سندھو دریا صرف ایک قدرتی آبی رگ نہیں بلکہ یہ برصغیر کی تہذیب و ثقافت کی جڑ ہے جس کا گہرا تعلق اس خطے کے ہر گوشے سے ہے۔
یہ دریا نہ صرف ایک قدرتی سرمائے کی مانند ہے بلکہ اس کی موجودگی نے یہاں کی معیشت کو پروان چڑھایا، زرعی زمینوں کو زرخیز کیا اور اس کے کنارے آباد انسانوں کی زندگیوں میں ترقی کی راہیں کھولیں۔
سندھی تہذیب کے عظیم آثار جیسے موئن جو دڑو، ہڑپہ اور مہر گڑھ اس دریا کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں جو ہزاروں سال سے زمینوں کو زندگی کی فراہمی کا ذریعہ بن کر اس خطے کی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔
یہ دریا نہ صرف ایک قدرتی عنصر ہے بلکہ ایک ثقافتی، معاشی اور مذہبی شناخت کا حامل بھی ہے جو ہمارے آبا کی قربانیوں اور محنت کا ثبوت ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی نے اس دریا کے قدرتی بہاؤ کو روکنے یا اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی وہ خود تاریخ کے صفحوں میں کہیں گم ہو گیا۔
سکندر اعظم کی فوجوں کو 325 قبل مسیح میں اسی دریا کے کنارے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی عظمت کا تذکرہ صرف اس لئے باقی رہا کہ وہ سندھو کی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکے۔
اس کی فوجیں یہاں سے پسپائی اختیار کر گئیں اور اس کا اثر اس خطے کی تاریخ پر ہمیشہ کے لئے پڑا۔ آج کئی طاقتیں موجود ہیں جو اس دریا کی قدرتی روانی کو روکنے کی کوششیں کر رہی ہیں چاہے وہ اس پر غیر قانونی نہریں بنانے کی سازش ہو یا اس کے پانی پر قبضہ جمانا ہو لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جو بھی اس دریا کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کرتا ہے وہ خود فنا ہو جاتا ہے۔
دریائے سندھ نہ صرف زمینوں کو زرخیز کرتا ہے بلکہ یہ ہمارے آبا کی ثقافت، تہذیب اور معیشت کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس دریا کے کنارے آباد قوم کی زندگی اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
وہ طاقتیں جو اس دریا کے قدرتی بہاؤ کو روکنے یا اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سندھ کے پانی نے کبھی اپنے راستے کو چھوڑا ہو۔ سندھ کا دریا ہمیشہ بہتا رہا ہے اور ہمیشہ بہتا رہے گا۔
چاہے وہ زمینوں پر قابض ہونے والا مافیا ہو یا قدرتی وسائل کے استحصال کی کوششیں کرنے والی طاقتیں ان سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ دریا کبھی نہیں رکے گا۔
وہ خود مٹ جائیں گے مگر سندھ کا دریا اپنی راہ پر گامزن رہے گا اور اس کے ساتھ اس کی ثقافت، تہذیب اور شناخت بھی ہمیشہ زندہ رہے گی۔
تبصرہ لکھیے