ہوم << کیا زکوۃ، ولی الامر (حکمران) ہی وصول کر سکتا ہے؟ حافظ محمد زبیر

کیا زکوۃ، ولی الامر (حکمران) ہی وصول کر سکتا ہے؟ حافظ محمد زبیر

دوست کا سوال ہے کہ کیا زکوۃ ولی الامر اور حکمران ہی وصول کر سکتا ہے یا مسلمان اپنے طور بھی زکوۃ ادا کر سکتے ہیں؟ جواب: قرآن مجید میں واضح طور موجود ہے کہ زکوۃ ولی الامر اور حکمران وصول کر سکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: "خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً" ترجمہ: اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ان مسلمانوں سے ان کے مالوں میں سے زکوۃ وصدقات وصول کریں۔ اسی طرح سورہ التوبۃ میں جہاں زکوۃ کے مصارف بیان ہوئے ہیں کہ زکوۃ کہاں خرچ کی جا سکتی ہے تو وہاں عاملین زکوۃ کا بھی ذکر ہے اور عاملین زکوۃ سے مراد ولی الامر اور حکمران کی طرف سے مقرر کردہ وہ افراد ہیں جو لوگوں سے زکوۃ جمع کر کے بیت المال میں جمع کروائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں زکوۃ ولی الامر اور حکمران ہی وصول کیا کرتے تھے اور بعد ازاں اسے مسلمانوں کی مصالح میں لگا دیا کرتے تھے۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے زکوۃ ولی الامر یا حکمران کو ادا نہ کرنے والوں سے قتال بھی کیا تھا جو کہ معروف واقعہ ہے۔ لیکن فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ خلیفہ بلا فصل کا یہ قتال، اموال ظاہرہ کی زکوۃ سے متعلق تھا۔ فقہاء نے اموال کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے؛ اموال ظاہرہ یعنی انسان کا وہ مال جو دوسروں کے سامنے ہو جیسا کہ مال مویشی اور کھیتی وغیرہ۔ دوسرا اموال باطنہ یعنی انسان کے وہ اموال جو پوشیدہ ہوں یعنی صرف اسی کے علم میں ہوں جیسا کہ گھر میں پڑا ہوا سونا چاندی، زیورات، نقدی کیش اور مال تجارت وغیرہ۔ جمہور فقہاء ہر قسم کے مال تجارت کو اموال باطنہ میں شمار کرتے ہیں لیکن اس بارے احناف کی رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ بعض مال تجارت اموال ظاہرہ میں آ جاتے ہیں۔ آج کل بینک اکاونٹ میں جو رقم پڑی ہوتی ہے، تو وہ بھی اموال ظاہرہ میں ہی آتی ہے۔ آسان سا قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ آپ کا جو مال ریاست کی نظر اور علم میں آ جاتا ہے، وہ اموال ظاہرہ میں سے ہے اور جو اس سے پوشیدہ رہتا ہے، وہ اموال باطنہ میں سے ہے۔

اموال ظاہرہ کی زکوۃ ولی الامر اور حکمران لے سکتا ہے۔ اور اگر وہ مانگے تو اس کو یہ زکوۃ دینا واجب ہے۔ اور اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔ اگر حکمران فاسق وفاجر ہو کہ زکوۃ کو اس کی صحیح جگہ نہ لگائے گا تو کیا اس کو زکوۃ دینا ضروری ہے؟ اس بارے فقہاء کا اختلاف ہے۔ احناف اور مالکیہ کا موقف یہ ہے کہ ایسی صورت میں امام اور حکمران کو زکوۃ نہ دے اور خود سے زکوۃ ادا کرے، بھلے اسے اپنا مال چھپانا پڑے۔ اس کی دلیل ان کے ہاں یہ ہے کہ قرآن مجید نے گناہ اور ظلم کے کاموں میں تعاون سے منع کیا ہے۔ اس بارے شافعیہ اور حنابلہ کا موقف یہ ہے کہ امام بھلے ظالم ہی کیوں نہ ہو، اس کو زکوۃ ادا کر دیں جبکہ وہ زکوۃ مانگے اور اپنا مال اس سے نہ چھپائے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ تم حکمران کو زکوۃ ادا کر دو، اگر اس نے اس کو صحیح جگہ نہ لگایا تو اس کا گناہ اس پر ہے اور تم بری الذمہ ہو۔

