ہوم << غصہ ذات کے لیے یا نظریے کے لیے - سعید مسعود ساوند

غصہ ذات کے لیے یا نظریے کے لیے - سعید مسعود ساوند

کبھی خود سے سوال کریں: جب میں غصے میں آتا ہوں، ناراض ہوتا ہوں، یا کسی بات پر سیخ پا ہوتا ہوں، تو اس کا اصل سبب کیا ہوتا ہے؟ کیا میں اپنی ذات کی حفاظت کے لیے مشتعل ہوتا ہوں یا اپنے نظریے کی پاسبانی کے لیے؟

اگر میرا غصہ اس وقت بھڑکتا ہے جب کوئی میرے نظریے پر حملہ کرے، میرے عقائد کو متزلزل کرنے کی کوشش کرے، یا کسی فاسد سوچ کو مجھ پر مسلط کرنے کی سازش کرے، تو یہ میرے ایمان کی پختگی کی علامت ہے۔ یہ میرے نظریاتی استحکام اور فکری غیرت کی دلیل ہے۔ ایسی کیفیت میں میرا تپنا، بولنا، اور حق کے لیے ڈٹ جانا قابلِ تحسین ہے، کیونکہ یہ وہی راستہ ہے جو حق پرستوں کا ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں میرا جذباتی ہونا میرے یقین کی شدت کو ظاہر کرتا ہے، اور یہ ایک سعادت ہے جس پر جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔

لیکن اگر میرا غصہ صرف اس وقت بھڑکے جب کوئی میری ذات پر تنقید کرے، میری انفرادیت پر ضرب لگائے، یا میرے خلاف زبان دراز کرے، مگر میں اس وقت خاموش رہوں جب حق کا خون بہایا جا رہا ہو، نظریات مسخ کیے جا رہے ہوں، اور معاشرے میں باطل کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہوں، تو پھر میرے غصے کی بنیاد خالص خود پسندی اور نفس کی پرستش کے سوا کچھ نہیں۔ یہ وہی کیفیت ہے جس میں انسان اپنے ذاتی مفادات کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔

جب انسان صرف اپنے دفاع میں غصہ کرے، مگر حق کے لیے خاموش رہے، تو وہ درحقیقت مصلحت پسندی کا شکار ہوتا ہے۔ ایسا شخص نظریات کے قتل عام پر بھی بے حس رہتا ہے، قوم کے زوال پر بھی خاموش رہتا ہے، اور باطل کے پروپیگنڈے کو بھی نظر انداز کرتا ہے۔ پھر نہ اسے دین کی پرواہ رہتی ہے، نہ ایمان کی، نہ وطن کی، نہ قوم کی۔ وہ صرف اپنی ذات کے گرد ایک حصار قائم کر لیتا ہے، جہاں صرف اپنی انا، اپنی عزت، اور اپنے جذبات کا دفاع کرنا اس کا مقصد رہ جاتا ہے۔

یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں فیصلہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے: میں اپنی زندگی کس چیز کے لیے گزار رہا ہوں؟ کیا میں محض اپنی ذات کی خوشنودی کے لیے زندہ ہوں، یا کسی اعلیٰ نظریے کا علمبردار ہوں؟ کیا میرا غصہ اور میری ناراضی حق اور باطل کے معرکے میں کسی مقام پر کھڑی ہے، یا صرف میری اپنی انا کی تسکین کے گرد گھومتی ہے؟

یاد رکھیں، جب آپ کا غصہ، آپ کی محبت، آپ کی ناراضی اور آپ کی رضامندی کسی سچے نظریے کے لیے ہو، تو آپ نہ صرف ایک سچے مومن ہیں بلکہ ایک باہوش اور ذمہ دار شہری، ایک حساس دوست، ایک درد مند باپ، اور ایک نڈر بیٹا بھی ہیں۔ آپ کی جذباتیت آپ کے شعور کا آئینہ بن جاتی ہے، اور آپ کی خاموشی بھی ایک پیغام بن جاتی ہے۔

اب فیصلہ آپ پر ہے: آپ کہاں اور کس لیے طیش میں آتے ہیں؟ کیا آپ کی آگ صرف اپنی ذات کے دفاع میں جلتی ہے، یا آپ کا جذبہ کسی اعلیٰ مقصد کے لیے ہے؟

اللہ ہمیں دین کی غیرت عطا فرمائے اور جاہلانہ ضد، انا، اور بے مقصد غصے سے بچائے۔

Comments

Click here to post a comment