ہوم << حضرت خدیجہ عورتوں کے لیے مشعل راہ - صغری یامین سحر

حضرت خدیجہ عورتوں کے لیے مشعل راہ - صغری یامین سحر

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا بلاشبہ آپ کی سیرت توسراپا فضیلت ہی فضیلت ہے جس دن سے آپ نےحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا اسی دن سے آپ کی زندگی برکتوں کا گہوارہ بن گئی تھی ۔

تاریخ میں بہت سی ایسی خواتین کا تذکرہ ملتا ہےجنہوں نے کسی ایک پہلویا بہت سے پہلوؤں کےحوالے سے شہرت حاصل کی ۔لیکن تاریخ نے جس طریق سے آپ کے فضل وشرف کے تمام تر پہلوؤں کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیاکسی اور خاتون کو یہ شرف حاصل نہیں ہوسکا ۔آپ کے بیشتر فضائل تو تاریخ نے اپنے اوراق میں محفوظ کرلیے، لیکن تاریخ کا وسیع حافظہ بھی آپ کی ساری خوبیوں کااحاطہ کرنے سے قاصر رہا۔ آپ تو بلا شبہ اہل بیت کی خواتین میں ہارکی لڑی کی مانند تھیں جنہیں اللہ تعالی نے پاک طنیت اور پاک باز بنایا تھا ۔آپ اس قابل تعریف بزرگ و برتر گھرانے کی خواتین میں ہر فضل و شرف کا عنوان ہیں کہ جس پر اللہ تعالی کی بے پایاں برکات و عنایت تھیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عورتوں سب سے پہلے ایمان لانے والی پہلی خاتون ہیں ۔

آپ کے والد گرامی خویلد بن اسد اور والدہ جناب فاطمہ بنت زائدہ بن اصم ہیں۔ نسب کے چند واسطوں سے آپ کا تعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد سے جا ملتا ہے۔ والد کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب اس طرح سے ہے: خدیجه بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزى بن قصى بن کلاب۔ جب کہ والدہ کی طرف سے نسب اس طرح سے ہے: خدیجه بنت فاطمه بنت زائده بن اصم بن رواحه بن حجربن عبدبن معیص بن عامربن لُوَى بن غالب. لُوَی جو کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد ہشتم ہیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اماں خدیجہ رضی اللہ عنھاایک دوسرے کو چچا کے بیٹے (ابن عم) اور چچا کی بیٹی (بنت عم) کہہ کر پکارتے تھے آپ کی ولادت ہجرت سے 68 سال پہلے ہوئی۔ اللہ پاک نے آپ کو بہت اعلی ارفع خصوصیات نوازا تھا جنہیں نمونہ عمل قراردے کر دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہے۔

حضرت خدیجہ ؓ کا شمار مکہ مکرمہ کی شریف ترین معزز اور مالدار خواتین میں ہوتا تھا۔ آپ مکہ مکرمہ کے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر بطورِ مضاربت تجارت کرتیں اور اپنا تجارتی مال مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا کرتی تھیں۔جتنا سامانِ تجارت سارے اہل قافلہ کا ہوتا اُتنا اکیلی سیّدہ خدیجہ ؓکا ہوتا۔حضرت ابن اِسحاق ؓ سے مروی ہے کہ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ کو رسولِ کریمﷺ کی راست گوئی، اَمانت اور دیانت کا علم ہوا تو اُنہوں نے حضور ﷺ سے درخواست کہ آپﷺ میرا مالِ تجارت لے کر شام تشریف لےکر جایا کریں۔ میں اَب تک دوسرے تاجروں کو منافع میں سے جس قدر حصّہ دیتی تھی اُس سے و افر مقدار میں آپﷺ کو دوں گی اور اپنے غلام میسرہ کو ساتھ بھیج دوں گی، آپﷺ نے یہ تجویز منظور فرمائی اور اُن کا مال لے کرروانہ ہوئے۔حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ کا غلام بھی اُن کےہمراہ تھا، دونوں شام آئے، تو ایک وہاں واقعہ عجب پیش آیا نسطور راہب کی خانقاہ کے قریب ایک درخت کے سایہ میں فروکش ہوئے،راہب نے میسرہ سے پوچھا یہ ہستی جودرخت کے نیچے آرام فرما رہی ہیں‘ کون ہیں؟ اُس نے کہا‘ یہ اہلِ حرم کے ہاشمی قریش خاندان کے ایک صالح‘ اَمانت دار اور سچے اِنسان ہیں۔ راہب نے کہا‘ اِن کی آنکھوں میں سرخی ہے۔ میسرہ نے کہا ہاں یہ سرخی کبھی اِن سے جدا نہیں ہوتی۔ نسطور نے کہا‘ یہ پیغمبر ہیں اور سب سے آخری پیغمبرﷺ ہیں۔ راہب نے کہا‘ اِس درخت کے نیچے سوائے نبی اللہ کے اور کوئی شخص آج تک فروکش نہیں ہوا۔ رسولِ کریمﷺ یہاں جومال لائے تھے فروخت کر دیا اور جو خریدنا تھا وہ خرید لیا۔ (طبقات ابن سعد)

