، بلکہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے ضامن بھی ہیں۔ سرفروشوں کے اس قافلے کو پوری قوم کا سلام!

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment