ہوم << ایثار کا چراغ - بنت شریف

ایثار کا چراغ - بنت شریف

گاؤں کے کنارے پر ایک چھوٹا سا گھر تھا، جہاں زرینہ اپنے بیٹے حارث کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کا شوہر دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اور زندگی کے تمام مسائل کا بوجھ اب زرینہ کے کندھوں پر تھا۔ حارث پڑھائی میں بہت ذہین تھا، لیکن غربت نے اس کے خوابوں کو دھندلا دیا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ ڈاکٹر بنے اور اپنے گاؤں کے لوگوں کی خدمت کرے، مگر اس کے لیے تعلیم حاصل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔

ایک دن گاؤں میں اعلان ہوا کہ شہر کے ایک بڑے اسکول میں داخلے کے لیے امتحان ہونے والا ہے۔ اگر کوئی طالب علم کامیاب ہو جائے تو اسے مفت تعلیم دی جائے گی۔ یہ سن کر حارث کی آنکھوں میں امید کی روشنی جاگ اٹھی، لیکن زرینہ جانتی تھی کہ شہر جا کر امتحان دینے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔

زرینہ نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی گنی، مگر وہ بہت کم تھی۔ اس کے پاس بس ایک ہی قیمتی چیز تھی، اس کی ماں کی دی ہوئی سونے کی انگوٹھی، جو اس کے لیے سب سے یادگار شے تھی۔ ایک رات وہ خاموشی سے اٹھ کر قریبی سنار کے پاس گئی اور وہ انگوٹھی بیچ دی۔ صبح جب حارث بیدار ہوا تو اس کی ماں نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ میں کرایے اور اخراجات کے لیے رقم رکھی اور کہا، "بیٹا، خوابوں کی راہ میں اگر قربانی دینی پڑے، تو کبھی پیچھے نہ ہٹنا۔"

حارث نے امتحان دیا اور کامیابی حاصل کی۔ سالوں بعد وہ گاؤں واپس آیا، مگر اب وہ ایک ڈاکٹر تھا۔ اس نے گاؤں میں ایک چھوٹا سا کلینک بنایا تاکہ وہ اپنے لوگوں کی خدمت کر سکے۔ گاؤں کے ہر فرد کو معلوم تھا کہ یہ سب ایک ماں کی قربانی اور ایثار کی بدولت ممکن ہوا۔ زرینہ کے ایثار کا چراغ ہمیشہ کے لیے جل اٹھا تھا۔

وقت گزرتا گیا اور حارث نے محنت اور لگن سے نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ آس پاس کے دیہات میں بھی اپنا نام روشن کیا۔ وہ دن رات محنت کرتا، مریضوں کا علاج کرتا اور اپنی ماں کی دعاؤں کی بدولت ہر مشکل کو آسانی میں بدل دیتا۔ ایک دن ایک بوڑھی عورت اپنے بیمار پوتے کو لے کر آئی۔ وہ بے حد پریشان تھی کیونکہ اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں تھے۔ حارث نے اسے تسلی دی اور بغیر کسی فیس کے بچے کا علاج کیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے لوگ اس کی انسانیت اور ایثار کے مزید معترف ہو گئے۔

ایک دن حارث نے اپنی ماں زرینہ سے کہا، "ماں، جو خواب آپ نے میرے لیے دیکھا تھا، وہ پورا ہو گیا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ گاؤں میں ایک بڑا اسپتال بناؤں، جہاں ہر غریب کا مفت علاج ہو۔" زرینہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ اس نے بیٹے کو دعائیں دیں اور کہا، "بیٹا، ایثار کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ جب تک ہم دوسروں کے لیے کچھ نہ کچھ قربان کرتے رہیں گے، تب تک ہمارا دیا جلتا رہے گا۔"

حارث نے اپنی زندگی کا مقصد دوسروں کی مدد کرنا بنا لیا۔ جلد ہی گاؤں میں ایک جدید اسپتال کی بنیاد رکھی گئی، جہاں غریبوں اور یتیموں کا علاج مفت کیا جاتا تھا۔ اللہ کے کرم، زرینہ کی قربانی، حارث کی محنت اور ایثار کی روشنی اب ہر طرف پھیل چکی تھی۔
حارث نے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا، جہاں غریب طلبہ کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا، "تعلیم اور صحت، کسی بھی قوم کی ترقی کے بنیادی ستون ہیں۔ اگر ہم مل کر کام کریں، تو کوئی بھی خواب ادھورا نہیں رہتا۔"