رمضان المبارک رحمت ، مغفرت اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ عبادات، صبر، ایثار اور تقویٰ کا درس دیتا ہے۔ دنیا بھر میں اس مہینے کے دوران مسلمان ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، زکوٰۃ و خیرات کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے، اور ہر طرف نیکیوں کی بہار آ جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ہر سال رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جب دیگر مسلم ممالک میں رمضان کے موقع پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں، وہیں پاکستان میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ چینی، آٹا، گھی، دالیں، گوشت، سبزیاں، اور دیگر روزمرہ کی اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں، اور یوں یہ مقدس مہینہ عام آدمی کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بن جاتا ہے۔
پاکستان میں رمضان کے دوران مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں مصنوعی قلت، ناجائز منافع خوری، حکومتی عدم توجہی، اور عوام کی بے بسی شامل ہیں۔ رمضان سے قبل ہی منافع خور اور تاجر اشیائے ضروریہ کو ذخیرہ کر لیتے ہیں، جس کے باعث بازار میں قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب طلب بڑھتی ہے تو قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ چینی، آٹا، گھی اور دیگر بنیادی اشیاء کی قلت پیدا کر کے ان کی قیمتوں کو غیر معمولی طور پر بڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں رمضان المبارک کو ایک طرح سے "کمائی کا سیزن" سمجھا جاتا ہے۔ بڑے تاجر اور دکاندار اس مقدس مہینے میں نیکی اور ہمدردی کے بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ عام اشیاء کی قیمتیں دگنی یا تین گنا تک بڑھا دیتے ہیں، جب کہ ان کی پیداواری لاگت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔ ہر سال رمضان سے قبل حکومت سستے بازار، رمضان پیکجز، اور سبسڈی جیسے اعلانات کرتی ہے، لیکن ان اقدامات کا عملی اثر زیادہ نظر نہیں آتا۔ سرکاری نرخوں پر اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں، اور جو ہوتی ہیں، ان کی کوالٹی انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور کرپشن کے باعث مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
عوام خود بھی مہنگائی کے مسئلے کو بڑھانے میں کسی حد تک شریک ہیں۔ جب رمضان آتا ہے تو لوگ ضرورت سے زیادہ اشیاء خریدنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر لوگ اعتدال سے خریداری کریں، تو مہنگائی کے مسئلے کو کسی حد تک قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر غریب اور متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ رمضان کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عام آدمی کے لیے روزہ رکھنا اور افطاری کا بندوبست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دیہاڑی دار مزدور اور غریب طبقہ، جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہوتا ہے، رمضان کے دوران دو وقت کی روٹی کے لیے مزید پریشان ہو جاتا ہے۔ مہنگی اشیاء کی وجہ سے بہت سے لوگ معیاری کھانے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ سفید پوش طبقہ، جو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محدود آمدنی پر گزارا کرتا ہے، رمضان میں مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یا تو قرض لینے پر مجبور ہو جاتا ہے یا پھر اپنی بنیادی ضروریات میں مزید کمی کردیتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے مستحق افراد کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے زکوٰۃ، فطرانہ اور خیرات دینے والے افراد پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ رفاہی ادارے اور مخیر حضرات زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں، تو ان کی مدد بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے ۔
مسئلے کا اب حل یہ ہے کہ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت، تاجروں اور عوام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ ہر شہر میں ایک فعال پرائس کنٹرول کمیٹی ہونی چاہیے جو قیمتوں کی نگرانی کرے اور عوامی شکایات کا فوری ازالہ کرے۔ رمضان کے دوران ہر علاقے میں معیاری سستے بازار قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو مناسب داموں اشیاء مل سکیں۔ تاجروں کو چاہیے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف فراہم کریں اور نفع کمائیں لیکن ناجائز منافع خوری سے بچیں۔ اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ سپلائی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر لوگ اپنی ضروریات کے مطابق خریداری کریں اور ذخیرہ اندوزی نہ کریں، تو طلب اور رسد میں توازن برقرار رہے گا اور قیمتیں کم ہوں گی۔ اگر دکاندار غیر ضروری طور پر قیمتیں بڑھا رہے ہیں تو عوام کو چاہیے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کریں اور سرکاری نرخوں پر خریداری کریں۔ رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کا رجحان بڑھایا جائے تاکہ غریب افراد کی مشکلات کم ہو سکیں۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں صبر، ایثار اور دوسروں کی مدد کا درس دیتا ہے، لیکن پاکستان میں مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کے باعث یہ مہینہ کئی لوگوں کے لیے مشکلات لے کر آتا ہے۔ اگر حکومت، تاجر، اور عوام مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں تو رمضان کی حقیقی برکات سب تک پہنچ سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کرے، تاجر ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے باز آئیں، اور عوام شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خریداری میں اعتدال پیدا کریں۔ اسی صورت میں رمضان المبارک حقیقت میں رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ بن سکے گا، اور عام آدمی بھی اس کی برکات سے فیض یاب ہو سکے گا۔
تبصرہ لکھیے