ہوم << خوابوں کے سوداگر - رانا عثمان راجپوت

خوابوں کے سوداگر - رانا عثمان راجپوت

خواب انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو ہیں۔ یہ وہ روشنی ہیں جو اندھیرے میں راستہ دکھاتی ہیں، وہ امید ہیں جو زندگی کو معنی دیتی ہیں، اور وہ خواہش ہیں جو آگے بڑھنے کی طاقت فراہم کرتی ہیں۔ خواب کسی بھی فرد کی سب سے قیمتی متاع ہوتے ہیں، مگر جب یہی خواب تجارت بن جائیں، جب ان کا سودا ہونے لگے، تو حقیقت تلخ ہو جاتی ہے۔ خواب بیچنے والے ہمیشہ چالاک اور عیار ہوتے ہیں، جو نہ صرف دوسروں کے خوابوں سے کھیلتے ہیں بلکہ اپنی فریب کاری سے ان خوابوں کے اصل مالکوں کو بھی بے وقوف بناتے ہیں۔

یہ خوابوں کے سوداگر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ کبھی سیاست کے میدان میں، کبھی محبت کے نام پر، کبھی تعلیم اور کیریئر کے جھوٹے وعدوں میں، اور کبھی مذہب و روحانیت کے پردے میں۔ ان کے ہتھیار مختلف ہو سکتے ہیں، مگر ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے—دوسروں کے خواب بیچ کر اپنا مفاد حاصل کرنا۔

سیاست میں خوابوں کی تجارت
سب سے بڑے خوابوں کے سوداگر وہ ہوتے ہیں جو سیاست کے میدان میں کھڑے ہو کر خوشحالی، ترقی اور بہتر مستقبل کے سبز باغ دکھاتے ہیں۔ انتخابی مہموں میں عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں، غربت ختم کرنے، روزگار دینے، اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں۔ لوگ ان خوابوں کو حقیقت سمجھ کر ان سیاست دانوں پر بھروسا کرتے ہیں، مگر اقتدار میں آتے ہی یہ خواب ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ عوام ان کی حقیقت جاننے تک ایک اور الیکشن آ جاتا ہے، اور یہی خواب دوبارہ بیچے جاتے ہیں، ایک نئے پیکج کے ساتھ، ایک نئی شکل میں، مگر وہی پرانی چالاکی کے ساتھ۔

محبت کے نام پر خوابوں کی نیلامی
محبت بھی خوابوں کی ایک ایسی منڈی ہے، جہاں جذبات کی تجارت کی جاتی ہے۔ اکثر لوگ کسی کے دل میں جگہ بنانے کے لیے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں—ہمیشہ ساتھ نبھانے کے، ہر حال میں وفادار رہنے کے، ہر مشکل میں ہاتھ تھامنے کے۔ مگر جب وقت آتا ہے، تو یہی وعدے دھوکہ ثابت ہوتے ہیں۔ محبت کے نام پر خوابوں کو بیچ کر، انہیں توڑ کر، کچھ لوگ اپنی راہ بدل لیتے ہیں، جبکہ خواب دیکھنے والے کے پاس صرف پچھتاوا اور دکھ باقی رہ جاتا ہے۔ محبت میں خواب بیچنے والے ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں، کیونکہ خواب خریدنے والے اپنی سچائی اور جذبات کی طاقت کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔

تعلیم اور کیریئر کے خوابوں کی تجارت
آج کے دور میں تعلیم بھی ایک کاروبار بن چکی ہے۔ یونیورسٹیاں، کوچنگ سینٹرز، اور ٹریننگ انسٹیٹیوٹس نوجوانوں کو یہ خواب دکھاتے ہیں کہ اگر وہ یہاں داخلہ لے لیں، تو ان کا مستقبل روشن ہو جائے گا، انہیں بہترین نوکریاں ملیں گی، اور کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہزاروں طلبہ لاکھوں روپے خرچ کر کے ڈگریاں تو حاصل کر لیتے ہیں، مگر عملی دنیا میں انہیں وہ مواقع نہیں ملتے جن کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ خواب صرف ان اداروں کے مفاد کے لیے بیچے جاتے ہیں، جبکہ خواب دیکھنے والوں کو بعد میں احساس ہوتا ہے کہ ان کی محنت اور دولت ایک دھوکے میں ضائع ہو گئی۔

مذہب اور روحانیت کے نام پر خواب فروشی
خوابوں کی سب سے خطرناک تجارت وہ ہے جو مذہب اور روحانیت کے نام پر کی جاتی ہے۔ کچھ نام نہاد رہنما لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اگر وہ ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلیں، ان کے دیے ہوئے اعمال کریں، تو ان کی دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔ روحانی عملیات، جعلی دعائیں، اور معجزات کے وعدے کر کے معصوم اور مجبور لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ ان خوابوں کے عوض بڑی رقمیں وصول کی جاتی ہیں، مگر حقیقت میں کچھ نہیں بدلتا۔ یہ وہ کاروبار ہے جس میں خریدنے والا ہمیشہ نقصان میں رہتا ہے، جبکہ بیچنے والا ہمیشہ فائدے میں۔

خوابوں کے سوداگروں سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ خوابوں کا بیچا جانا بند نہیں ہو سکتا، مگر شعور اور آگاہی سے ان سوداگروں کے جال میں پھنسنے سے بچا جا سکتا ہے۔ ہر خواب جو دکھایا جا رہا ہو، ضروری نہیں کہ وہ حقیقت بھی بن سکے۔ اس دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ملتا، اور اگر کوئی کسی کو بغیر محنت کے کچھ دینے کا وعدہ کر رہا ہے، تو وہ یقینی طور پر دھوکہ دے رہا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ حقیقی خواب وہی ہوتے ہیں جو انسان خود دیکھے، جنہیں وہ اپنی محنت اور لگن سے پورا کرے۔ اگر کوئی دوسرا تمہیں کوئی خواب دے رہا ہے، تو یاد رکھو کہ وہ اسے بیچ رہا ہے، اور اس کے بدلے میں تم سے کچھ نہ کچھ ضرور لے گا—چاہے وہ تمہاری دولت ہو، تمہارا وقت ہو، یا تمہاری امید۔

نتیجہ
خواب خوبصورت ہوتے ہیں، مگر جب ان کی تجارت ہونے لگے تو وہ خواب نہیں رہتے، دھوکہ بن جاتے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ خوابوں کے سوداگر موجود ہیں، جو کبھی سیاست میں، کبھی محبت میں، کبھی تعلیم اور کیریئر میں، اور کبھی مذہب اور روحانیت میں لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان کا استحصال کرتے ہیں۔ ان سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان شعور رکھے، حقیقت اور فریب میں فرق کرنا سیکھے، اور صرف ان خوابوں پر یقین کرے جو وہ خود دیکھے، خود سمجھے، اور اپنی محنت سے پورے کرے۔ ورنہ یہ دنیا ہمیشہ خواب بیچتی رہے گی، اور خواب خریدنے والے ہمیشہ نقصان میں رہیں گے۔