جہاں تک اموال باطنہ کی زکوۃ کا معاملہ ہے یعنی زیورات، نقدی کیش وغیرہ کی زکوۃ یا وہ مال جو حکومت اور ریاست کے علم میں نہیں ہے، تو فقہاء کے نزدیک اس کی زکوۃ انسان خود سے ادا کر سکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: "وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ (24) لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ"۔ ترجمہ: اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والوں اور محرومین کا معلوم حق ہے۔ اگر حکمران یا ولی الامر اموال باطنہ کی زکوۃ بھی لوگوں سے طلب کرے تو کیا اس کو ان اموال کی زکوۃ دینا واجب ہے؟ اس بارے دو موقف ہیں: بعض فقہاء اس کو دینے کے قائل ہیں جبکہ جمہور فقہاء کے نزدیک اس کا دینا واجب نہیں ہے کیونکہ یہ اس کا حق ہی نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہی ہے کہ اموال باطنہ مثلا زیورات، نقدی کیش اور ایسا مال جو ریاست کے علم میں نہیں ہے، اس کی زکوۃ مسلمان اپنے طور نکال کر مصارف زکوۃ میں سے کسی مصرف میں تقسیم کر دیں گے۔ جہاں تک اموال ظاہرہ کا معاملہ ہے جیسا کہ مال مویشی، کھیتی باڑی اور ایسا مال تجارت جو ریاست کی نظر اور اس کے علم میں ہے، یا بینک اکاونٹ میں پڑی رقم یا ریٹرن فائل کرتے ہوئے آپ کے ڈیکلیئرڈ ایسٹس تو ان کی زکوۃ ولی الامر اور حکمران وصول کر سکتا ہے۔ اور اس کے مطالبے پر اسے ادا کرنا واجب ہے۔ لیکن اگر ولی الامر یا حکمران کے بارے اندیشہ ہو کہ وہ اس زکوۃ کی رقم کو صحیح مصرف میں خرچ نہ کرے گا تو پھر فقہاء کی دونوں آراء موجود ہیں۔ میں تو آج کل یہی رائے دیتا ہوں کہ اپنی زکوۃ ولی الامر یا حکمران کو دینے کی بجائے خود سے ادا کریں جیسا کہ احناف اور مالکیہ کی رائے ہے۔

باقی یہ بات درست ہے کہ پنجاب حکومت کا جو عشر اور زکوۃ کا ڈیپارٹمنٹ ہے، اس کے جو پروگرامز ہیں جیسا کہ گزارا الاونس، تالیف قلب، دینی مدارس کی امداد، شادی میں معاونت اور ٹیکنیکل تعلیم کے لیے وظائف جاری کرنا وغیرہ، وہ زکوۃ کے مصارف میں شامل ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ زکوۃ کی رقم وہاں خرچ ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ اگر کسی کو اس کا اعتبار ہو تو وہ وہاں ادا کر سکتا ہے۔ اور جس کے بینک اکاونٹ سے کاٹ لی جائے تو اس کی زکوۃ بھی ادا ہو جاتی ہے۔ اور جس کو اعتبار نہیں ہے تو وہ اپنے طور زکوۃ ادا کر دے۔ واللہ اعلم بالصواب

Comments

Avatar photo

حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر نے پنجاب یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ کامساٹس میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ مجلس تحقیق اسلامی قرآن اکیڈمی لاہور کے ریسرچ فیلو ہیں۔ 4 کتب کے مصنف ہیں۔ کئی جرائد میں 150 سے زائد تحقیقی، فکری اور اصلاحی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ دینی امور پر رہنمائی کرتے ہیں۔

Click here to post a comment