آپﷺ مکہ مکرمہ واپس پلٹے۔ میسرہ بھی ہمراہ تھا۔ دوپہراور سخت گرمی کے وقت میسرہ کیا دیکھتا ہے کہ آپﷺ اُونٹ پر سوار ہوتے ہیں اور دو فرشتے آپﷺ کو تمازت ِآفتاب سے بچانے کے لیے سایہ کر لیتے ہیں، یہ سب کچھ اُس کے لیے دِل نشین ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اُس کے دِل میں نبی کریمﷺ کی اَیسی محبت ڈال دی کہ گویا وہ نبی کریمﷺ کا غلام بن گیا۔

جب قافلے نے اپناتجارتی سامان فروخت کرکے فراغت پائی تو مال میں معمول سے دو چند نفع ملا۔ رسولِ کریم ﷺ واپسی کے سفر پر روانہ ہوئے تو ظہر کے وقت مکہ مکرّمہ پہنچے،حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ بالاخانے پر بیٹھی ملاحظہ فرما رہی تھیں کہ رسولِ کریمﷺ اُونٹ پر سوار تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے اِدھر اُدھر سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ سیّدہ خدیجہ ؓنے اپنی عورتوں کو یہ نظارہ دِکھایا تووہ بھی اِس دِل کش منظر کو دیکھ کر خوش ہوئیں۔ میسرہ جو ہم سفر تھا اُس نے حضرت سیّدہ خدیجہ ؓکو بتایا کہ میں یہ منظر سارے راستے دیکھتا آیا ہوں۔ میسرہ نے حضرت خدیجہ ؓسے وہ باتیں بھی بیان کردیں جو نسطور راہب نے کہیں تھیں، حضرت سیّدہ خدیجہ،نے جو معاوضہ مقرر کر رکھا تھا، تجارتی قافلہ کے دوچند منافع کی وجہ سے آپ کا منافع بھی دوچندکر دیا۔ (طبقات ابن سعد‘ البد ایہ والنہایہ)

اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓنے خواب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب اُن کے گھر میں اُتر آیا ہے اور اُس کا نور اُن کے گھر سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کاکوئی گھر اَیسا نہیں تھا جو اُس نور سے روشن نہ ہوا ہو۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے بیان کیا، اُس نے خواب کی یہ تعبیر دی کہ نبی آخر الزماں ﷺ تم سے نکاح کریں گے۔

رسولِ کریمﷺ کی شرافت، نسب، امانت، حسنِ اَخلاق اور راست بازی اور آپﷺ پر اللہ تعالیٰ کی عنایات کی وجہ سے اُمّْ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ ؓنے آپﷺ سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی ،جب خود حضرت سیّدہ خدیجہؓ کی اِس پیشکش کا تذکرہ نبی کریمﷺ نے اپنے چچاؤں سے کیا تو حضرت امیرحمز ہؓ ، حضرت خدیجہ ؓسے رشتے کا پیغام لے کر خویلد ابن اسعد کے پاس گئے اُنہوں نے قبول کیا۔

حضرت جبرائیل جب پہلی وحی لے کر آئے اور عرض کیا تو رسولِ کریمﷺ اِن آیاتِ مبارکہ کو لے کر لوٹے آپﷺ کا قلب مبارک مضطرب تھا۔ آپﷺ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓسے احوال بیان فرمایا اور ان سے چادر اوڑھا دینے کی خواہش ظاہرکی، حتیٰ کہ آپﷺ کا اِضطراب جاتا رہا،آپﷺ نے حضرت سیّدہ خدیجہ ؓسے فرشتے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کسی جان لیواخوف کا اظہار فرمایا، حضرت خدیجہ ؓنے جواب میں عرض کیا: ’’نہیں نہیں آپﷺ کوکس بات کا ڈر ہوسکتا ہے، بخدا اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مشقت سے بچائیں گے بے شک آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، اہل قرابت سے عمدہ سلوک کرتے ہیں،دردمندوں کی دستگیری کرتے ہیں، تہی دستوں کی مدد فرماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدہ کی امداد فرماتے ہیں۔‘‘ (بخاری شریف)

