ہوم << ہمارے بدلتے ہوئے معاشرتی رویے اور آنے والی نسل - راؤ محمد اعظم

ہمارے بدلتے ہوئے معاشرتی رویے اور آنے والی نسل - راؤ محمد اعظم

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات ہمارے معاشرتی نظام، رہن سہن، خاندانی تعلقات اور سماجی اقدار پر گہرے نقوش چھوڑ رہے ہیں۔ وہ وقت زیادہ پرانی بات نہیں جب لوگ محبت، ہمدردی، اور بھائی چارے کے جذبات سے سرشار تھے۔ دیہات کی زندگی سادگی اور اپنائیت کا نمونہ تھی، جہاں شام کے اوقات میں لوگ مل بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے، دکھ سکھ بانٹتے، اور ایک دوسرے کے لیے خلوص کے جذبات رکھتے تھے۔

خواتین گھروں میں ایک دوسرے کی مددگار ہوتیں، بچے سب کے سانجھے ہوتے، اور گاؤں کے ہر فرد کو اپنے اردگرد کے لوگوں کی فکر ہوتی۔ گھروں میں کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں موجود ہوتیں، اور بنیادی ضروریات کے لیے کسی پر انحصار کم ہی کیا جاتا تھا۔ دودھ جیسی نعمت کو بیچنے کا تصور بھی برا سمجھا جاتا تھا، بلکہ جو زیادہ رکھتا وہ کمزور اور ضرورت مندوں کو بانٹ دیا کرتا۔ یہی نہیں، بلکہ گاؤں میں آنے والا کوئی بھی مہمان صرف ایک گھر کا مہمان نہیں بلکہ پورے گاؤں کا مہمان ہوتا، اور سب اس کی عزت و تکریم کرتے۔

مگر آج کا دور بدل چکا ہے۔ شہروں کی چکاچوند نے لوگوں کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جہاں پہلے بھائی بھائی کے دکھ درد کا ساتھی ہوتا تھا، آج وہی بھائی مختلف شہروں میں بس گئے ہیں، اور عید یا کسی خوشی کے موقع پر ہی ان کی ملاقات ممکن ہوتی ہے۔ وہ بہن بھائی جو ایک ہی صحن میں کھیل کر بڑے ہوئے تھے، آج ایک دوسرے کو دیکھنے کو ترستے ہیں۔ ان کے بچے ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں، اور وہ خلوص و محبت جو پہلے نسلوں میں منتقل ہوتا تھا، آج معدوم ہوتا جا رہا ہے۔

دوسری طرف شہروں میں زندگی ایک دوڑ بن چکی ہے۔ ہر چیز میں ملاوٹ عام ہے، خالص چیزیں ناپید ہو چکی ہیں، اور دیہات کی قدرتی خوبصورتی اور سادگی کہیں کھو گئی ہے۔ جو لوگ شہروں میں آ بسے، وہ زیادہ تر محنت مزدوری پر مجبور ہو گئے، اور جو دیہات میں بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے تھے، وہ آج دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

یہ صورتحال ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کے لیے کیسا ماحول اور کیسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ کیا وہ محبتیں، وہ اپنائیت، وہ خلوص جو ہمارے بڑوں نے ہمیں دیا تھا، ہم اپنی اگلی نسلوں کو دے پا رہے ہیں؟ اگر ہم نے اپنی روایات اور اقدار کو سنبھالا نہ، تو شاید ہماری آنے والی نسلیں صرف کتابوں میں پڑھیں گی کہ کبھی ہمارے معاشرتی رویے کتنے خوبصورت اور مخلص ہوا کرتے تھے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی روایات کو زندہ رکھیں، رشتوں کو مضبوط کریں، اور اپنی نسلوں کو ایک بہتر اور خوشحال مستقبل دیں۔ اگر ہم نے ابھی بھی اپنی اقدار کی حفاظت نہ کی، تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہ کر سکیں۔

Comments

Click here to post a comment