ہوم << رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح - رفیعہ شیخ

رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح - رفیعہ شیخ

رات آہستہ آہستہ شہر پر اتر رہی تھی۔ ہر گلی، ہر کوچہ، ہر زینہ اس کی سیاہ چادر میں لپٹتا جا رہا تھا۔ جیسے کوئی پراسرار سایہ دبے پاؤں چل رہا ہو، آہستہ آہستہ، خاموشی سے، ہر دروازے کی دہلیز کو چھوتا، ہر خواب کے در پر دستک دیتا۔

اندھیرے کی چادر میں لپٹی اس رات کا ایک نام تھا— لت۔

یہ لت ہر دروازے سے گزر چکی تھی، کہیں دھوئیں کی صورت، کہیں شیشے کی ننھی بوتل میں قید، کہیں سفید سفوف کے ذروں میں بکھری، اور کہیں انجیکشن کی سوئی میں پیوست۔ اس کے سائے میں کئی چہرے تھے، زرد، مرجھائے ہوئے، آنکھوں میں ویرانی لیے۔ کچھ ہنستے تھے، مگر ہنسی کے پیچھے ایک چیخ چھپی ہوتی۔ کچھ چپ چاپ سڑک کنارے پڑے رہتے، جیسے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے ملبے پر سو گئے ہوں۔

سرمد اس رات کے دامن میں پلنے والا ایک سایہ تھا۔ کبھی اس کی آنکھوں میں روشنی ہوا کرتی تھی، ایک چمک، جو خوابوں سے بھری تھی۔ مگر اب اس کی آنکھیں بجھی ہوئی تھیں۔ جیسے رات کے کسی کونے میں دبک کر بیٹھ گئی ہو۔

وہ گلی کے نکڑ پر بیٹھا تھا، سر جھکائے، جیسے خود کو ہی تلاش کر رہا ہو۔ اس کی انگلیوں میں ایک سگریٹ تھی، مگر یہ وہ سگریٹ نہیں تھی جو عام لوگ پیتے ہیں۔ اس کے دھوئیں میں وہ سکون تھا جو لمحے بھر کو زمین سے اٹھا کر خلا میں لے جاتا ہے، اور پھر ایسا گرا دیتا ہے کہ زمین بھی غیر مانوس لگنے لگتی ہے۔

اچانک ایک سایہ قریب آیا۔ ایک نرم سی سرگوشی ہوا میں بکھری:
"مزید چاہیے؟"

سرمد نے نظر اٹھائی۔ سیاہ لباس میں لپٹی ایک شکل کھڑی تھی— وہی رات، جو سرمئی آنچل کی طرح پھیل چکی تھی۔

"کتنی بار کہا ہے، یہ تمہیں مار دے گا۔"

سرمد ہنسا، ایک خشک، کھوکھلی ہنسی۔ "مار ہی تو نہیں رہا، بس زندہ بھی نہیں رہنے دے رہا۔"

چند قدم دور، ایک ماں کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ وہ رات کو دیکھ رہی تھی، اس کی پھیلی ہوئی سیاہی کو، جو اس کے بیٹے کو نگل چکی تھی۔

"یہ رات کب ختم ہوگی؟" اس نے خود سے سوال کیا۔

مگر جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔

شہر میں ہر طرف رات بکھری تھی۔ کسی کی رگوں میں، کسی کے خوابوں میں، کسی کے بدن پر زخموں کی صورت۔

یہ وہ رات تھی جو سحر ہونے نہیں دیتی تھی۔ جو سرمئی آنچل کی طرح ہر زندگی کو ڈھانپے جا رہی تھی۔

یہ وہ رات تھی جس کا کوئی سویرا نہ تھا۔

Comments

Click here to post a comment