آپﷺکی تمام اَولاد سوائے حضرت ابراہیم ؓ کے حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ کے بطن مبارکہ سے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں، رسولِ کریمﷺ کے پہلے فرزند اَرجمند حضرت قاسمؓ ہیں جو اعلانِ نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے،رسولِ کریمﷺ اِنہی کے نام سے کنیت رکھتے تھے،یعنی ’’ابوالقاسم‘‘ اُن کے بعد حضرت سیّدہ زینبؓ پیدا ہوئیں،پھر حضرت سیّدہ بی بی رُقیہؓ پھر حضرت سیّدہ اُمّ کلثوم ؓپھر خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓپیدا ہوئیں، اعلانِ نبوت کے بعد حضرت عبداللہ ؓپیدا ہوئے جن کا لقب طیب و طاہر تھا۔
(طبعات ابن سعد‘ تاریخ طبری‘ البدایہ والنہایہ)

حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ وہ پہلی عظیم خاتونِ اوّل ہیں جن پر اِسلام کی حقیقت سب سے پہلے روشن ہوئی اور اُنہوں نے حضور نبی کریمﷺ کی تصدیق کی اور اپنا تمام مال رسولِ کریمﷺکی رضاکی خاطر خرچ کیا۔حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں: ’’میں نے نبی کریمﷺ کی ازواجِ پاک میں سے کسی پر اِتنی غیرت(رشک) نہ کی جتنی حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر غیرت کی، حالاں کہ میں نے اُنہیں نہ دیکھا تھا لیکن حضورﷺ اُن کا بہت ذکرِ خیر فرماتے تھے۔ بہت مرتبہ بکری ذبح فرماتے پھر اُس کے اعضاء کاٹتے پھر وہ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓکی سہیلیوں کو بھیج دیتے تھے۔ تو میں کبھی آپﷺ سے عرض کر دیتی کہ گویا حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سوا دُنیا میں کوئی عورت ہی نہ تھی۔ تو آپﷺ فرماتے وہ اَیسی تھی وہ اَیسی تھی اور اُن سے میری اَولاد ہوئی۔‘‘ (بخاری شریف)

آپ نے زمانہ جاہلیت کے فساد سے خود کو محفوظ رکھا اور اس زمانے میں آپ کو ملیکہ عرب کے ساتھ ساتھ “طاہرہ” کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اس زمانے میں آپ نےغرباء و فقراء کی مدد کو اپنا وطیرہ بنا رکھا تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متعدد ازواج مطہرات تھیں تاہم درجات کے لحاظ سے مساوی نہ تھیں۔ ان میں سے صرف جناب خدیجہ رضی اللہ عنھا کو یہ شرف حاصل ہے کہ جب تک آپ زندہ رہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد حدیثوں میں آپ کی فضیلت کو بیان فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کس قدر صاحبِ فضیلت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: “خَیرُ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ مَرْیمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آسِیةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ وَ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیلِدٍ وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ”۔ کائنات کی بہترین خواتین مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ ایک اور حدیث میں آپ کو جنتی خواتین میں سے شمار کیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: “أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَرْبَعٌ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیلِدٍ وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَ مَرْیمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آسِیةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فرْعَوْن”۔ چار عورتیں جنت کی بہترین خواتین ہیں: خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون ایک اور جگہ فرمایا: “یَا خَدِیجَۀُ اَنتَ خَیرُ اُمَّهَاتِ المُؤمِنینَ وَ اَفضَلَهُنَّ”۔ اے خدیجہ! تم امہات المؤمنین میں سب سے بہتر اوربا ٖفضیلت ہو۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مردوں میں تو بہت لوگ درجہ کمال کو پہنچے ہیں، مگر عورتوں میں صرف مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ ہی کامل ہوئی ہیں ..... اور عائشہؓ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے کہ تمام کھانوں میں ثرید افضل و اعلیٰ ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

اسلام میں اولاد کی تربیت کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور اس میں ماں کا کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا قرآن کی رو سے تمام مؤمنین کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ اس لحاظ سے بھی پہچانی جاتی ہیں کہ آپ ایسی اولاد کی ماں ہیں جو دنیا کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ آپ نے اپنے دامن میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا جیسی اولاد کی تربیت فرمائی جو سیدہ نساء العالمین کے لقب سے پہچانی جاتی ہیں۔ یہ بچی اپنی ماں سے اس قدر انس رکھتی تھی کہ اپنی ماں کی وفات کے موقع پر اپنے بابا سے پوچھتی ہیں: بابا جان! میری ماں کہاں ہیں؟ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور فرمایا: یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فاطمہ کو میرا سلام دیجیے اور بتادیجیے کہ ان کی ماں حضرت خدیجہ، جناب آسیہ و مریم کے ساتھ جنت میں زندگی گذار رہی ہیں۔ آپ کی زندگی مسلم خواتین کے لیے عمدہ نمونہ ہے آپ نے بہترین بیٹی، بیوی اور بہترین ماں بن کر عورتوں کے لیے مثال قائم کردی ۔