ہر دور میں کچھ ایسے افراد سامنے آتے ہیں جو علمی روایت کے دعوے دار بنتے ہیں، مگر درحقیقت ان کے ہاں نہ تو تحقیق کی گہرائی ہوتی ہے اور نہ ہی علمی روایت سے حقیقی وابستگی۔ ایسے افراد محض چنندہ حوالہ جات اور خطیبانہ مہارت کے ذریعے خود کو "محقق" کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انجینئر محمد علی مرزا کا شمار بھی ایسے ہی متنازعہ شخصیات میں ہوتا ہے، جو اپنی طرزِ گفتگو اور چبھتے ہوئے لہجے کی وجہ سے مقبول تو ہیں، مگر علمی حلقوں میں ان کی کوئی خاص پذیرائی نہیں۔
تحقیق ایک سنجیدہ علمی کام ہے، جس میں نئے استدلال، منفرد نظریات، اور بنیادی متون کی گہرائی سے چھان بین شامل ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مرزا صاحب نے اسلامی علوم میں کوئی نیا نظریہ یا فکری زاویہ پیش کیا ہے؟ کیا انہوں نے فقہ، تفسیر، حدیث، یا اصولِ دین میں کوئی ایسی چیز دریافت کی ہے جو پہلے معلوم نہ تھی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی گفتگو محض حوالہ بازی، اقتباسات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے، اور سامعین پر جذباتی اثر ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
ان کی ویڈیوز دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر ماضی کے علما کے کام کو نئے الفاظ میں دہراتے ہیں۔ مگر انداز ایسا ہے کہ جیسے وہ کوئی انقلابی کام کر رہے ہوں۔ وہ اکثر مشہور اسلامی اسکالرز اور فقہا پر کڑی تنقید کرتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ خود ان کا علمی سرمایہ کیا ہے؟ کیا ان کی کوئی تحقیق کسی مستند علمی جریدے میں شائع ہوئی؟ کیا انہوں نے اسلامی دنیا میں کسی علمی فورم پر اپنی تحقیق پیش کی؟ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔
مرزا صاحب کی اصل قوت ان کی خطیبانہ صلاحیت ہے، علمی گہرائی نہیں۔ ان کے اکثر سامعین ایسے افراد ہوتے ہیں جو روایتی مدارس یا جامعات میں دینی علوم حاصل کرنے کے بجائے یوٹیوب سے "اسلام سیکھنے" کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طبقے کے لیے مرزا صاحب کا اندازِ بیان اور ان کی چبھتی ہوئی گفتگو کشش رکھتی ہے، مگر جو لوگ واقعی علمی کام کو جانچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ انہیں ایک غیر سنجیدہ خطیب کے سوا کچھ نہیں سمجھتے۔
ان کے اکثر استدلال غیر متوازن اور علمی معیارات سے خالی ہوتے ہیں۔ وہ ایک روایت کو لے کر اس پر اپنے مخصوص الفاظ کا رنگ چڑھاتے ہیں، مخالفین کا تمسخر اڑاتے ہیں، اور خود کو عقلِ کُل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علمی دنیا میں یہ اندازِ فکر ناقابلِ قبول ہے۔
علمی مکالمہ ہمیشہ دلیل اور تحقیق پر مبنی ہوتا ہے، مگر مرزا صاحب کا انداز زیادہ تر مناظرانہ ہے۔ وہ اختلافِ رائے رکھنے والوں کو سخت الفاظ میں مخاطب کرتے ہیں، انہیں جاہل اور متعصب قرار دیتے ہیں، اور علمی دلائل کے بجائے طنز اور تضحیک سے کام لیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ علمی حلقوں میں ان کی ساکھ کمزور ہے۔ وہ ایک خاص طبقے میں مقبول ہو سکتے ہیں، مگر وہ کسی سنجیدہ علمی شخصیت کے طور پر قبول نہیں کیے جا سکتے۔
آج کے دور میں اسلام کو سب سے بڑا فکری چیلنج الحاد اور جدید نظریاتی حملوں سے ہے۔ سید مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، جاوید احمد غامدی، اور دیگر محققین نے ان چیلنجز کا علمی اور استدلالی سطح پر جواب دیا۔ مگر مرزا صاحب کا زیادہ تر مواد داخلی فرقہ وارانہ اختلافات پر مشتمل ہے۔ وہ اسلام کے بنیادی مآخذ کو جدید فکری حملوں کے خلاف ڈھال بنانے کے بجائے، اسلامی تاریخ اور فقہ کے مخصوص پہلوؤں کو متنازعہ بنا کر عوام میں بے یقینی پیدا کر رہے ہیں۔
اگر وہ واقعی اسلام کے علمی دفاع میں سنجیدہ ہوتے، تو وہ ایک مضبوط، مربوط اور مدلل فکر پیش کرتے۔ مگر افسوس کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
آخر میں، اگر ہم خالصتاً علمی معیار پر پرکھیں، تو مرزا صاحب کا مقام ایک سنجیدہ عالم یا محقق کے بجائے ایک عوامی مقرر یا یوٹیوبر کا زیادہ بنتا ہے۔ ان کے مباحث زیادہ تر سنسنی خیزی، سطحی علمی دلائل، اور مخالفین پر حملوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔
علمی دنیا میں کسی کا مقام اس کے اندازِ بیان سے نہیں، بلکہ اس کے علمی کام سے متعین ہوتا ہے۔ اگر مرزا صاحب واقعی ایک علمی شخصیت بننا چاہتے ہیں، تو انہیں اپنی روش ترک کر کے سنجیدہ تحقیق کرنی ہوگی، ورنہ وہ محض ایک وقتی مظہر کے طور پر تاریخ کے صفحات میں گم ہو جائیں گے۔
تبصرہ لکھیے