حضرت عمر کے زمانے میں عمواس شام میں طاعون پھیل گیا، جس میں بڑے جلیل القدر صحابہ شہید ہوئے. ابوعبیدہ بن جراح حضرت بلال بھی ان میں شامل تھے. انھی میں ایک حضرت معاذ بن جبل بھی تھے. ان کے رتبے کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تھا. ان کو جب طاعون ہوا تو بہت شدید تکلیف میں مبتلا ہوئے.
صحابہ کہتے ہیں کہ قریبا 30 ہزار صحابہ اس مرض میں اللہ کو پیارے ہو گئے، لیکن جو تکلیف ہم نے معاذ بن جبل کی دیکھی ہے، ویسی تکلیف دہ موت ہم نے آج تک کسی کی نہیں دیکھی. درد کی وجہ سے ان کو بیہوشی کے دورے پڑتے اور سانس بند ہو جاتا تھا، لیکن جب ہوش آتا تو بس ایک جملہ کہتے تھے : ”یااللہ! تو نے جتنا میرا گلا دبانا ہے دبا لے لیکن تو جانتا ہے کہ میرا دل تجھ سے محبت کرتا ہے.“ بس یہی فرماتے ہوئے جان اللہ کے سپرد کر دی. صحابہ کہتے ہیں کہ ہم پہلے سمجھتے تھے کہ نیک لوگوں کو اللہ بڑی آسانی سے اپنے پاس بلاتا ہے، لیکن ہم لوگوں کی یہ رائے معاذ بن جبل کو دیکھ کر بدل گئی .
چوں میگوئم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الٰہ را
میری نانی اماں جن کو ہم سب “بےبے” کہتے ہیں، آج ان کی کچھ باتیں آپ لوگوں سے کرنی ہیں تاکہ میرے جیسے گنہگاروں کو معلوم ہو سکے کہ مسلمانی کسے کہتے ہیں.میری بےبے کہتی ہیں کہ میری امی پاکستان بننے کے چند ماہ بعد پیدا ہوئی تھیں، اس لیے سب کہتے ہیں کہ بےبے کی عمر سو سال ہو چکی. ہم سب نے بےبے کو بہت ہی شفیق، مہربان اور نماز روزے کی پابند پایا. جو سال بچپن میں ہم نے گاؤں میں بےبے کے ساتھ گزارے، سب جانتے ہیں کہ بےبے فجر کی اذان سے بہت پہلے اٹھتی تھیں. تہجد اور فجر کے بعد قران کی تلاوت کرتیں، اور پھر کاموں میں مشغول ہو جاتیں. ہم نے کبھی اپنی زندگی میں بےبے کے اس معمول میں ناغہ نہیں دیکھا، لیکن اب وہ صاحب فراش ہیں، اوربڑھاپے کی وجہ سے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے.
خود کروٹ بھی نہیں بدل سکتیں، کسی کا نام یاد نہیں کسی کو پہچانتی نہیں اور اب آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی ہے آج جب میں ان کی عیادت کرنے گیا تو دیکھا داہنی کروٹ لیٹی ہیں منہ قبلے کی طرف ہے اور کچھ بولتی رہتی ہیں ماموں ان کو بائیں کروٹ لٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بے سود وہ لیٹتی ہی دائیں کروٹ ہیں اور مسلسل دائیں کروٹ لیٹنے سے زخم ہو گئے ہیں لیکن مجال ہے جو اس پوزیشن سے ہلیں ۔دائیں کروٹ لیٹنا کیا ہوتا ہے یہ آج جدید نسل کو معلوم نہیں لیکن میں جو الفاظ آج بےبے کی زبان مبارک سے سن کر آیا ہوں اس نے میرے وجدان میں بھونچال سا اٹھا رکھا ہے.
میں چاہتاہوں وہ الفاظ آپ بھی سنیں لیکن ایک جھوٹے اور بے دین کی زبان سے شاید ان کا وہ اثر نہ ہو جو میں آج اللہ کی ایک سچی اور پکی بندی کے منہ سے سن کر آیا ہوں میں سب کو کہتا ہوں کہ جس نے سچے مسلمان کی زندگی اور موت دونوں ایک ساتھ دیکھنی ہو وہ ہماری بےبے کو دیکھ آئے نفسا نفسی کے اس دور میں ایسی مثالیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی . اگر ان الفاظ میں میں کوئی ہیر پھیر کروں یا مبالغے سے کام لوں تو آپ باجی سے پوچھ سکتے ہیں. انہون نے بھی کم از کم چار سے پانچ دفعہ یہ الفاظ سنے ہیں. ایک سچے دل کی بپتا ہے جو ایسے مدہر گیت میں ڈھل گئی ہے، جس نے میرے وجود کے ذرے ذرے میں دھمال مچا رکھی ہے. گل وبلبل کے افسانے اور چندا و چکور کے قصے ان محبت بھرے الفاظ کے آگے ہیچ ہیں.
اللہ میرا واحد اے
محمد میرا شاہد اے
کلمہ میرا دین اے
کلمے تے یقین اے
بندہ مسلمین اے
استغفراللہ
تبصرہ لکھیے